Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

جنات کا پیدائشی دوست

ماہنامہ عبقری - اکتوبر 2018ء

کھانے میں شیطانی لعاب:ایک دفعہ وہ کھانا کھارہی تھی اس نے کھانے میں بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نہیں پڑھا تھا‘ میں اس کے کھانےمیں شریک ہوگیا اور چند لقمے کھائے اور اس کے کھانے میںاپنا لعاب ڈال کر چلا آیا۔ اس بزرگ خاتون کو ذرااحساس نہ ہوا۔ جس طرح ہمارا ہاتھ کا لگانا زہریلا ‘ہمارا ساتھ لگنا زہریلا پن‘ اسی طرح ہمارا لعاب بہت زہریلا اور خطرناک ہوتا ہے اور جس کسی کو یہ زہریلا اور خطرناک لعاب لگ جائے اس کی زندگی میں کبھی چین اور سکون نہیں آسکتا اور ہم یہ لعاب جس نیت سے اس کے کھانے میں‘ اس کے جسم میں داخل کریں وہی کچھ ہوجاتا ہے۔میں نے اس نیک اور مخلص خاتون کے کھانے میں گناہوں کے تصور کے ساتھ یہ لعاب ڈالا‘ اس نے کھانا کھالیا لیکن کھانا کھاتے ہی اس کی نظریں بدل گئیں‘ اس کی سوچیں‘ اس کے جذبے‘ اس کے انداز بدل گئے پھر تو اس کے دن رات ہی بدل گئے۔ اس کے منہ پر اچانک گالیاں آنا شروع ہوگئیں اور نماز تسبیح، ذکر، اذکار، درود پاک، تہجد، سجدے، صدقے، خیرات اچانک بہت بری طرح سے کم ہونا شروع ہوگئے ۔ نیکی نہ کرنے والے سب کچھ پاگئے:اور ایسے کہ اسے خود احساس بھی نہ ہوا کہ اس نے خود ہی کہنا شروع کردیا، میں غریب ہوں‘ میں نے بہت نماز ذکر تسبیحات کیں‘آخر کیا پایا؟ دیکھو فلاں بندہ مالدار ہے‘ نہ نماز‘ نہ تسبیح‘ نہ ذکر‘ نہ نیکیاں‘ نہ اعمال کرتا ہے‘ مال ہے‘ دولت ہے‘ گھر ہے‘ سواریاں ہیں‘ نوکر ہیں‘ میں نےتو زندگی میں آج تک نیکی سے کچھ نہیں پایا۔ انہوں نے نیکی نہیں کی سب کچھ پایا۔ یہ سب سوچیں اس کی میرے زہریلے لعاب کی وجہ سے آنا شروع ہوگئیں میں خوش ہورہا تھا کہ اس کی زندگی بدل گئی‘ اس کی سوچیں گھٹیا ہورہی ہیں پھر اس نے اپنا مصلیٰ ایک طرف پھینک دیا ۔قرآن پاک کی( نعوذ باللہ) بے قدری کرنے لگی‘ رب کے بارے میں اس کا خیال اور گمان بہت عجیب و غریب ہوگیا۔ اس کی سوچیںمنفی ہوتی گئیں‘لوگ دیکھ دیکھ کر حیران ہوتے تھے‘ گھر والے حیران ہوتے جو عورت ہر بول پر اللہ خیر اور سبحان اللہ کہتی تھی اب ہر بول پر اس نے گالیاں اور بددعائیں دینا شروع کردیں پھر کچھ عرصہ کے بعد اس کے بول بڑے ہونا شروع ہوگئے۔ اس کے اندر تکبر غرور بڑھنا شروع ہوگیا۔ پھر وہ پاگل ہوگئی:اس سے پہلے اس کے مزاج میں عاجزی تھی‘ محبت تھی‘ مروت تھی‘ سچائی اور وفا تھی‘ اب اذان ہوتی اس پر اثر نہ ہوتا‘ لوگ نماز پڑھتے وہ محسوس نہ کرتی بلکہ اپنی نماز نہ پڑھنے کو وہ صحیح کہتی‘ لوگوں کو کہتی تم نے جتنا پڑھنا ہے پڑھ لو‘ میں نے بھی بہت پڑھی تھی لیکن کچھ نفع نہیں پایا اور فائدہ نہیں پایا۔ نہ پڑھو نماز‘ نہ کرو ذکر‘ نہ کرو تسبیحات پھر وہ جاہلانہ شاعری گاتی جس میں تسبیح اور ذکر کے بارے میں منع کیا جاتا اور ایسے جاہلانہ بول بولتی جس سے ایمان جانے کا خطرہ ہوتا‘نامعلوم اس کا ایمان چلا گیا تھا اور اسے اس کی کوئی خبر اور احساس نہیں تھا اور حتیٰ کہ وہ خاتون مزید کچھ سال زندہ رہی پھر وہ پریشانیوں اور بیماریوں میں مبتلا ہوگئی‘ کچھ عرصہ کے بعد وہ پاگل ہوگئی پھر آخر کار گھر کے ایک کمرے میں اسے بند کردیا گیا‘ وہ ہروقت کپڑے اتار کر رکھتی‘ بال بکھرے ہوئے‘ بدن سے بدبو آتی۔آخر کار وہ ختم ہوگئی: اس سے پہلے بہت پاکیزہ تھی ‘لوگوں نے اسے پاگل کہنا شروع کردیا ‘ علاج ہوا ‘ادویات دیں لیکن اس علاج نے اسے کوئی فائدہ نہ دیا۔ وہ ایسے ہی پاگل پن میں آخر کارختم ہوگئی۔ وہ کالے دھوئیں سے بنا جن مزید بولا: کئی نوجوانوں کو ‘کئی دین دار لوگوں کو‘ کئی دیانت دار لوگوں کو میں نے خیانت کی طرف مبتلا کیا۔ کئی نوجوانوں کو باغیانہ ذہن‘ باغیانہ سوچ اور باغیانہ خیال کی طرف متوجہ کیا۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جن کومیں نے گھٹیا سوچیں اورنامراد سوچیں دیں اور وہ لوگ اپنی ان سوچوں میں بہت زیادہ برباد سے برباد تر ہوتے گئے اور ان کی زندگیاں بد سے بدتر ہوتی گئیں ۔ حالات ان کے ختم سے ختم ہوتے گئے۔ انوکھی زندگی:میں اس کالے جن کی یہ گفتگو سن رہا تھا اور شاید زندگی میں کچھ مرتبہ ہی ایسا ہواتھا میرے ساتھ کہ کسی جن نے برملا اپنے بارے میں یہ بیان کیا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتا اور لوگوں کو پریشان
کرتا تھا اور لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے‘ دین سے‘ اخلاق سے‘ امانت سے‘ دیانت سے‘ سچائی سے دورکرتا ہے۔ بس یہ زندگی کوئی انوکھی ایسی زندگی تھی کہ میں حیران ہوگیا پھر مجھے احساس ہوا کہ اللہ کے نبی ﷺ کی قدم قدم پر شیاطین سے پناہ مانگنے کی آخر دعائیں کیوں ہیں؟ واقعی اس لیے ہیں کہ یہ شیطان انسان کے زندگی میں شر کے معاملے میں بہت دخل رکھتے ہیں اور شر کی زندگی کو پھیلانے میں یہ شیطان حد سے بدتر ہیں‘ میں اس رمضان میں یہ انوکھا سبق پاکر بہت افسردہ ہوا اور لوگ میرے خیال میں مسنون دعاؤں سے بہت دور جاچکےہیں اور اس کی وجہ سے گناہوں‘ بیماریوں‘ تکالیف‘ مشکلات اور مسائل میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
