ان سے کسی نے دریافت کیا کہ آپ نماز کس طرح پڑھتے ہیں؟ شیخ حاتم اصم نے بتایا کہ نماز کا وقت ہوتا ہے تو اطمینان سے وضو کرتا ہوں پھر نماز کی جگہ اس طرح کھڑا ہوتا ہوں گویا کعبہ میرے سامنے ہے، میرے پاؤں پل صراط پر ہیں‘ جنت میرے داہنی طرف اور دوزخ میرےبائیں جانب ہے‘ موت کا فرشتہ سر پر ہے‘ یہ خیال کرتا ہوں کہ احکم الحاکمین کے روبرو کھڑا ہوکر میں اپنی آخری نماز پڑھ رہا ہوں اور اس کےبعد شاید مجھے دوسری نماز میسر نہ ہو، حضور قلب کے ساتھ اللہ اکبر کہتا ہوں‘ پھر سوچ کر قرآن پڑھتا ہوں‘ تواضع کے ساتھ رکوع کرتا ہوں‘ عاجزی کے ساتھ سجدہ کرتا ہوں‘ اطمینان سے اس احساس کے ساتھ نماز پوری کرتا ہوں کہ اللہ کی رحمت سے اس کے قبول ہونے کی امید اور اپنا عمل ہونے کی وجہ سے اس کے مردود ہونے کا خوف کرتا ہوں‘ نماز پڑھکر اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیتا ہوں کہ میری یہ نماز گندے کپڑے میں لپیٹ کر منہ پر نہ مار دی جائے، سوال کیا گیا کہ کب سے آپ اس طرح نماز پڑھتے ہیں؟ جواب دیا کہ الحمدللہ تیس سال سےہر نماز اسی طرح پڑھتا ہوں، پوچھا گیا کہ یہ مرتبہ آپ کو کس طرح ملا؟ شیخ حاتم اصم نے فرمایا کہ اللہ کی رحمت کاایک جھونکا آیا، ایک ضعیفہ میرے پاس دعا کیلئے آئی، میرے سامنے آتے ہی اس کی ریح خارج ہوگئی‘ ایک مرد کے سامنے بے اختیار آواز کے ساتھ ریح خارج ہونے کی وجہ سے وہ بہت شرمندہ ہوئی، انہوں نے بات شروع کی تو میں نے ان کی شرمندگی دور کرنے کیلئے اپنے آپ کو بہرا ظاہر کیا اور کہا، بی بی ذرا زور سے بولو، یہ سن کر وہ خوش ہوگئیں اور خیال کیا کہ حاتم تو کم سنتے ہیں، اپنی بات کہہ کر چلی گئیں، مجھے خیال آیا کہ حاتم تم تو بہرے نہیں ہ اور اپنے کو بہرا ظاہر کیا، کل میدان حشر میں تمہارا حشر جھوٹوں کے ساتھ نہ ہو، گھبرا کر دو رکعت صلوٰۃ التوبہ پڑھی اور التجا کی: الٰہی آپ کی ایک بندی کی شرمندگی دور کرنے کیلئے میں نے اپنے کو بہرا ظاہر کیا، مولائے کریم! کل میدان حشر میں مجھے جھوٹوں میں شمار نہ فرمائیے‘ اس دعا کے بعد میری قوت سماعت ختم ہوگئی۔
شیخ حاتم نے فرمایا کہ اللہ کی ایک بندی کی شرمندگی دور کرنے کیلئے اپنے کو بہرا ظاہر کرنا اللہ کو اتنا پسند آیا کہ رات کو سویا تو جناب رسول اللہ ﷺ کی خواب میں زیارت ہوئی اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے حاتم! تم نے اللہ کی ایک بندی کی شرمندگی دور کرنے کیلئے اپنے کو بہرا ظاہر کیا، اللہ کو تمہاری اس ادا پر اتنا پیار آیا کہ آج دنیا میں جتنے لوگ زمین پر چل پھر رہے ہیں تم سے زیادہ اللہ کو کوئی محبت نہیں، اللہ نے تمہاری زبان کو سچ کرنے کیلئے نہ صرف قوت سماعت سلب کی بلکہ آج سے تمہیں حاتم اصم (بہرے) سے مشہور کرنےکا فیصلہ بھی فرمایا۔ شیخ حاتم نے فرمایا کہ اس کے بعد میری نماز اور مجھے جو کچھ ملا، سب اسی لمحہ کاصدقہ ہے۔کسی عارف کا قول ہے کہ اللہ تک پہنچنے اور اس کی ولایت و معرفت حاصل کرنے کے اتنے ہی راستے ہیں جتنی اللہ کی مخلوق ہے‘ مگر اللہ تک پہنچنے کا کوئی راستہ، اللہ کے بندوں کے کام آنے، دکھے دلوں کی دلجوئی اور کسی شرمندہ شخص کی عزت بچانے سے زیادہ آسانو مختصر نہیں۔ تاریخ نے نہ جانے کتنے ایسے واقعات اپنے صفحات پر محفوظ کررکھے ہیں جہاں اللہ کی ایک بندی کی شرمندگی دور کرنے کیلئے اپنے کو بہرا ظاہر کرنے پر وقت کا محبوب ترین ولی بنایا گیا ہے تو کسی ادنیٰ مسلمان بلکہ انسان کی تحقیر و دل شکنی پر بڑے بڑے اولیاء کو عتاب اور آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ کاش! ہم تاریخ کے ان واقعات سے سبق حاصل کرکے اپنے آپ کو پورے جہان کیلئے خیرخواہ بنانے کی فکر کریں کہ پیارے نبی کریم ﷺ نے دین کی یہ تعریف بیان فرمائی ہے۔ ترجمہؒ: ’’دین صرف خیرخواہی ہے‘‘ نبی اکرم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: ’’اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب سے محبوب شخص وہ ہے جو سب سے زیادہ لوگوں کے کام آنے والا ہو‘ اور اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل کسی مسلمان کو خوش کرنا یا اس سے کسی پریشانی اور غم کو دور کرنا یا اس کا قرض ادا کرنا یا اس کی بھوک مٹانا ہے۔‘‘
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں