ایک سچا مشاہدہ جس میں کرداروں کے نام تبدیل کر دئیے گئے ہیں۔
لڑکپن اور جو انی کا جو زمانہ گا ﺅں میں گزرا، اسے یا د کر تا ہوں تو مختلف کرداروں کا جا ئزہ لیتا ہو ں تو نذیر مو چی کی زندگی عبرت کے حوالے سے عجیب، احساس پیدا کر تی ہے۔ نذیر موچی کو جوا نی میں چیچک نکل آئی تھی جس سے اس کا سارا چہر ہ کا لے دانوں سے بھر گیا تھا لیکن چونکہ وہ تنو مند، قد آور اور متنا سب خدوخال کا نوجو ان تھا، اس لئے چیچک نے اس کی شخصیت کو بدنما نہیں کیا تھا، پھر وہ تیز طرار اور ذہین آدمی تھا، خوش مزاج اور خوش گفتار تھا اور عمو ماً ہنستا ہو ا نظر آتا تھا، اس لئے ہر ملنے والے سے اس کی دوستی بڑی جلدی ہو جا تی تھی۔ لیکن بد قسمتی سے وہ چِٹا ان پڑھ تھا اور حالانکہ وہ بابا فضل دین موچی کا بیٹا تھا، جس نے گاﺅں کے سارے بچو ں کو نا ظرہ قرآن پڑھایا تھا۔ لیکن اپنے بڑے بھا ئی بشیر کے برعکس وہ بالکل ہی پھسڈی اور بے عمل تھا اور مسجد کے تو قریب بھی نہیں پھٹکتا تھا حتیٰ کہ قرآن تک نہیں پڑھ سکا تھا۔ اسے کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا۔
نذیر موچی زبانی کلامی جس قدر ذہین بنتا تھا اور باتیں بنانے میں خو ب ماہر تھا، کردار کے لحا ظ سے وہ بہت ہی گر ا ہوا تھا۔ ایک روز نصف شب کے قریب گا ﺅ ں کے ایک حصے پر چیخ و پکار کی صدائیں بلند ہوئیں۔ گرمیوں کا مو سم تھا اور چونکہ مکانوں کے صحن چھوٹے تھے اور گاﺅں میں اس زمانے میں ابھی بجلی اور پنکھو ں کی نعمت میسر نہیں تھی، اس لئے لو گ راتو ں کو چھتوں پر سوتے تھے۔ نذیر مو چی کے بالکل پڑوس میں ایک گھرانا ایسا تھاجہا ں ایک یتیم لڑکی پرورش پارہی تھی۔ اس کا باپ مرگیا تھا۔ ما ں نے دوسری شادی کر لی تھی اور آج کل وہ اپنے چچا کی کفا لت میں تھی۔ وہ بھی قریب کی چھت پر سو ئی تھی۔ نذیر نے ایک رات موقع پاکر اس سے چھےڑ خانی شر و ع کر دی اور وہ خوف زدہ ہو کر واویلا کرنے لگی۔ لو گ بروقت بیدار ہو گئے، سلیمی کی عزت بچ گئی اور نذیر مو چی کی خو ب چھترو ل ہوئی۔ نذیر کی شادی ہو گئی، اسے بہت اچھی بیوی مل گئی، خوبصورت، دارز قد، صحت مند اور خوش اخلا ق، لیکن نذیر کی بد بختی کہ اس نے محلے میں ایک شادی شدہ عورت سے تعلقات استوار کر لئے اور اس معاملے میں اس نے بڑی ہی بے غیر تی کا مظاہرہ کیا۔ عام حالا ت میں وہ شیرا ں کو بہن کہا کر تا ( کہ ہمارے گا ﺅں میں اس زمانے میں بھابی کہنے کا رواج نہیں تھا) لیکن اس نے اس لفظ اور رشتے کی خو ب خوب مٹی پلید کی اور لمبے عرصے تک وہ اپنی بہن سے منہ کا لا کر تا رہا۔
خدا کی بے نیازی دیکھئے کہ نذیر کی جو پہلی بیٹی پیدا ہو ئی وہ ذہنی طور پر معذور تھی۔ کالی کلوٹی، بڑا سا سر، دس بارہ سال کی عمر میں وہ بظاہر بڑی صحت مند تھی۔ گوشت سے بھر ا جسم، لیکن اپنی حرکتوں سے بالکل چڑیل لگتی تھی۔ بکھرے ہو ئے بال، منہ سے گرتی ہوئی رالیں، خواہ مخواہ ہنستی رہتی اور قہقہے لگا تی ہوئی ادھر ادھر بچو ں کے پیچھے بھا گتی رہتی۔ میں تعلیم سے فا رغ ہو کر گورنمنٹ کالج شکر گڑھ میں لیکچرار ہو گیا تھا۔ وہیں رہتا تھا اور مہینے ڈیڑھ مہینے کے بعد ہی گھر آتا تھا۔جب ایک بار گاﺅں آیا تو لو گو ں نے بتا یا کہ نذیر کی بیٹی گڈو کو مجید لو ہا ر کے بیٹے جا وید نے دن دیہا ڑے خون میں نہلا دیا ہے۔ تب میں اللہ کے منتقم ہونے پر کانپ اٹھا۔ جا وید گرفتار ہوا، اس پر مقدمہ چلا اور وہ تین سال کے لئے جیل خانے چلا گیا۔ نذیر کی دوسری بیٹی شہناز اپنی ما ں کی طر ح خو بصورت اور خوش اخلا ق تھی لیکن کچھ عرصہ گزرا تھا کہ اس کی بیوی مختصر علالت کے بعد مر گئی۔ نذیر پر اللہ کی ناراضگی بڑھتی جا رہی تھی۔ نذیر کی دوسری شادی ہو ئی، اس کی نئی بیوی پہلی کے بالکل برعکس تھی۔ بمشکل ساڑھے چار فٹ کا قد، گندی مندی، دبلی پتلی، جھلی سی، غر ض اس کی شخصیت میں جاذبیت یا دلکشی نام کی کوئی با ت نہ تھی۔ اس نے اس کو اور اس کے والدین کو اتنا ز چ کیا کہ وہ نقل مکانی پر مجبو ر ہو گیا۔ اسے لے کر گوجرانوالہ کی کسی نواحی بستی میں چلا گیا۔ شکر گڑھ سے میر ا تبادلہ 1975 ءمیں گوجرانوالہ ہو گیا۔ میں کا لج کے قریب ہی سیٹلائٹ ٹا ﺅ ن میں رہتا تھا۔ ایک روز نذیر سے سرراہ ملاقات ہو گئی۔ اس نے بتا یا کہ وہ تھوڑے فاصلے پر نہر کے کنا رے ایک بستی میں رہتا ہے اس نے اپنا پتہ دیا او رمیں دو ایک بار صر ف تجسس کی خا طر اس کے گھر گیا اور خا صا خوفزدہوا۔ اس کی بیوی میں سلیقہ نام کی کو ئی چیز نہ تھی۔ بلکہ گھر کا ماحول دیکھ کر وہ پرلے درجے کی پھوہڑ دکھائی دیتی تھی۔ گھر میں صفا ئی ترتیب یا خوش ذوقی نام کی کوئی با ت نہ تھی۔ نذیر کی بیوی بڑی باتونی تھی، اس کی اول جلول باتیں سن کر ابکائی سی آنے لگتی تھی۔ تا ہم نذیر کی بیٹی شہناز اب جوان ہو گئی تھی اور اس کی شخصیت میں رعنائی اور بانکپن کا ایک خاص انداز آ رہا تھا۔ پھر یہ سن کر اطمینان ہو ا کہ اس کی شادی ہو گئی لیکن زیا دہ عرصہ نہیں گزر ا تھا کہ ایک سال کے اندر اندر اسے طلاق ہو گئی۔ سچی بات ہے یہ خبر سن کر مجھے بہت ہی دکھ ہوا تھا۔ نذیر ایک زما نے میں فیصل آباد چلا گیا تھا۔ اور وہا ں کسی ٹیکسٹائل مل میں ملا زم تھا۔ آدمی ذہین اور سمجھ دار تھا۔ ملازمت سے فارغ ہو کر وہ بازار میں پرانے جو تو ں کا کا روبار کر تا تھا اس لئے اس نے خوب کمائی کر لی تھی اور گائوں والو ں پر رعب گانٹھنے کے لئے اس نے اعلا ن کر دیا کہ وہ اپنے ما ں با پ کو حج کر ائے گا۔ یا د رہے کہ اس سے قبل اس علا قے میں جس میں قریب قریب کے چا ر دیہا ت شامل تھے، صرف ایک بڑھیا نے حج کیا ہوا تھا اور وہ قریبی گا ﺅ ں کے حجامو ں کی والدہ تھی، ورنہ زمینداروں یا کھا تے پیتے لو گوں میں سے کسی کو بھی اس سعادت کی توفیق حاصل نہیں ہو ئی تھی۔ نذیر نے بھی یہ کریڈٹ حاصل کر نا چا ہا اور متذکرہ اعلا ن داغ دیا۔ لیکن ہوا یوں کہ اسی برس حج کے خواہش مندوں کی تعداد زیا دہ ہوگئی۔ حکومت کو قرعہ اندازی کا عمل شروع کرنا پڑا اور عجیب و غریب بات یہ ہے کہ مسلسل چا ر سال نذیر اپنے والدین کے لئے حج کی درخواستیں دیتا رہا، لیکن قر عے میں ان کا نام نہ نکلا اور جب پانچویں سال شاید رحم کی بنیاد پر، انکی باری آگئی تو حج کے اخراجات سات آٹھ گنا بڑھ گئے تھے۔ جب پہلی بار ارادہ کیا تھا تو اخراجا ت سات سو روپے فی کس تھے اور جب باری آئی تو یہ تنا سب بڑھ کر پانچ ہزار تک پہنچ گئے تھے اور 65-1964 میں دس ہزار روپے کا انتظام کرنا نذیر کے بس کی با ت نہیں رہی تھی۔ نیتجتاً اس نے یہ ارادہ ترک ہی کر دیا۔یہ الگ بات ہے کہ بابافضل پہلی با ر حج کی درخواست جمع کراتے ہی حاجی کہلانے لگ گیا تھا۔ وہ لوگوں سے اصرار کے ساتھ مطا لبہ کر تا کہ مجھے حاجی کہا کر و۔ دلچسپ بات یہ ہے جس زمانے میں یہ طے ہو گیا کہ اب نذیر کے والدین حج نہیں کریں گے، گا ﺅں کی اکلوتی مسجد کی مر مت اور توسیع ہو رہی تھی۔میں نے نذیر کو مشورہ دیا۔ کہ جس رقم سے تم والدین کو حج کروانا چاہتے تھے، وہ مسجد میں دے دو، تمھیں اور تمھارے والدین کو اس کا خاص ثواب ہو گا، لیکن وہ نہ مانا اور اُس نے ایک پیسہ بھی مسجد میں دینا گوارا نہ کیا۔ شاید اللہ ہی کو پسند نہ تھا کہ نذیر کی کما ئی اس کے گھر پر صرف ہوتی۔ گوجرانوالہ کے قیا م کے دوران میں محض اس تجسس کے تحت کہ اس شخص کو اس کی بد اعمالیوں کی مزید سزا کیا ملتی ہے، کبھی کبھی چار چھ ما ہ بعد اس کے گھر چلا جا یا کر تا تھا........ میں دیکھتا تھا کہ نذیر کی زندگی دکھوں اور مصیبتوں کا مجمو عہ بنتی جا رہی ہے۔ دوسری بیوی سے اس کا ایک بیٹا اور چا ر بیٹیا ں تھیں۔ ان میں سے کو ئی ایک بچہ بھی صحت مند اور نارمل دکھا ئی نہ دیتا تھا۔ سب بدصورت سے، گندے مندے اور رونے والے تھے۔، شہنا ز کی شادی ایک دوسری جگہ کی گئی لیکن ان لوگوں کے رویوں نے بھی نذیر کو پریشان ہی رکھا۔ ایک بار میں لمبے وقفے کے بعد نذیر کے گھر گیا تو یہ دیکھ کر حیر ان رہ گیا کہ اس کے مکا ن کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ اس نے روتے ہو ئے بتا یا کہ میں نے بڑے چا ﺅ سے بیٹے کی شادی کی، لیکن اس بدبخت کی بیوی نے چند مہینے بھی اکٹھے رہنا پسند نہ کیا اور درمیان میں دیوار کھینچ کر مکان کو دو حصوں میں تبدیل کر دیا۔ جنوری 1980 ءمیں میرا تبادلہ لا ہورہو گیا۔ اس زمانے میں نذیر مختلف قسم کے خطر ناک امراض میں مبتلا ہو گیا تھا۔ پہلے اسے موٹا پے نے آ لیا، جسم بے طرح سے پھول گیا۔ پھر اسے شوگر ہو گئی اور پتہ چلا کہ بعد میں اس کے گردے بری طرح متا ثر ہو گئے تھے۔ کم و بیش دو سال کے بعد ایک تعزیت کے سلسلے میں ادھر جانے کا موقع ملا تو میں نے نذیر سے بھی ملاقات کی اور اس کی حالت زاردیکھ کر کانپ اٹھا۔ اس کے گھٹنو ں میں شدید درد تھا، چلنا پھرنا سخت اذیت ناک عمل بن گیا تھا۔ میں جب تک اس کے پا س بیٹھا رہا، وہ روتا رہا۔ شہنا ز کے نا گفتہ بہ حالا ت، بیٹے کا ظالمانہ طرز عمل، بیوی کا پھو ہڑ پن، جوان ہوتی ہو ئی بیٹیوں کا دکھ اور بیماریوں کی یلغار میں کچھ دیر اس کے پاس بیٹھا اورپھر عبرت اور خوف کا احساس لئے واپس آ گیا۔پتہ چلا کہ نذیر بڑے لمبے عر صے تک دکھو ں اور اذیتوں میں مبتلا رہ کر فو ت ہو گیا۔ وفات سے تھوڑا عرصہ پہلے اس کا سار ا جسم پھوڑوں سے بھر گیا تھا اور بینا ئی جواب دے گئی تھی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں