کیا دنیا میں اب بھی ایسے ظالم ہیں:پورامجمع غم کے حالات کو حیرت اور درد سے دیکھ رہا تھا۔ حیرت اس لیے کہ کیا دنیا میں ایسے لوگ بھی ابھی تک موجود ہیں جن کا ظلم و ستم اور جن کا جبر اور استبداد اتنا زیادہ کیسے ممکن ہے؟ ہاں! پرانے وقتوں میں ایسے لوگوں کےواقعات تو ضرور سنتے تھے کیا اب بھی ایسے لوگوں کے واقعات زندگی میں موجود ہیں کہ جنہوں نے اتنی زیادہ مخلوق کو تکلیف دی‘ ان میں نہ جن بخشا گیا نہ انسان‘ ہر ایک کو اس نے اذیت کی دھار چڑھایا اور اذیت بھی ایسی دی کہ سننے والے کا منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا تھا اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی تھیں۔ بادشاہ بیٹھا تمام مجمع سے ان کے دکھوں کےحالات سن رہا تھا‘ دکھیاروں نے اپنی کہانیاں بڑھائیں اور دکھی لوگوں نےا پنی داستانیں سنائیں‘
بھیانک خطرناک آواز:ایک دکھی انسان کہنے لگا: میں ایک دن نہا رہا تھا مجھے محسوس ہوا کہ میرے ہاتھ سے کسی نے صابن چھین لیا ‘ میں سمجھا کہ شاید صابن گرگیا ہے‘ میں نے صابن کو دائیں بائیں تلاش کیا‘ پر صابن نہیں ملا‘ دوبارہ تلاش کیا مگر نہ ملا‘ پھر مجھے زور کا اک قہقہہ سنائی دیا اور اس میں سے ایک بھیانک خطرناک اور سیٹی کی طرح تیز آواز جس نے میرے کانوں کو چیر کر رکھ دیا آواز آئی: تم بہادر ہو تو مجھ سے صابن لے کر دکھاؤ ‘تم عقلمند ہو تو مجھ سے لڑنے کی کوئی تدبیر بناؤ‘ تم صحت مند ہو تو مجھ سے مقابلہ کرو‘ میں حیران پریشان کہ یہ آواز کسی انسان کی محسوس نہیں ہوتی یقیناً یہ آواز کسی شیطانی چیز یا جن کی ہے‘ میں بہت پریشانی کے عالم میں یہ آواز سنتا رہا‘ میں نہا کر فارغ ہوا‘ چند دنوں کے بعد میں یہ واقعہ بھول گیا‘ لیکن کبھی کبھی یاد آتا تو حیرت ہوتی کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ مسلسل پریشانی ہی پریشانی:چند ہی دنوں کےبعد میرا بیٹا کھڑا تھا ایسے محسوس ہوا کہ کسی نے اسے دھکا دیا اس کی تین پسلیاں اور ایک بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی‘ مجھے بہت پریشانی ہوئی‘ اس کے علاج معالجہ میں لگ لگے‘ ایک دفعہ ہڈی بنوائی صحیح جگہ نہ لگی پھر ہڈی کو درست کروایا‘ پھر صحیح جگہ نہ بیٹھی اسی طرح میں مسلسل پریشانی کے عالم میں اپنے گھر کا علاج کرواتا رہا‘ میری دوسری بچی کو سخت بخار ہوگیا اور تمام گھر اسی بخار اور پریشانی میں مزید مبتلا ہوگیا‘ حتیٰ کہ جتنی دوائی دیتے تھے بیماری اور بگڑ جاتی تھی اور جتنا علاج کراتے تھے تکلیف اور زیادہ پھیل جاتی تھی۔ اِدھر بیٹے کی کراہیں اور آہیں اُدھر گھر میں بخار کی تکلیف‘ میں ٹوٹ کر رہ گیا:ابھی دو ہفتے بھی نہیں گزرے تھے کہ میرے گھر کی ایک بالکل صحیح سالم دیوار میں دراڑ پڑنا شروع ہوگئی اور دڑار صرف دو دنوں میں اتنی واضح ہوگئی کہ خطرہ تھا کہ دیوار گرجائے گی کیونکہ غریب سفید پوش دھوبی ہوں اور میں لوگوںکے کپڑے دھو کر زندگی کا گزارہ کرتا ہوں‘ میری زندگی میں ایسے ایسے عجیب و غریب حالات کہ جس سےمیں ٹوٹ کر رہ گیا‘ میں نے دیوار کو دائیں بائیں سے لکڑیوں کی ٹیکیں دیں لیکن دیوار مزید پھٹتی چلی گئی ایسے محسوس ہوتا تھا کہ کوئی شخص اس کو آکر آری سے روزانہ کاٹ دیتا ہے اور روزانہ چیر دیتا ہے۔ میرا سب کچھ تباہ و برباد ہوگیا:یہ سلسلہ مزید چلتا گیا‘ حتیٰ کہ ایک دن بہت دھماکے سے دیوار گری‘ انسان تو بچ گئے لیکن گھر کا سارا سامان برباد ہوگیا‘ اس دن میں جی بھر کر رویا‘ میرے سارے گھر والے آنسو بہا رہے تھے کیونکہ وہ دیوار کمرے کی تھی اور اس کی وجہ سے میرے گھر کاواحد کمرہ گر گیا‘ گرمیوں کی رات تھی اور سب کچھ ایک دھماکہ سے گر گیا جس سے میرے گھر کا سامان بھی دب گیا اور لوگوں کے کپڑے بھی دفن ہوگئے۔ مقابلہ کی طاقت ہے تو آؤ! میں‘ بچے بیوی سب رو رہے تھے پھر وہی ڈراؤنی بھیانک اور سیٹی سے زیادہ تیز آواز جس نے ہمارے کانوں کے ساتھ ساتھ ہمارے کلیجے چیر کر رکھ دئیے اور اس آواز نے ہمیں متوجہ کیا بلکہ غمزدہ کردیا‘ مقابلہ کی طاقت ہے تو آؤ ہم سے مقابلہ کرو اور پھر ایک زور دار قہقہہ! نامعلوم میرے جی میں کیا غم اور درد تھا میں نے فوراً کہا کہ ہم آپ کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں؟آپ یہ بتائیں ہمارا قصور کیا ہے؟ اور ہماری پریشانی روز بروز کیوں بڑھتی چلی جارہی ہے؟ تو وہ کہنے لگا: بس ہمیں سسکا تڑپا کر مزہ آتا ہے اور ہم ایسے لوگوں کو زیادہ سسکاتے اور تڑپاتے ہیں جن کا دائیں بائیں کوئی نہیں ہوتا تاکہ ان کے حالات بدسے بدتر ہوں اور ہمیں سکون ملے۔ حادثات در حادثات:ہم پریشان اور بے چین‘ ہمارے گھر میں حادثات ایسے ہوئے جیسے پانی یعنی بارش کا پانی اور بارش کی طرح حادثات در حادثات ہوتے گئے‘ عاملوں کے پاس‘ ادھر ادھر بہت بھاگے‘ بجائے پیسہ ضائع کرنے کے کچھ حاصل نہ ہوا‘ ایک رات خواب میں میں نے دیکھا کہ ایک درختوں کا بہت بڑا جھنڈ ہے اور ایک ویرانہ ہے‘ اس میں ایک پرانا بابا بیٹھا ہوا ہے جس نے پاؤں پھیلائے ہوئے ہیں کچھ لوگ اس کے پاؤں‘ کوئی کندھے دبا رہے ‘اس کے بڑے بڑے بال ہیں خطرناک چہرہ ہے‘ ہم نے فلاں دھوبی کو یہ تکلیف دی:اس کے جسم کے روئیں روئیں سے بھاپ نکل رہی تھی جو آتشی اور گرم تھی‘ وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد قہقہہ لگاتا اور جن جن لوگوں پراس نے ظلم کیے تھے ستم ڈھائے تھے اور ان کو برباد کیا تھا۔ ان لوگوں کو تذکرہ کرتا اور پھر خوش ہوتا کہ کس طرح میں نے ان لوگوں کو تکلیف دی‘ پریشان کیا اور ان کیلئے مسائل پیدا کیے‘ ان میں میرا تـذکرہ بھی آیا اور میرا نام لے کر کہ ہم نے فلاں دھوبی کو یہ یہ تکلیف دی اور اس کی ابتدا نہاتے وقت صابن چھیننے سے اور اس کی انتہا یہ ہے کہ لوگوں کے ہاتھ اس کے گریبان کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ اس نے بے شمار لوگوں کے پیسے دینے ہیں‘ اس کے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہیں‘ اس کا پل پل تکلیف میں‘ دکھوں میں‘ مشکلات میں اور پریشانیوں میں گزررہا اس کے حالات بد سے بدتر ہیں اور اس کی زندگی انہی مسائل اور مشکلات میں الجھی ہوئی ہے۔ اب ناکامیاں اس کا مقدر ہیں اور پریشانیوں نے اسے گھیرا ہوا ہے۔حالات‘ مشکلات اور واقعات نے اس کو کسی قابل نہیں چھوڑا‘ اس کی زندگی دکھوں اور پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے ہم نے اس کا بیٹا ٹھیک نہیں ہونے دینا اور اس کے گھر سے بیماریوں کو نہیں جانے دینا اور تکالیف اور نامرادیاں ہمیشہ اس پر مسلط رکھنی ہیں۔ یہ کوئی خطرناک جن ہے:میں نے جب اپنا حال سنا‘ تو مجھے اب یقین ہوگیا کہ یہ کوئی خطرناک جن ہے جس نے مجھے اپنی چھیڑ چھاڑ کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اور معلوم یہ ہوا کہ میری طرف سے کوئی خطا نہیں ہوئی بلکہ یہ اس کی شرارتوں اور مزاجوں کا حصہ ہے۔ میں مسائل میں گھرتا چلا گیا‘ آج مجھے مسائل میں گھرے ہوئے پورے چودہ سال اور پانچ مہینے ہوگئے ہیں میں تو پہلے ہی بہت زیادہ غریب فقیر اور تنگدست تھا میرے پاس اور تھا ہی کیا جو میں کچھ کرسکتا‘ مزید اس شخص نے اور زیادہ مجھے برباد کردیا۔ میرا کچھ نہ بچا آج مجھےپتہ چلا کہ وہ جن گرفت میں آیا ہے تو میں بھی اس مجمع میں شامل ہوا‘ وہ چیخ رہا تھا‘ دھاڑیں مار کر رو رہا تھا سسکیوں اور آہوں سے اس نے سارے مجمع کو رلا دیا اب تو بادشاہ اور اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے محافظ اور وزیر بھی وہ سب رو نے لگے اور مسلسل آنسوؤں کی لڑیاں بہہ رہی تھیں۔ اور ہر شخص کو اس کے وجود سے کراہت اور نفرت ہورہی تھی اور اس کا
وجود قابل نفرت بن چکا تھا اور اس کے دن رات سب کو ایسے محسوس ہورہے تھے کہ کسی طرح کوئی موقع ملے اور ہر شخص اس کو مار ڈالے قتل کردے۔ یہ کیفیت اس سارے مجمع کی تھی کہ اچانک ایک شخص کی چیخ و پکار اور شور اٹھا اور وہ بادشاہ سے گفتگو کرنے کی درخواست اور اجازت مانگ رہا تھا اور اس نے اپنے کپڑے پھاڑے ہوئے تھے اس کی آنکھوں سے آنسو اور اس کے بال بکھرےہوئے تھے‘ اس کا جسم اور چہرہ جگہ جگہ سے لہولہان تھا اور وہ بار بار ایک بات کہہ رہا تھا کہ بادشاہ سلامت! مجھے اجازت دیں میں آپ کے سامنے اس کا سر قلم کردوں‘ اس کو جلا ڈالوں اس کو مار دوں بس مجھ سے میرے غم کا واقعہ اور غم کا قصہ اور کہانی نہ سنیں کیونکہ میرا غم بہت زیادہ اذیت ناک ہے‘ وہ ایک جن تھا‘ بہت بوڑھا تھا‘ اس جادوگر جن سے بھی عمر میں بہت زیادہ بڑا محسوس ہورہا تھا‘ اس کا لباس پھٹا ہوا تھا یا کہ اس نے خود پھاڑا تھا اس کے جسم کی جگہ جگہ سے خون بہہ رہا تھا اور لہو رس رہا تھا‘ اس کے جسم کا ایک ایک حصہ زخمی تھا‘ اس کی طبیعت میں مظلومیت تھی اس کے لفظوں میں درد تھا بادشاہ نے رعب دار لہجے میں اسے کہا کہ غم نہ کرو‘ مجھے اپنا درد اپنا غم اور اپنی پریشانی سناؤ‘ تو وہ کہنے لگا: دراصل بات یہ ہے کہ میں ایک صاحب علم شخص ہوں‘ میں نے بہت زیادہ علم حاصل کیا اور میں جنات کے ان لوگوں میں سے ہوں جو نہایت پڑھے لکھے لوگ ہیں‘ میں سرسبز شاداب پہاڑیوں کے بیچ میں ایک جنگل میں قیام پذیر ہوں‘ میں ایک دفعہ بیٹھا ہوا تھا اور اپنی کتابیں اور اپنے علم کی ورق گردانی کررہا تھا کہ مجھے کسی جن کی آمد کا احساس ہوا‘ اور چونکہ میں صاحب علم ہوں اور مجھے احساس ہوا کہ کوئی جن ہے اور بہت مکار شریر اور آگ سے زیادہ تیز لیکن وہ بھی کوئی خطرناک علم رکھتا ہے اور اس کا خطرناک علم ایسا ہے جس کی وجہ سے اس کا وجود بہت ہیبت ناک ہوگیا ہے‘ تھوڑی ہی دیر میں ایک شخص میرے سامنے آکر بیٹھ گیا وہ یہی شخص تھا جو آپ کے سامنے زنجیروں میں بندھا ہوا ہے‘ یہ بات آج سے پونے چار سال پہلے کی ہے‘ مجھ سے کہنے لگا کہ میں آپ سے مناظرہ کرنا چاہتا ہوں اور علمی بحث کرنا چاہتا ہوں‘ میں نے کہا بھائی! اپنی راہ لے‘ میں ان چیزوں کو اچھا نہیں سمجھتا اور نہ میں یہ مزاج رکھتا ہوں‘ جن اساتذہ سے میں نے یہ علم پڑھا ہے ان اساتذہ نے مجھے ایک سبق دیا ہے اور یہی سبق دیا ہے کہ دیکھ! کسی سے بحث نہیں کرنی‘ کسی کی توہین نہیں کرنی‘ کسی پر اعتراض نہیں کرنا اور کسی پر اپنے علم کے دلائل ٹھونسنے نہیں‘ ان کا نام اعزاز علی خان رحمۃ اللہ علیہ تھا ‘میرے استاد تو بہت زیادہ تھے لیکن انہوں نے مجھے علم کے ساتھ ادب سکھایا
اس لیے وہ شیخ لادب کہلاتے تھے‘ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مجھے بڑھاپے کی حالت میں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا‘ میں انسانی شکل بنا کر دارالعلوم میں داخل ہوگیا‘ بس میں نے سارے استادوں کو دیکھا سب نہایت شفیق اورکریم مزاج تھے لیکن مجھے ان سے حد سے زیادہ محبت ہوئی‘ میں نے یہ بات اسے سمجھائی لیکن یہ اس بات پر اصرار کررہا تھا کہ نہیں مجھے ہر حال میں بحث کرنی ہے مناظرہ کرنا ہے اکتا کر میں نے اس ظالم جادوگر سے پوچھا کہ آخر تیرے پاس علم کیا ہے؟ کہا میں کہیں کا پڑھا ہوا نہیں ہوں عالم نہیں ہوں‘ لیکن میں نے تجھ سے بحث ضرور کرنی ہے میں حیران ہوا اور مجھے پریشانی ہوگئی یہ جن کیا چاہتا ہے؟ اس کو آتاجاتا کچھ نہیں علم بھی نہیں رکھتا اس کے باوجود بھی یہ جن مجھ سے مسلسل بحث اور اصرار کرنے میں لگا ہوا ہے‘ میں نے اسے پھر ٹالا منع کیا اوراپنے سے دور رہنے کا کہا کسی طرح وہ مجھ سے دور چلا جائے اور میرا وقت بچ جائے لیکن وہ جن ٹلنے کو تیار نہیں تھا اور اصرار کررہا تھا کہ میں نے تجھ سے بحث کرنی ہے‘ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا شرارت اور مذاق تھا‘ وہ تھوڑی ہی دیر کے بعد میری کتاب کے ورق پھاڑنا شروع ہوگیا مجھے غصہ آیا میں نے اس کے ہاتھ سے ورق لے لیے‘ لیکن اس کا مذاق بڑھتا چلا گیا اور وہ اور زیادہ مجھے سسکا رہا تھا‘ اس نے میری کتاب کے ورق کو چورا چورا کردیا مجھے دکھ پہنچا میں نے اسے خدا رسولﷺ کے واسطے دئیے‘ وہ قہقہے لگا رہا تھا اور نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ اس نے خدا کا بھی مذاق اڑایا اور اس کے نبی ﷺ کا بھی۔ میں پریشان یہ شخص کون ہے؟ یااللہ میرے کس گناہ کی سزا کہ تو نے اس جن کو میرے اوپر مسلط کردیا ہے‘ میں اس کو دیکھ رہا تھا اور پرکھ رہا تھا لیکن وہ جن میری کتابوں کے ورق پھاڑتا ہاتھوں میں مسلتا اورہتھیلی پر رکھ کر پھونک مارتا حتیٰ کہ اس کے ہاتھ کاغذ کو مٹی بنا کر اڑا دیتے تھے‘ اس نے میری ساری کتاب کے ساتھ ایسا کیا‘ وہ میرے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب تھی وہ میری ساری زندگی کا نچوڑ تھا اور میری ساری زندگی کا سبق تھا‘ میرے مطالعہ کا نچوڑ میرے علم کا منبع تھا‘میں بے بسی کے عالم میں رونا شروع ہوگیا‘ میں نے اس کو بددعائیں دیں‘ میں گالیاں نہیں دے سکتا تھا‘ میرے استاد نے مجھے گالیوں سے منع کیا تھا کیونکہ وہ ادب میں باکمال اور شیخ لادب تھے اور اس لیے میں نے بے بسی میں بددعائیں دیں‘ میری بے بسی سے محسوس یہ ہورہا تھا کہ اسے مزہ اور لطف محسوس ہورہا تھا اور اس کی چاہت بڑھ رہی تھی‘ اور میں بے بس اس کو دیکھ رہا تھا‘ میں اسی کیفیت میں انہی حالات میں پریشان حال تھا۔ اس نے میری ساری کتاب برباد کردی ٹکڑے ٹکڑے نہیں بلکہ چورا چورا کردیا اور ہواؤں میں اڑا دیا۔ میں بہت مجبور اور بے بس اور پریشان انہی حالات میں بے بس تھااس کے بعد یہ شخص چلا گیا اور غصہ کے عالم میں مجھے کہہ کر گیا کہ تم نے مجھ سے مقابلہ کیا بددعائیں دیں لہٰذا تجھے تیرا انجام دکھاؤں گا! وہ کوئی شریر جادوگر تھا‘ وہ جاتے جاتے میرے دائیں ہاتھ کو اپنے کالے طاقت ور جادو سے باندھ کر چلا گیا‘ میں پریشان اور میری حالت روزبدسے بدتر ہوتی گئی وہی میرا دائیاں ہاتھ تھا جس سے میں ورق پلٹتا تھا وہی میرا دائیاں ہاتھ تھا جس سے میں کھانا کھاتا تھا اسی ہاتھ سے میں قلم سے لکھتا تھا اور اسی ہاتھ سے میں خیر کے کاموں کی طرف ہاتھ کو بڑھاتا تھا لیکن اس ظالم نے مجھ سے میری طاقتوں کو سلب کرلیا اور مجھ سے میری قوتوں کو چھین لیا‘ ٹھیک اسی دن اسی وقت ایک ہفتے کے بعد پھر آیا‘ اور قہقہہ لگانے لگا میں بے بس تھا اب میں نے اس کی منتیں کیں خدا رسول کا واسطہ دیا کہ میرا ہاتھ چھوڑ دے‘ اور اس پر جو جادو کیا ہے اس کو ختم کردے لیکن یہ شخص کسی بھی شکل میں میرا ہاتھ چھوڑنے کوتیار نہیں تھا میں پھر پریشان ہوا اور میری پریشانی بڑھتی چلی گئی مجھے ایک ویرانی کا احساس ہوا‘اس نے قہقہے لگائے‘ میری بے بسی کا لطف اٹھایا اور میری بے بسی کو اس نے مذاق میں لیا اور کہنے لگا: آج میں تمہاری ایک آنکھ بند کر کے جارہا ہوں اب تمہیں صرف بائیں آنکھ سے نظر آئے گا دائیں آنکھ سے نظر نہیں آئے گا اس نے پھر میری طرف جادوئی ہاتھ بڑھایا اور ایسا بڑھایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے مجھے میری دائیں آنکھ سے نظر آنا بند ہوگیا میری بے بسی پر اسے ترس نہ آیا (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں