Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

مظلوم آوازیں‘ سلگتے گھر‘ اجڑی زندگی

ماہنامہ عبقری - اگست 2016ء

قارئین! اس موضوع پر صفحہ نمبر3 پر سلسلہ وار خط شائع ہورہے ہیں مگر خطوط شائع ہونے کے بعد ان کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی۔ اس وجہ ہم چند خطوط اکٹھے شائع کرکے یہ سلسلہ ختم کررہے ہیں۔

قارئین! میرا غم طویل‘ میرا قصہ ناقابل بیان لیکن کیا کروں اب میرا دل مجھے مزید اجازت نہیں دےرہا کہ اس طویل غم کو دل ہی دل میں چھپا کر رکھوں میں کچھ ماہ آپ سے لوں گا‘ موبائل‘ انٹرنیٹ اور کھلے عام میل ملاپ کابہت زیادہ دخل ہے۔ اس غم میں آپ بھی میرے شریک بنیں ۔ میرا ساتھ دیجئے گا میرے ساتھ رہیے گا اور اس کا حل ضرور بتائیے گا۔
خط نمبر12:نافرمان اولاد: محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں اپنے دونوں بڑے بیٹوں کی طرف سے سخت پریشانی میں مبتلا ہوں‘ دونوں پڑھنے سے سخت دور ہوچکے ہیں۔ ہروقت موبائل پر گیمز میں مصروف رہتے ہیں۔ بڑا بیٹا ہروقت موبائل پر گانے سنتا رہتا ہے۔ ہروقت کانوں میں ہیڈفونز لگے ہوئے ہوتے ہیں‘ ایسی حالت میں وہ رات تین یا چار بجے سوتا ہے اور صبح ایک یا دو بجے تک سوتا رہتا ہے۔ سکول جانے کیلئے اٹھاؤ یا رات کو جلدی سونے کا کہو یا تعلیم کے بارے میں کچھ سمجھانے کی کوشش کرو تو گالیاں دیتا ہے۔ اگر ان دونوں کےساتھ کسی بھی بات پر سختی سےبولا جائے تو گالیاں دینا شروع کردیتے ہیں۔ پڑھائی میں اسی عدم دلچسپی کی وجہ سے میرا بڑا بیٹا اولیول کے بعد اپنے سکول میں ایڈمیشن نہ لے سکا اب اسے جس سکول میں اے لیول میں ایڈمیشن ملا ہےوہاں اس کا کوئی دوست نہیں‘ وہ یہ کہتا ہےکہ اس وجہ سے وہ سکول جانا ہی نہیں چاہتا میں اس کو لاکھ کوشش کے باوجود بھی پرانے سکول میں ایڈمیشن نہ دلا سکی اب اے لیول کا پہلا سال سارا برباد ہورہا ہے۔ دو ماہ بعد اس کے فائنل امتحان ہیں لیکن وہ ہر مضمون میں صفر ہے۔ مجھ سے اپنے بچوں کی بربادی دیکھی نہیں جاتی۔ میں ہروقت رو رو کر دعائیں مانگتی ہوں‘ آج سے تین چار سال پہلے میرا یہ بیٹا میرا فرمانبردار اور پانچ وقت کا نمازی تھا مگر اب صرف بدتمیزیاں اور بدزبانیاں رہ گئی ہیں۔ دوسرا بیٹا بھی انتہائی بداخلاق، بدزبان اور بدتمیز ہوچکا ہے۔ اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات کرکے دیکھو یا اس سے اونچی آواز میں بات کرو تو گالیوں کی بوچھاڑ شروع ہوجاتی ہے۔ دونوں بھائی آپس میں ہر تیسرے چوتھے روز انتہائی ظالمانہ طریقے سے لڑرہے ہوتے ہیں۔ پورا گھر ان کو چھڑا چھڑا کر ادھ موا ہوجاتا ہے۔ گھر کے دروازے ٹوٹنے لگتے ہیں۔ چیخ و پکار‘ گالم گلوچ‘ کوئی زخمی ہوگیا۔ اہل محلہ بھی ہمارا تماشہ سنتے ہوں گے۔ گھر کی عورتیں ان کوچھڑانے میں ناکام بلکہ ان کے ہاتھوں چھڑاتے