میں بھی لوگوں کو گمراہ کرتا رہا ہوں:تھوڑی دیر کے بعد مجمع کا ایک اور جن کھڑا ہوا اور کہنے لگا : میرے تجربات کے مطابق اگر جنات کالے دھوئیں سے بنے ہوئے نہ بھی ہوں ‘صرف آگ سے بنے ہوئے ہیں تو بھی وہ جنات زندگی میں مشکلات‘ مسائل‘ پریشانیاں اور ناکامیاں پیدا کرنے کا بہت بڑا حصہ بنتے ہیں۔ وہ کہنے لگا : میں آگ سے بنا ہوا جن میری زندگی بھی اسی طرح پہلے لوگوں کو گمراہ کرنے پریشان کرنے اور لوگوں کے سامنے مسائل پیدا کرنے کا ذریعہ بنتی تھی اور پھر اسی ہستی کی طرف اس نے اشارہ کیا جس کا مجھے بعد میں احساس ہوا کہ وہ جنات کے بہت بڑے شیخ اور پیر ہیں‘ بزرگ اور مرشد ہیں ان کےذریعے سے واقعی سینکڑوں نہیں ہزاروں‘ لاکھوں‘ جنات کی زندگیاں بدلیں‘ ان کی وجہ سے خیریں آئیں‘ خوشیاں آئیں اور کامیابیاں آئیں اور ناکامیاں ختم ہوئیں۔میں سراسر برائی اور بدی پر تھا:وہ کہنے لگا : میں آگ سے بنا ہوا جن ہوں‘ میں کالے دھوئیں سے نہیں بنا لیکن کچھ بُرے دوستوں کی وجہ سے میں بھی اپنی زندگی کو انہی راہوں پر چلا بیٹھا جن راہوں پرمیری زندگی اتنی دورچلی گئی کہ میں سمجھتا رہا کہ شاید میں خیر پر ہوں‘ سچائی پر ہوں لیکن بعد میں احساس ہوا کہ میں خیر اور سچائی پر نہیں تھا بلکہ میں سراسر برائی اور بدی پر تھا۔
اپنا ایک واقعہ سنایا :میں ایک بار ایک کشتی میں سفر کررہا تھا‘ کشتی میں بہت سے انسان بیٹھے تھے میں بھی ساتھ بیٹھا ہوا تھا میرے دل میں آیا کہ کشتی میں بہت سکون ہے‘ بہت چین ہے‘ لوگ خوشی خوشی سفر کررہے ہیں کیوں نہ یہاں کوئی ناگواری ایسی آئے جس کی وجہ سے انہیں بہت بڑی پریشانی ہو اور بہت بڑی مصیبت اور الجھن میں یہ لوگ مبتلا ہوجائیں۔ میں خود ایک کیڑا بن گیا اور میں ایک بندے کے سر پر چڑھ کر اس کی گردن تک پہنچا اور اسے زور سے کاٹا جب زور سے کاٹا تو اس نے اچانک اپنے بازو سے مجھے جھٹکنا چاہا اور مجھے دریا میں پھینک دیا لیکن اس کا بازو قریب بیٹھے آدمی کو بڑی بری طرح لگا‘ اس شخص نے پکڑ کر اس کا بازو مروڑ دیا اور برا بھلا کہنا شروع کردیا چونکہ میں اسے ڈس چکا تھا اب تو اس کے تن بدن میں آگ لگنی تھی اور شر پسندی پیدا ہونی تھی‘ بس اب جھگڑا شروع ہوگیا حتیٰ کہ اتنا جھگڑا ہوا کہ پوری کشتی میں کچھ لوگ اس کے ساتھ ہوگئے کچھ دوسرے کے ساتھ ہوگئے اور ایک عجب کشمکش مار کٹائی شروع ہوئی۔ اور سب ڈو ب گئے: میں یہ سب کچھ بڑے مزے سے دیکھ رہا تھا اوراس جھگڑے سے لطف اندوز ہورہا تھا حتیٰ کہ اب تو ساری کشتی میں جھگڑا شروع ہوگیا اور ملاح بار بار چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ کشتی ڈوب جائےگی‘ ایسا نہ کرو اورکشتی میں سوار کوئی بھی شخص ملاح کی بات سننے کو تیار نہیں تھا‘ دو بندے کشتی سے باہر گرے اور ڈوب گئے لیکن اس کے باوجود بھی کچھ لوگوں نے افسوس کیا نہ بچانے کیلئے شورشرابہ کیا لیکن جھگڑا ابھی تک جاری تھا۔ جن مزید بولا:جس بندے کی گردن میں میں نے اپنا لعاب اور زہر داخل کیا تھا اس انسان میں جیسے پچاس بندوں کی طاقت آگئی تھی اور وہ ہر بندے سے لڑ رہا تھا اور ہر بندے کو مار رہاتھا اس کی آنکھوں کے سامنے شیشے تھے‘ اس کا دل پتھر کا ہوگیا تھا‘ اس کی زبان بری طرح گالیاں دے رہی تھی‘ اس کا جسم تھرتھرا رہا تھا‘ اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی‘ اس کے ہاتھ جیسے لوہے اور پتھر کے بن گئے تھے‘ لوگ اسے مار رہے تھےمگر اسے کوئی اثر نہیں ہورہا تھا ‘وہ اس سے زیادہ لوگوں کو مار رہا تھا‘ ہر کسی سے الجھ رہا تھا اور لڑرہا تھا ‘حتیٰ کہ ایک دم کشتی کا ایک کونا ٹوٹا اور کشتی ساری کی ساری پانی میں ڈوب گئی‘ ملاح صرف ایک بچے کو بچا سکا باقی ساری کشتی ڈوب گئی اور اس کے کنارے ختم ہوگئے اور لوگ چیخ و پکارکرتے کرتے ڈوب گئے۔ مجھے سب کے مرنے کی خوشی تھی: مجھے اس بچے اور ملاح کے بچنے کاافسوس تھا لیکن باقی سب کے مرنے کی خوشی تھی۔ وہ جن ٹھنڈی آہ بھر کر اس درویش کی طرف دیکھنے لگا اور اپنے ہاتھوں پر ہاتھ مار کرکہنے لگا۔ انہوں نے مجھے جینے کا سلیقہ دیا ہے ورنہ تو میں بالکل پاگل اور وحشی بن چکا تھا اورمیں نے اپنی زندگی کے دن رات کو ایسے گزارنے کا فیصلہ کیا‘ خود مجھے بھی پتہ نہیں تھا‘ زندگی کہتے کسے ہیں؟ اسی کا نام زندگی ہے؟: میں اپنی زندگی کو بہت بری طرح گزار رہا تھا‘ میرے دن رات کانٹے تھے‘ میری سوچوں میں ہروقت طلاطم تھا شر کا‘ جھگڑے کا‘ فساد کا ‘گناہوں میں رہنے کا اور گناہوں میں مبتلا کرنے کا مجھے اپنی زندگی میں ایک احساس ضرور تھا کہ میں جو کررہا ہوں بالکل ٹھیک کررہا ہوں اسی کا نام زندگی ہے اس کے علاوہ مجھے کوئی احساس نہیں تھا‘ مجھے آج تک کسی پر ترس آیا نہ رحم آیا نہ میں نے کسی پر رحم کیا‘ بس ایک خیال تھا‘ ایک سوچ تھی کہ میں نے اپنی زندگی کو ایسے ہی گزارنا ہے اور میں ایسے ہی گزار رہا تھا کہ بس اچانک یہ درویش مجھے ملے ‘انہوں نے مجھے اپنی زندگی کو بدلنے کا فیصلہ کروایا ۔الحمدللہ مسلمان ہوں:تھوڑی دیر ہوئی اس کی بات کے درمیان میں وہ درویش بولے‘ الحمدللہ مسلمان ہوں‘ مومن ہوں اور ایمان والا ہوں اور کامل ایمان رکھنا اور دل میں اس کو سنبھالنا میرے عقیدے کا حصہ ہے ‘میں آپ کے ذریعے تمام انسانوں کو ایک پیغام دیتا ہوں اور وہ پیغام یہ ہے کہ اگر زندگی کو سچائی اور خیر کے ساتھ گزارنا ہے اور زندگی کو برائیوں اور بدکاریوں سے دور رکھنا ہے اور زندگی کو مشکلات‘ مسائل‘ الجھنوں اور ناکامیوں سے بچانا ہے تو پھر خاموشی سے ایک فیصلہ کریں اور وہ فیصلہ یہ ہے کہ آج کے بعد مسنون دعائیں اور حفاظت والے اعمال سےتوجہ ہرگز نہ چھوڑیں ۔ میرے پاس تو ہزاروںجنات ہیں:اور وہ بزرگ جن مزید کہنے لگے یہ دو واقعات آپ کے سامنے بیان ہوئے ہیں میرے پاس توایسے ہزاروں جنات ہیں جن کا تعلق صرف اور صرف انسانوں کو حتیٰ کہ خود جنات کو گناہوں‘ برائیوں‘ بدکاریوں‘ بیماریوں اور پریشانیوں تکالیف اورمصائب میں مبتلا کرنا تھا اور یہ اسی میں زندہ تھے اسی میں جی رہے تھے اور اسی میں مگن تھے اور اسی میں خوشحال تھے لیکن جب ایمان کی روشنی آتی ہے تو پھر آنکھیں ہٹتی ہیں تو آنکھیں کھلتی ہیں اور پھر ایک احساس ہوتا ہے وہ زندگی غلط تھی زندگی تو کچھ اور تھی جس زندگی کو ہم بہت عرصہ سے فراموش کرچکے تھے اصل زندگی وہی ہے جس زندگی کو ہم نے فراموش کردیا تھا۔ میں خاموشی سے یہ ساری گفتگو سن رہاتھا میں حیران ہورہا تھا کہ ہماری زندگی میں جنات کا دخل کتنا گہرا اورکتنا زیادہ ہے اور میرے دل میں ایک پریشانی ہورہی تھی کہ اب تک لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ بلکہ اس سے زیادہ ایسے ہوں گے جو جناتی اور شیطانی مخلوق کی بھینٹ چڑھ گئے اور کتنے لوگ اب تک ایسے ہیں جو ان کی چالوں کا حصہ بن رہے اور ان شریر جنات کا وار کتنا خطرناک ہے کہ انسان کو احساس بھی نہیں ہوتا اور انسان ان کی چالوں میں دھنستا اور پھنستا چلا جاتا ہے اور پھر آنکھ تو شاید نہ کھلے کیونکہ جنات ایسے لوگوں کی پھر آنکھ بھی نہیں کھلنے دیتے اور ان کا شکار اسی حالت میں آخرکار موت کی وادیوں میں کھو جاتا ہے۔کالے اور شریر جنات کے تالے: پھر میرے دل میں خیال آیا کہ کتنے لوگ ایسے ہیں جن کو کلمہ نصیب نہیں‘ ان پر کفر کے تالے لگے ہوئے ہیں‘ وہ تالے دراصل یہی کالے اور شریر جنات ہیں اور ان کالے اور شریر جنات نے ان کو تالوں میں جکڑا ہوا ہے‘ ان کے تالے کھولنے کیلئے صرف اور صرف ایک راستہ‘ ایک منزل ہے‘ وہ ہے قرآنی الفاظ اور حدیث کے روحانی بول‘ بس اس کے علاوہ اور کوئی منزل اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں اور یہی منزل اور راستہ ہے اور اسی منزل اور راستہ کو ہم دراصل آج کھوچکے ہیں‘ فراموش کرچکے ہیں تو کیوں نہ واپس اپنی منزل اور راستہ پرآئیں‘ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ رمضان میں کئی لوگوں کے پاس گیا اور ان کے ہاں جاکر میں نےختم قرآن کی دعاکروائی لیکن یہ ختم قرآن اور ختم قرآن کے یہ واقعات میرے لیے جہاں عجیب وغریب تھے وہاں افسردگی لیے ہوئے بھی تھے۔ (جاری ہے)

 

 

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 009 reviews.