پیشانی پر نمی:مجھے اپنے کالج میں ایک موقع پر پڑھنا ہے بار بار تیاری کرتا ہوں ‘ بار بار ہمت ٹوٹتی ہے‘ خیالات جمع کرتا ہوں‘ پھر عجیب سی کیفیت ہوتی ہے سب کچھ بکھر جاتا ہے‘ اس حوالے سے کوئی مجبوری ظاہر کرنے کے بارے میں سوچتا ہوں تو پیشانی پر پسینے کی نمی آجاتی ہے۔ لگتا ہے تھوڑی دیر میں ہاتھوں سے بھی پسینہ پانی کی بوندوں کی صورت میں نکلنے لگے گا۔ (منیر‘ لاہور)
جواب: جس موضوع پر بولنا ہے اس سے متعلق ضروری اور جدید معلومات جمع کریں اور فوراً ہی ان معلومات کو اپنی ڈائری میں لکھنا شروع کردیں۔ کتنی دیر تک بولنا ہے وہ وقت بھی معلوم ہو اور پھر اپنے لکھے ہوئے مضمون کو پڑھیں۔ اندازہ لگائیں کہ کتنا وقت لگا۔ اگر آپ نے بہت زیادہ لکھ لیا ہے تو اس کو مختصر کرلیں مگر غلطی کی گنجائش نہ چھوڑیں اور سنجیدہ‘ بردبار قسم کے دوستوں میں پڑھ کر سنائیں۔ اس طرح جھجک ختم ہوگی اور بہت سے لوگوں میں پڑھنا ممکن ہوگا۔ پسینہ آئے یا دل دھڑکے‘ گھبراہٹ وہ خود کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ اگر انسان ہمت ہار جائے تو خوف کے زیرِ اثر آجاتا ہے مگر آپ کو بہادری کا مظاہرہ کرنا ہے۔
صرف خودکشی کا خیال آتا: بہت سوچنے اور ہارنے کے بعد کچھ لکھنا شروع کیا ہے۔ عمر 28 سال ہے‘ چھ سال پہلے پڑھائی ختم کرچکی ہوں۔ جاب کرنے اور کہیں جانے کی اجازت نہیں‘ سارا دن گھر میں کبھی انٹرنیٹ اور کبھی ٹیلی ویژن میں مصروف رہتی ہوں۔ میرے ساتھ کی سب ہی لڑکیوں کی شادی ہوگئی‘ کئی کے بچے اسکول جانے لگے میری کسی کو پروا نہیں۔ امی گھر کے اور ابو باہر کے کاموں میں مصروف ہیں‘ میں نے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا‘ کسی لڑکے سے دوستی نہیں کی‘ صبر اور برداشت سب ختم ہوگئی ہےاب تو صرف خودکشی کا خیال آتا ہے مگر اس خیال پر عمل کرنے کی ہمت نہیں۔ بہت رونا آتا ہے۔ (پوشیدہ)
جواب: بہت سوچنے کے بعد انسان ہارتا نہیں بلکہ کوئی راہ تلاش کرلیتا ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ مثبت سوچا جائے مثبت سوچ دماغ صحیح راہ پر لگاتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو مشکلات میں مایوس نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس منفی انداز میں سوچنے والے خود کو بوجھ‘ بے کار اور تنہا تصور کرتے ہیں۔ آج کل سب سے قیمتی خزانہ آپ کے پاس وقت ہے۔ اسے بے مقصد ضائع نہ کریں‘ انٹرنیٹ پر اپنے پسندیدہ مضامین کی تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔ جو یہ سوچتا ہو کہ خودکشی حرام ہے‘ مایوسی کفر ہے‘ صبر پر انعام ہے‘ ایسا انسان حالات سے گھبرا کر رائے قائم کرنے کے بجائے حالات سے اوپر اٹھ کر رائے قائم کرتا ہے تب لوگ بھی اس کی صلاحیتوں اور وجود کو تسلیم کرلیتےہیں گھر میں محبت اور ہمدردی کی فضاء قائم کرنے کیلئے رونا نہیں مسکرانا پڑتا ہے۔
اپنی مرضی کی شادی: میں نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔ چھ ماہ ہم خوش رہے اس کے بعد شوہر کے مزاج میں بیزاری آنے لگی جبکہ میرا وہی شوق تھا‘ گھومنا پھرنا وغیرہ۔ یونہی بیزار ہوتے ہوتے تین سال گزر گئے‘ دو بچے ہیں‘ میں اب بھی پہلے کی طرح دبلی پتلی ہوں‘ ایک اجنبی سے ملاقات ہوئی‘ اس کے بھی تین بچے ہیں‘ اس نے سارے خاندان سے مخالفت مول لے کر جس لڑکی سے شادی کی وہ اب اس سے لڑتی ہے۔ اس کی بدمزاجی سے تنگ آکر وہ میری طرف راغب ہوا ہے۔ بس اس کو میری اجازت چاہیے وہ اپنی بیوی کو چھوڑ دے گا‘ میں بھی گھر کی گٹھن اور یکسانیت سے عاجز آگئی ہوں یا تو یونہی روتے ہوئے زندگی گزار دوں یا خوشیاں پالوں! (پوشیدہ)
