Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

ذکر کی برکت میوزک کی نحوست (پرنسپل محمد زبیر، لاہور)

ماہنامہ عبقری - ستمبر 2009ء

ماہنامہ عبقری کے لیے ایک عبرت انگیز واقعہ تحریر کر رہا ہوں جو کہ خود میرے ساتھ پیش آیا۔ آج سے تقریباً 4 سال پہلے کی بات ہے مغرب کی نماز کے بعد ہم جھنگ سے واپس لاہور کے لیے بس میں سوار ہوئے۔ بیٹھنے سے پہلے حسب ِمعمول بس والے سے بات کی کہ دوران سفر فلمیں اور گانے نہیں چلیں گے۔ اس نے بھی حسب ِمعمول زور شور سے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے ہمیں اپنے مسلمان ہونے کا پورایقین دلایا۔ کہنے لگا آپ بیٹھیں ‘بالکل نہیں چلیں گے۔ بس ابھی جھنگ شہر سے باہر نکلی ہی تھی کہ ایک مسافر نے گانے چلانے کی فرمائش کی۔ گاڑی کے کلینر نے ہماری طرف اشارہ کر دیا کہ مولوی بیٹھے ہوئے ہیں۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے دوبارہ ذرا زور سے آواز لگائی مگر اس دفعہ اس کے ساتھ دو تین آوازیں اور شامل ہو چکی تھیں۔ ہم نے بھی کنڈیکٹر کو فوراً بلا کر وعدہ یاد دلایا کہ ہم تو گانا نہ چلنے کے وعدہ پر بیٹھے ہیں۔ اس نے مسافروں کو خاموش کروا دیا مگر تین چار مسافر ایسے بے چین تھے جیسے نشے کا عادی نشہ نہ ملنے کے سبب ہوتا ہے۔ بالآخر مسافروں کا اصرار بڑھنے پر ڈرائیور نے مجبور ہو کر ویڈیو گانے چلا دیے۔ اب بے چین ہونے کی باری ہماری تھی۔ ہم نے ڈرائیور اور کنڈیکٹر دونوں کو ان کا وعدہ یاد دلایا مگر وہ مسافروں کا عذر کرنے لگے۔ ہمارے ایک ساتھی کچھ زیادہ غصہ والے تھے وہ اپنے غصہ کا اظہار کرنے لگے۔ ہم نے ان کو پیار سے سمجھا کر خاموش کروایا کیونکہ ہم پاکستانی تو پہلے ہی بہت زیادہ جذباتی ہونے کی شہرت رکھتے ہیں لہٰذا جذباتی ہونے کے بجائے دلیل سے بات کرنی چاہیے۔ ہم نے ڈرائیور اورکنڈیکٹر دونوں کو وعدہ یاد دلایا مگر وہ مسافروں کا عذر کرتے رہے۔ اس دوران مسافروں نے بھی بولنا شروع کر دیا۔ ہم نے مسافروں کی طرف توجہ کر کے ڈرائیور کا وعدہ یاد دلایا اور تھوڑی ترغیب بھی دی کہ اللہ کو ناراض کر کے سفر کرنے سے بہتر ہے کہ اللہ کا نام لے کر سفر کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے گھروں میںخیر و عافیت کے ساتھ پہنچائیں۔ اس بحث کا فائدہ یہ ہوا کہ کچھ مسافروں نے ہماری تائید کر دی اور ڈرائیور نے بھی ویڈیو گانے بند کر کے ٹیپ پر گانے چلا دئیے۔ ہمارے ساتھی پھر جوش میں آئے مگر انہیں سمجھایا کہ جھگڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ صبر کرو، پہلے آنکھ اور کان دونوں گنہگار ہو رہے تھے اب صرف کان ہیں۔ اللہ کی طرف متوجہ رہو وہ ضرور کوئی نہ کوئی راستہ نکالے گا۔ ان لوگوں کے دل بھی اس کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ کہہ کر ہم تو توبہ و استغفار میں لگ گئے کہ الٰہی قصور ہمارا ہے کہ ہم نے لوگوں پر محنت کر کے ان کے دلوں میں گناہوں سے نفرت پیدا نہ کی۔ ہمیں معاف کر دے اور ان کے دلوں میں اپنی محبت بھر دے۔اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی کریم ذات ہے۔ وہ اپنے بندوں کو متوجہ کرنے کے لیے بندوں پر مختلف حالات لاتے ہیں تاکہ بندے ان کی طرف متوجہ ہوں۔ وہ ہمارے حبیب بھی ہیں اور طبیب بھی۔ نیک اعمال کرنے پر حبیب بن جاتے ہیں اور برے اعمال کرنے پر طبیب بن کر ہمارا علاج کر کے ہمیں صحت دیتے ہیں۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ اچانک بس رک گئی۔ ابھی ہم چینوٹ شہر سے کچھ ہی دور تھے۔ عجیب دلخراش منظر سامنے تھا جو کہ کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ سڑک کے بیچوں بیچ ایک ٹرالی جو کہ کماد (گنا) سے بھری ہوئی تھی اور ایک ویگن جو کہ باراتی مرد و عورتوں سے بھری ہوئی تھی ‘کی آپس میں ٹکر ہو چکی تھی۔ کچھ خواتین و مرد شدید زخمی حالت میں سڑک پر پڑے تڑپ رہے تھے۔ بچ جانے والے ان پر چیخ و پکار کر رہے تھے۔ یہ واقعہ ہمارے جائے وقوعہ پر پہنچنے سے تقریباً ایک منٹ پہلے ہوا تھا۔ امدادی کارروائیاں شروع ہو چکی تھیں۔ ڈرائیور نے مسافروں کو اترنے سے منع کر دیا اس لیے تمام مسافر آگے آ کر یہ سارا منظر دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے۔ کچھ مسافر توبہ و استغفار کے کلمات ادا کر رہے تھے۔ بس ہمیں تو جیسے موقع مل گیا۔ ہم نے فوراً مسافروں کو متوجہ کر کے بات شروع کر دی کہ بھائی ہم بھی تو یہی کہہ رہے تھے کہ اللہ کو ناراض کر کے سفر کرنے سے بہتر ہے کہ اللہ کا نام لے کر سفر کیا جائے تاکہ وہ ہمیں خیریت کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچائے۔ اب کسی مسافر کے اندر بھی بولنے کی ہمت نہ تھی۔ سب ہی کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فوراً ہی بندوں کو اپنی طرف متوجہ کر دیا۔ تقریباً دس منٹ تک بس وہیں کھڑی رہی اس دوران ایک شخص چادر میں ملبوس بس میں سوار ہوا اور ڈرائیور کے قریب ہی انجن کے بونٹ پر بیٹھ گیا۔ ہمار ی سیٹیں بھی سب سے شروع میں ہی تھیں اس لیے میں نے یہ سمجھ کرکہ اس کو شاید حادثے کے متعلق کچھ معلومات ہوں۔ متجسس طبیعت کے باعث میں نے اس سے سوال جواب شروع کر دیے۔ اس شخص سے کسی نشے کی بو آ رہی تھی۔ بس چل پڑی تھی۔ ہماری گفتگو کی وجہ سے آس پاس کی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے لوگ بھی کچھ متوجہ ہو گئے۔ ان میں سے ایک سیٹ پر موٹروے پولیس کا ایک نوجوان بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے اچانک اٹھ کر اس شخص کے ایک تھپڑ مارا اور کہنے لگا کہ تمہیں شرم نہیں آتی لوگوں کو مارتے ہوئے۔تم لوگوں کے قاتل ہو۔ مجھے اندازہ نہ ہو سکا مگر اس نوجوان کو ہماری گفتگو سے پتہ لگ گیا یہ اسی باراتیوں والی ویگن کا ڈرائیور ہے۔ نشے میں ہونے کی وجہ سے ویگن کی ٹرالی سے ٹکر ہوگئی۔ جس کے نتیجے میں کئی لوگ زخمی ہوگئے۔ شاید کچھ جاں بحق بھی ہو گئے ہوں۔ وہ ڈرائیور فوراً اس نوجوان کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگا کہ معاف کر دیں غلطی ہوگئی۔ مگر پنڈی بھٹیاں انٹرچینج پر اترتے ہی اس کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔اس حادثے کی وجہ سے ہمارا باقی سارا سفر اطمینان سے گزرا۔ کسی نے گانے چلانے کی فرمائش نہیں کی۔ مگر میں یہ سوچتا رہا کہ کیا ہم لوگ اپنی آنکھوں سے کسی حادثے کو دیکھ کریا کسی کی لاش کو تڑپتا ہوا دیکھ کر ہی گناہوں سے توبہ کریں گے؟ یہ آیت باربار آنکھوںکے سامنے گھوم رہی تھی۔ ”کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے خوف سے ڈر جائیں۔“ کیا توبہ کرنے کے لیے کسی حادثے کا پیش آنا ضروری ہے؟ ہم اس سے پہلے ہی اللہ کی طرف لوٹ جائیں اور اس کو راضی کر لیں۔ اجتماعی گناہوں کی وجہ سے عذاب بھی اجتماعی آیا کرتے ہیں۔ ہم لوگ گناہوں کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ آنکھوں کے سامنے گناہ ہوتے ہوئے دیکھ کر یہ احساس بھی ختم ہو چکا ہے کہ یہ گناہ ہے، ایک غلط کام ہے۔ حالانکہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ یہ ہے کہ آدمی دل سے اس گناہ کو برا سمجھے۔ آج ہمارے سامنے کتنے گناہ کھلے عام ہوتے ہیں مگر کیا ہم ان کو برا سمجھتے ہیں۔ یہ ہم سب کے سوچنے کا مقام ہے۔ اپنے ایمان کو جانچنے کا پیمانہ ہمارے ہی ہاتھ میں ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 977 reviews.