ہوئے چوٹیں کھالیتی ہیں۔ پھر گھر کے مرد ملازم اپنی طاقت سے ان کو چھڑا پاتے ہیں۔ میرا اور میرے شوہر کا رو رو کر برا حال ہوجاتا ہے۔ پر یہ ویسے کے ویسے ہم تو ہنسنا بھی بھول چکے ہیں۔جب سکول میں دونوں اچھی کارکردگی نہیں دکھاتے تو ہم نے ان کیلئے گھر میں ٹیوٹر کا بھی بندوبست کیا ہے ہر ٹیوٹر ایک ایک مضمون کا بیس بیس ہزار لیتا ہے۔ میں اپنی ساری کمائی ان پر خرچ کردیتی ہوں کہ بس میرے بچے کچھ بن جائیں پیسے تو پھر اگلی تنخواہ میں آجائیں گے لیکن پیسے بھی برباد اور بچے بھی۔ خط نمبر13: بے راہ روی کی شکار بیٹی: محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! جناب میرے گھریلو مسائل بہت زیادہ ہیں‘ میرے شوہر کی مالی پوزیشن بہت کمزور ہے‘ گردوں کے مریض ہیں جس سے میرے مسائل میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ دوسرا اور بڑا مسئلہ میرا یہ ہے کہ میری بیٹی بہت باغی سوچ کی مالک ہے‘ نہایت ضدی اور ہٹ دھرم‘ غلط قسم کی حرکات اور بےراہ روی کی طرف مائل ہے۔ اسے یہ پرواہ نہیں ہے کہ میرا باپ بیمار ہے اور میری غلط حرکات کی وجہ سے انہیں ذہنی ٹینشن ہوگی یا کوئی نقصان ہوگا‘ اپنی ذات اور اپنے بارے میں سوچتی ہے۔ ماں باپ سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ اپنی مرضی کے فیصلے کرنا چاہتی ہے۔ ماں باپ غلط بات پر منع کریں تو انہیں اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہے دوسری چھوٹی بہنوں پر اس کی حرکات کا برا اثر پڑے گا۔ میں بہت پریشان ہوں‘ آزادی پسند کرتی ہے‘ ہم ماں باپ معاشرے کے حالات دیکھتے ہوئے اسے سمجھتاتے ہیں‘ ماں باپ کی عزت کی اسے کوئی پرواہ نہیں ہے۔ میرا مسئلہ حل کریں۔ خط نمبر 14: خوشیوں کو ترس گئی ہوں: محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں اندر سے بالکل ختم ہوگئی ہوں‘ میرا دل جیسے کسی نے نچوڑ کے رکھ دیا ہو‘ ساری خواہشات بلکہ سب کچھ جیسے ختم ہی ہوگیا ہو پتا نہیں کیسے زندہ ہوں؟ خوشیوں کو ترس گئی ہوں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میری عمر 32 سال ہے اور شادی نہیں ہورہی۔ پتا نہیں میں صحیح ہوں کہ غلط؟ مجھے میرے گھر والوں اور میرے والدین کا قصور لگتا ہے۔ انہوں نے بہت دیر سے سوچنا شروع کیا۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ میرے والدین کے کیے کی سزا مجھے مل رہی ہے۔ مایوسی اور اپنے گھروالوں کیلئے غم و غصہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اب میرا گزارا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ حالانکہ الحمدللہ میں شروع سے ہی فرمانبردار اور پرہیز گار ہوں پوری کوشش کرتی ہوں کہ کچھ غلط نہ کروں لیکن میرے گھر والوں نے جو سلوک میرے ساتھ کیا میرے لیے اب ناقابل برداشت ہے اور میرے ماں باپ اب پریشان تو ہیں لیکن ان کی اپنی ہی غلطی ہے۔ انہوں نے پہلے بہت زیادہ لاپرواہی کی۔ میرے اندر چڑچڑاپن اور مایوسی بڑھتی جارہی ہے۔ خط نمبر 15: محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! ایک ماں کا کل سرمایہ دو بیٹے‘ دونوں ہی انتہا کے نشہ کرنے والے‘ انتہا کے بے عزت کرنے والے‘ انتہا کے بے رحم۔ اللہ جانتا ہے کہ میں کیسے جی رہی ہوں؟ اگر خودکشی حرام عمل نہ ہوتا تو کب کی کرچکی ہوتی۔ کیونکہ مجھے علم ہے کہ میں کیسے اور کن حالات میں جی رہی ہوں۔ ابھی پچھلے اتوار کو میرے بڑے بیٹے نے میرے ساتھ جو کیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ میں تو یہ سوچتی ہوں کہ پتہ نہیں میرے کتنے بڑے گناہ ہیں جن کی سزا اس اولاد کے روپ میں مجھے مل رہی ہے۔ خط نمبر16:مجھے اس پر اعتبار نہیں: محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میری بیٹی گھر سے پیسے چوری کرتی رہتی ہے اور ہر تیسرے چوتھے ہفتے اس کے پاس سے موبائل نکلتا ہے کبھی کوئی لڑکا دے دیتا ہے اور کبھی گھر سے چوری کرکے موبائل خرید لیتی ہے۔ جس لڑکے سے جان چھڑانی تھی وہ تو ہٹ گیا ہے مگر یہ باز نہیں آتی۔ اسے میسج کرتی ہے‘ کال کرتی ہے اور ہروقت ٹی وی پر گانے سنتی رہتی ہے۔ اب مجھے اس پر اعتبار نہیں ہے۔ اگر میں کچھ بات سمجھاؤں یا غصہ کروں تو کہتی ہے کہ ’’اللہ کرکے تم مرجاؤ‘ تمہارے منہ پر تھپڑ پڑے تو تم ٹھیک ہوجاؤ‘‘ گھر کا کوئی کام نہیں کرتی۔ ہروقت تنگ کرتی ہے۔ نہایت ہی بدتمیز ہے اسے کسی کا ڈر نہیں ہے۔ کبھی ہاتھ کاٹ لیتی ہے کبھی اپنی کسی سہیلی کا بلیڈ سے ہاتھ کاٹ دیتی ہے۔ خط نمبر 17:محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میرے بیٹے کی عمر صرف سولہ سال ہے‘ یہ گھر والوں کا کہنا نہیں مانتا‘ بدتمیزی کرتا ہے‘ یہ صرف نام کا سکول جاتا ہے اور سکول سےآکر کتابوں کو ہاتھ تک نہیں لگاتا۔ اسی وجہ سے یہ ایک سال فیل ہوگیا۔ پھر بھی کوئی اثر نہیں۔ ہم سب اس کو روکتے ہیں تو کہتا ہے کہ باہر والے اچھے ہیں گھر والے اچھے نہیں ہیں۔ اس کی وجہ سے گھر کا ماحول بہت خراب رہتا ہے۔ میں دوسرے بچوں پر بھی توجہ نہیں دے پاتی۔ جوانی اور طاقت کا بہت نشہ ہے اور طبیعت میں ٹھہراؤ بھی نہیں ہے۔ سوچتا ہے جو کام میں نے شروع کیا ہے وہ ایک دم ساتویں آسمان پر پہنچ جائے۔ ہروقت باہر کےکھانے‘ بوتل‘ موٹرسائیکل پر میں جہاں مرضی پھروں مجھے کوئی نہ روکے۔ جو روکتا ہے اس کو مارنے کو پڑتا ہے۔ وہیلروں کے پاس بھی جاتا ہے اور ون ویلنگ بھی کرتا ہے۔ مزاج رعب دار ہے کہ دوسرے مجھے سے مرغوب رہیں اگر میں ایک اشارہ کردوں تو اتنے لڑکے‘ غنڈے اکٹھے ہوجائیں میرا رعب پڑجائے ہم اس کو پچاس روپے دیتے ہیں اس کے باوجود یہ مانگتا رہتا ہے اور گھر میں چوریاں کرتا ہے۔ پہلے ہمارے گھر سے پیسے اور زیور چوری ہوجاتا تھا ہم سمجھتے تھے کسی نے کچھ کردیا ہے‘ کچھ پتہ نہ چلتا کہ پیسے کس نے چوری کیے ہیں۔ میں نے عبقری میں سے پڑھ کر وظائف شروع کیے تو پیسے اور زیور کون چوری کرتا ہے آہستہ آہستہ پتہ چل گیا کہ پیسے میرا بیٹا چوری کرتا ہے۔ ہم نے کبھی حرام نہیں کمایا‘ ہمیشہ حلال کمایا ہے‘ جتنا ہےاتنے میں گزارا کیا ہے۔ایک مرتبہ کسی کی امانت پڑی تھی دو لاکھ سےزیادہ وہ بھی غائب ہوگئے۔ اس کیلئے میں سجدوں میں گر کر خدا سے دعا کرتی ہوں اور عبقری اور دوسرے لوگ جو بھی کچھ پڑھنے کو بتاتے ہیں میں پڑھتی رہتی ہوں جس کی وجہ سے مجھے ڈپیریشن رہتا ہے۔ مجھے صرف ایک سوچ ہے کہ اگر اس کی تربیت ٹھیک نہ ہوئی تو میں خدا کو کیا منہ دکھاؤں گی۔ خط نمبر 18: گھروں میں کیا ہورہا؟: محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میرے خاوند بیس سال سے ایک عورت کے چکر میں ہیں‘ لاکھ کوششیں کرچکی مگر وہ اسے چھوڑنے کا نام نہیں لیتے۔ میری بڑی بیٹی اور چھوٹی بیٹی دونوں لڑکوں کے چکر میں پھنسی ہوئی ہیں۔ جب میں ڈانٹتی ہوں تو کہتی ہیں نامعلوم تم کب مرو گی اور ہماری جان چھوٹے گی۔ میرا تو ہروقت رو رو کر بُرا حال ہوتا ہے کہ ان کا کیا بنے گا؟ خط نمبر19: رزق حرام گھر آیا اور پھر تباہی: میں کچھ ماہ سے عبقری رسالہ بڑے شوق سے پڑھتی ہوں اور دل ہی دل میں دعائیں مانگتی تھی کہ کبھی میں بھی آپ سے ملاقات کروں اور آپ کی دعائیں لے کر ہماری زندگی میں سکون پیدا ہو۔ اللہ آپ کو ہمیشہ تندرست اور خوش رکھے۔ آمین!۔ میرے شوہر سرکاری ملازم تھے‘ اچھا کماتے تھے‘ دنیا جہاں کی سہولتیں اور خوشیاں، سکون، ہمارے گھر میں تھا۔ اپنے پرائے سب عزت کرتے ہم بھی سب سے محبت کرتے‘ میرے شوہر مجھ سے بچوں سے نہایت محبت کرتے تھے۔ پھر میرے شوہر کو رشوت کی لت لگ گئی اور آہستہ آہستہ سب کچھ ختم ہوتا گیا۔ میرے میاں کو اچانک نامعلوم کیا ہوگیا گھر جو اتنی محبت سے بنایا تھا بیچنے کی دعائیں مانگنے لگے‘ گھر بک گیا‘ گھر کی چیزیں بک گئیں‘ میرا زیور بک گیا‘ کرائے کے مکان میں آگئے‘ اپنے پرائے آہستہ آہستہ ہم سےدور ہوگئے‘ عزت ختم ہوگئی۔ اب میرے شوہر نیم پاگل ہوگئے ہیں گھر اور باہر لوگوں سے لڑتے ہیں‘ کوئی رشتہ دار ہمیں اچھا نہیں سمجھتا‘ بیٹے کام ٹھیک نہیں کرتے‘ کبھی بیمار‘ کبھی کچھ بہانے بن جاتے ہیں۔ بارہ سال سےکرائے پر رہ رہے ہیں۔ سال دو سال بعد گھر بدلنا پڑجاتا ہے۔ بیٹیاں سسرال میں خوش نہیں ہیں۔ دن بدن مزید پریشانیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ خط نمبر20: ڈھول بجا اور سب ختم: محترم حضرت حکیم صحب السلام علیکم! کچھ ماہ پہلے گھر کے سامنے شدید ڈھول بجا اور اس کی آواز نے مجھے شدید چکرایا‘ چکر ایسے شدید شروع ہوئے کہ لیٹ نہیں سکتی تھی اور رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور سب کچھ نارمل تھا۔ ہسپتال جاکر چیک کروایا، دماغی کمزوری کی گولیاں کھائیں‘ تقریباً ڈھائی تین مہینے میں چکر ٹھیک ہوئے لیکن گھر میں جب سے پریشانی ہے۔ کوئی نہ کوئی چیز خراب رہتی ہے۔ پیسوں کی برکت ختم اور کوئی نہ کوئی نقصان‘ ٹینشن‘ نماز میں چکر‘ دماغی کمزوری‘ سر میں درد‘ نظر کمزور‘ سستی‘ نیندنہیں آتی‘ جسم میں درد‘ ہروقت بخار‘ چلتے وقت سانس پھولنا۔ یہ سب کیفیات مجھے اس ڈھول کی آواز کے بعد شروع ہوئیں۔ خط نمبر21: معیار کی جنگ: میری شادی دوسال پہلے ہوئی اور میں شادی کے دیر سے یا نہ ہونے کی وجہ سےاتنا پریشان نہیں ہوئی جتنا کرکے ہوں۔ میں اپنے شوہر سے تعلیمی لحاظ سے اور پروفیشنل اعتبار سے بہت آگے ہوں ان کا تعلق ایک گاؤں سے ہے اور میرا سارا خاندان شہر کا ہے جس وجہ سے میرا اور ان کا سوچنے سمجھنے کا زاویہ بہت مختلف ہے۔ مجھے یہ سچ بولنا ہے کہ مجھے اپنے شوہر کو کسی سے بھی ملواتے ہوئے بہت بہت ذہنی کوفت اور تکلیف کی حد تک ٹینشن ہوتی ہے۔ یہ رشتہ اس لیے ہوگیا کیونکہ میری عمر 30 سال ہوگئی تھی اور پھر میری پہلے جہاں بات چلی تھی وہاں ختم ہوگئی تھی۔ شوہر بلجیم میں جاب کرتے ہیں اور ہم نے یہ سوچا کہ نہ پاکستان میں رہوں گی نہ کوئی دوست رشتہ دار ہمارے ریلیشن شپ کا گیپ کبھی جان سکے گا۔ کیونکہ میری میرے شوہر سے کوئی بات نہیں ہوتی۔ میں نے بیرون ملک ان کے ساتھ پورا سال خاموشی سے گزارا ہے لیکن مجھے ان سے کوئی انسیت محسوس نہیں ہوئی۔ مجھے وہ دیکھنے میں پہلے دن سے ہی اچھے نہیں لگتے۔ حتیٰ کہ نکاح کے بعد بھی میں نے کوشش کی کہ یہ شادی کسی طرح ٹل جائے مگر ایسا نہیں ہوا۔ پھر میں نے سوچا صرف شکل سے کیا فرق پڑتا ہے‘ ہوسکتا ہے کہ ساتھ رہنے سے سب ٹھیک ہوجائے مگر حالات زیادہ خراب ہوگئے۔ میں آدھی رات کو اٹھ کر اور کبھی فجر کے بعد خاموشی سے ان کی شکل دیکھتی رہتی ہوں کہ شاید عادت ہوجائے انسیت ہوجائے لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ اب میں تھک ہوچکی ہوں‘میں نےسوچا کہ مجھے خودکشی کرلینی چاہیے کیونکہ مجھے کوئی بھی سمجھ نہیں رہا نہ اس کا کوئی حل ہے۔ اب میں پاکستان آگئی ہوں‘ اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کرلیا ہے‘ میں ذہنی طور پر تھک گئی ہوں‘ گھر والے سب مجھے طعنے دیتے ہیں۔ اگر میں یہ رشتہ ختم کرکے گنہگار ہوں گی تو میں اس کو جاری رکھ کر بھی گنہگار ہورہی ہوں۔ اللہ کرے میری کیفیات کوئی سمجھ جائے؟خط نمبر22:محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! اللہ تعالیٰ آپ کو صحت وتندرستی اور آپ کا سایہ ہمارے سر پر ہمیشہ قائم رکھے آپ کے گھر والوں کو بھی صحت و تندرستی دے۔ چار سال ہوگئے شادی کو اولاد نہیں ہے۔ میری جیٹھائی کے ہاں بیٹی ہوئی ہے سب اس سے کھیلتے پیار کرتے ہیں لیکن جب بھی میں پکڑوں تو اسی وقت لے لیتے ہیں‘ اگر وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور باتیں کرے تو ساس اور سسر اس کا چہرہ دوسری طرف کردیتے ہیں۔ مجھ سے باتیں نہیں کرنے دیتے‘ اب تو اولاد کی بہت زیادہ کمی محسوس ہوتی ہے۔ سسرال والے برا سلوک بھی اتنا کرتے ہیں کہ گھر میں کوئی بات ہوجائے غلطی جس کسی کی بھی ہو لیکن الزام مجھ پر لگتا ہے اور میری بہت زیادہ بے عزتی کرتے ہیں لیکن میں چپ کرکے سن لیتی ہوں کسی سے کچھ نہیں کہتی‘ لیکن اس کے بعد بھی یہ سب کچھ ہو تو میں کیا کروں مجھےتو سمجھ نہیں آتا۔خط نمبر23: ایک بیٹی کا خط:محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میرے صبر کی اب انتہا ہوچکی ہے‘ میری امی نے میری زندگی عذاب بنادی ہے‘ میرا بس نہیں چل رہا ورنہ میں یہ قصہ ہی ختم کردوں۔ ایک ایک بندے سے میری ماں میری برائیاں کرتی ہیں اور میں اپنے کانوں سے سنتی ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میری امی میرے ساتھ ایسا کیوں کرتی ہیں؟ میں نے کیا کیا ہے؟ میرے خیال سےبیٹیاں اگر عیب والی بھی ہوں تو ان کی باتیں لوگوں کو نہیں بتائی جاتیں جبکہ میں نےتو کچھ کیا بھی نہیں پھر بھی میری ماں میرے عیب بنا بنا کر لوگوں کو بتاتی ہیں۔ میرے لیے وہ ماں تھی جس کے رونے پر مجھے رونا آجاتا تھا لیکن اب میرا دل ہی نہیں چاہتا ان سے بات کرنے کو۔ مجھ پر انتہائی غلیظ الزامات لگاتی ہیں۔ سر میں درد ہوتو سر باندھ لیتی ہوں مگر دل کو کیسے باندھوں؟ امی کا رویہ مجھے اللہ سے دور کردیتا ہے۔ بات بات پر گالیاں دیتی ہیں‘ انیس سال کی ہوکر بھی مار کھارہی ہوں۔ دیکھتی ہیں تو نفرت سے بولنا شروع کردیتی ہیں اور یہ سب کچھ بغیر کسی وجہ کے ہوتا ہے۔ ہر بات کا غلط مطلب لیتی ہیں پتہ نہیں کیوں لوگوں کے سامنے مجھے ظالم اور خود کو انتہائی مظلوم ثابت کرتی ہیں۔ میری ایسے ہی برائیاں کرتی رہیں تو لوگوں کے سامنے میری کیا عزت رہتی ہے‘ آخر میری بھی تو کوئی عزت ہے۔
میں اس گھر میں نہیں رہ سکتی اس گھر میں رہنے سے تو اچھا ہے کہ مجھے موت آجائے۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ ماں ہے تم برداشت کرو۔ ماں ہے تو میں خاموش رہتی ہوں۔ آپ ہی بتائیں کون برداشت کرتا ہے اتنے گندے الزامات‘ اتنی گالیاں‘ کون برداشت کرتا ہے کہ اس کے باپ کو برا بھلا کہا جائے کون برداشت کرتا ہے اپنی ذلت پراتنے فتوے؟ خط نمبر24: محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! اللہ آپ کے درجات بلند فرمائے‘ آپ کو زندگی‘ تندرستی اور بہت سی خوشیاں عطا فرمائے۔ تین سال سے شوہر بیروزگار ہیں‘ آٹھ سال سے شادی کے بعد سے تقریباً پندرہ یا اس سے بھی زیادہ مکان بدل چکے ہیں‘ جب بھی اپنا خریدا وہ ایک سال کے اندر بک جاتا ہے یا جلدی سب اثاثہ ختم ہوجاتا ہے۔اب تک تین اپنے مکان خرید کر بیچ چکے ہیں۔ گھر میں شوہر سے بات بات پر لڑائی جھگڑا اور بدکلامی ہوتی رہتی ہے۔ شوہر کو جوئے کی بہت پرانی لت ہے‘ وہ اس کو چھوڑنا بھی چاہتے ہیں مگر نہیں چھوڑتے‘ حلال میں حرام مکس ہے‘ میچ پر جوا لگانا نہیں چھوڑتے۔ دعا کیجئے ان کا حلال کا کاروبار یا جاب لگ جائے۔گھر میں حلال کی برکت ہو اور اللہ اپنے کرم سے مجھے اور میرے بچوں کو بار بار بے گھر ہونے سے بچالے۔قارئین! غمزدہ تحریریں، آپ کی خدمت میں پیش کردی ہیں‘ اس کا ازالہ کیا ہے اور تدبیر کیا ہے؟ میں آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا۔

 

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 035 reviews.