جواب: گھٹن اور یکسانیت بہت آسانی سے ایسے گھروں میں داخل ہوجاتی ہے جو ایک دوسرے کی قدر نہیں کرتے‘ جن کو حاصل نعمتوں کا احساس نہیں ہوتا۔ شادی اپنی مرضی سے ہو یا گھر والوں کی پسند پر‘ ازدواجی زندگی کو خوشگوار اور پرمسرت بنانا پڑتا ہے۔ ایک اجنبی مرد کی رغبت کا سبب اس کی بیوی کی بدمزاجی سے زیادہ آپ کی نظروں میں آنے والی پسندیدگی ہے‘ خود کو روکیں‘ شوہر میں کچھ اچھی باتیں ضرور ہوں گی‘ ان کا احساس اور شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کی طرف دیکھیں ان کو تو آپ کی پوری توجہ چاہیے۔ شخصیت سازی آسان نہیں‘ ماں کا مقام اسی لیے بلند ہے کہ وہ بہت سی قربانیاں دے کر بچوں کی پرورش کرتی ہے۔ طبیعت کوشش کے باوجود پریشان رہے تو کسی خاتون ماہرنفسیات سے ملاقات کرسکتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں یقیناً مطالعہ کرنے کے بعد آپ کی سوچ تبدیل ہوجائے گی۔
شرمندگی کا احساس: میں نے والد سے کچھ رقم قرض لے کر کاروبار کیا۔ مجھے فوراً فائدہ چاہیے تھا جو نہ ملا‘ گھر والے پریشان ہوگئے کیونکہ بہن کی شادی کے دن قریب تھے۔ میں نے شرمندگی میں گھر چھوڑ دیا۔ ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہنے لگا۔ چھوٹی سی ملازمت کرلی۔ چند ماہ میں فیکٹری کے مالک نے میرے کام کو پسند کرتے ہوئے زیادہ ذمہ داریاں سونپ دیں۔ اب میں نے اتنی رقم جمع کرلی ہے کہ والد کو جاکر دے دوں مگر شرمندگی کا احساس اور بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ اس وقت بہن کی شادی آگے بڑھ گئی تھی اب اگلے ماہ کی تاریخ طے ہوئی ہے۔ میں سوچتا ہوں کچھ رقم اور جمع کرلوں پھر جاؤں گا پتہ نہیں کیوں ہمت نہیں ہوتی‘ گھروالوں سے ملے کتنا عرصہ ہوگیا یہ سوچ بھی رلاتی ہے۔ (یوسف‘ کراچی)
جواب: یہی شرمندگی جس کے سبب آپ نے رقم جمع کی فائدے مند تھی مگر اب نقصان کا سبب بن رہی ہے۔ گھر جانے کا اس سے اچھا اور کون سا موقع ہوگا جو رقم جمع کی فائدے مند تھی مگر اب نقصان کا سبب بن رہی ہے۔ گھر جانے کا اس سے اچھا اور کون سا موقع ہوگا جو رقم جمع کی ہے فوراً والد کو دے دیں۔ اپنے گھر جانے کیلئے سوچنا نہیں پڑتا نہ کسی سے وقت لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ گھر وہ پناہ گاہ ہے جہاں بے ارادہ ہی قدم اٹھ جاتے ہیں۔
علم کا فائدہ: میرے کزن کو ایم ایس سی کرنے کیلئے یونیورسٹی میں داخلہ نہیں مل سکا۔ اب وہ ایک کالج سے ایم ایس سی کررہا ہے لیکن وہ کہتا ہے کالج سے ڈگری لینے کا کوئی فائدہ نہیں‘ افسردہ رہتا ہے۔ (اشتیاق‘ بورے والا)
جواب: کالج یونیورسٹی کے ذیلی ادارے ہوتے ہیں‘ فرق یہ ہے کہ یونیورسٹی زیادہ بڑی درس گاہ ہے اس لیے طلباء کی پہلی ترجیح یونیورسٹی ہوتی ہے لیکن اگر کسی کو یونیورسٹی میں داخلہ نہ مل سکے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کالج سے پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سلیبس تقریباً دونوں جگہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ ڈگری بھی ایک ہی ملتی ہے۔ کالج کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اس کے علاوہ طلباء کی انفرادی کوششوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کالج میں تعلیم حاصل کرنے والے بھی اچھا گریڈ لاکر مقصد زندگی پالیتے ہیں‘ افسردگی کی بات ہی نہیں۔ ایم ایس سی کرنے کے بعد یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرسکتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں