اعصاب میں تنائو
آج سے کئی سال پہلے مجھے گھبراہٹ کی شکایت ہوگئی تھی۔ گھر والے ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئے انہوں نے ہائی بلڈپریشر بتایا۔ میں اس وقت یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ کیا بیماری ہے۔ پھر میں ٹھیک ہوگیا اور میں نے کامیابیاں حاصل کرنی شروع کردیں۔ یعنی میرا کوئی علاج نہیں ہوا اور میں نے ایم اے کیا‘ ایم ایڈ کیا‘ اب ایک سکول میں ٹیچر ہوں۔ اس کے ساتھ اپنی زمینداری بھی سنبھالتا ہوں۔ ڈاکٹر لوگوں کے دل میں بلڈپریشر کی بیماری کا خوف ڈال دیتے ہیں جبکہ میں نے طب کی مشہور کتابوں میں پڑھا ہے کہ بلڈپریشر انسان کو بیمار نہیں کرتا لیکن جب مریض پر اس کا زیادہ انکشاف ہوجائے تو یہ بیمار کردیتا ہے۔ (امتیاز حسین‘ پشاور)
مشورہ: ویسے تو گھبراہٹ عام اور فطری کیفیت ہے۔ لیکن اگر یہ حد سے بڑھ جائے تو انسان کیلئے پریشان کن ہوجاتی ہے۔ شدید گھبراہٹ میں دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے۔ اعصاب اور عضلات تنائو کا شکار ہوجاتے ہیں۔ گھبراہٹ کو ختم کرنے یا اس قابو پانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کی وجہ معلوم کی جائے اور پھر اسے دور کیا جائے۔ آپ نے خود کو اچھے طریقے سے مصروف عمل کرلیا۔ نتیجتاً گھبراہٹ پر بھی قابو حاصل ہوگیا۔ جہاں تک بلڈپریشر کی بات ہے تو گھبراہٹ میں دل کی دھڑکن تیز ہونے کی وجہ سے خون کا دبائو بڑھ جاتا ہے بلکہ تیز تیز چلنے یا بھاگنے یا سیڑھیاں چڑھنے پر بھی ایسی کیفیت ہوسکتی ہے۔ قلبی نظام کو اعتدال میں رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ غیرضروری خوف یا گھبراہٹ کا شکار نہ ہوا جائے۔
ذہنی تازگی اور سکون
انٹر کا طالب علم ہوں۔ عمر تقریباً 18 سال ہے کسی قسم کا کھیل نہیں کھیلتا۔ گھومنے پھرنے یا صبح کی سیر کرنے بھی نہیں جاتا۔ دماغ کہیں خیالوں میں گم ہوجاتا ہے خاص طور پر جب پڑھنے بیٹھتا ہوں تو یہ کیفیت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یاد کیا ہوا مواد جلدی دماغ سے نکل جاتا ہے۔ لگتا ہے آہستہ آہستہ یادداشت کمزور ہورہی ہے۔ (احمد شہباز‘ گوجرانوالہ)
مشورہ: آپ کی عمر میں یادداشت کمزور نہیں ہوتی بلکہ تیز ہوتی ہے اور ایسے حالات میں جب کوئی غیرمعمولی واقعہ یا حادثہ نہ ہوا ہو‘ یادداشت سے شکایت ہونی بے معنی ہے۔ آپ نے لکھا کہ سیروتفریح وغیرہ چھوڑ دی ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں۔ آپ صبح کی سیر کرسکتے ہیں یا شام میں کسی وقت آئوٹ ڈور کھیل میں حصہ لے سکتے ہیں لیکن جب اپنی درسی کتابوں کا مطالعہ کرنا ہو تو صرف مطالعہ کریں۔ اس وقت ذہن ادھر ادھر بھٹکنا غلط ہے۔ مطالعہ میں پڑھنا‘ لکھنا‘ ذہن نشین کرنا سب ہی کچھ شامل ہے اس کیلئے ذہنی تازگی اور سکون ضروری ہے۔ جو مضامین مشکل لگتے ہوں ان پر زیادہ توجہ دی جائے اور ان سے متعلق اچھی باتوں کو ذہن میں لائیں۔ محنت اور ذہانت کی بدولت آپ یہ مشکل امتحان پاس کرسکتے ہیں۔ لیکن دلچسپی اور توجہ دے کر غائب دماغ رہ کر نہیں موجودہ بھول خود ساختہ ہے۔
خوشیوں میں دکھ کی تلاش
میرے والد کی موت ہونا اور پھر اس سلسلے میں طرح طرح کی باتیں سننا میرے لیے کسی رسوائی سے کم نہیں۔ میں جانتا ہوں انہیں جرائم پیشہ لوگوں نے ختم کیا اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ جانتے بوجھتے یا انجانے میں ان لوگوں کا ساتھ دے رہے تھے جو پھر ان کے جانی دشمن ہو گئے۔ بہت سے سوالات میرے ذہن میں ابھرتے ہیں۔ بہت باتیں یادآتی ہیں لیکن کسی سے اظہار خیال نہیں کر سکتا۔ بدنامی کے ڈر سے اداسی چھا جاتی ہے۔ لوگ ہنستے بولتے ملتے جلتے ہیں۔ میں کوئی ویران ٹھکانہ تلاش کررہا ہوتا ہوں۔ (نصیر الدین‘ پشاور)
مشورہ: والدین کے حوالے سے تلخ حقائق کو قبول کرنا ایک مشکل کام ہے مگر حقائق کو بدلنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے‘ اور جو کچھ ہو چکا وہ تو اب قبول کرنا ہی ہے۔ جو لوگ اس دنیا سے چلے گئے‘ خواہ ہمارے کتنے ہی اپنے تھے‘ ان کی جدائی کا غم تو سہنا ہی ہے۔ رفتہ رفتہ لوگوں کی طرف سے بننے والی باتیں بھی ختم ہو جائیں گے۔ خوشیوں کے موقع پر خوش رہنے اور لوگوں سے ملنے کیلئے خود تر غیبی کی مدد سے اپنے ذہن کو آمادہ کریں اور بے خوف ہو کر لوگوں سے ملیں۔ اگر موجودہ حالات سے اچھی مطابقت پیدا کر لیں گے تو گزرے ہوئے ناگوار واقعات اور صدمات آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔
اضطراب اور تناﺅ میں لاشعوری عمل
میں بچپن سے دانتوں سے ناخن کاٹتا ہوں‘ مجھے معلوم ہے کہ اس طرح ناخنوں کا میل میرے منہ سے معدے میں جاتا ہے مگر مجھے خیال نہیں رہتا اور یوں بھی بیٹھے بیٹھے ہاتھ منہ تک چلا جاتا ہے۔ جب میں چھوٹا تھا تو امی نے یہ عادت چھڑوانے کیلئے سختی کی‘ غصہ کیا‘ میری انگلیوں پر مارا مگر میں گھر میں اس عادت سے دور رہتا تو سکول میں ناخن کاٹتا رہتا۔ اس قدر کہ میری انگلیوں سے خون نکل آتا۔ اب جبکہ میں آفس میں جاتا ہوں اس عادت سے چھٹکارا نہیں حاصل کر سکتا۔ چور آنکھوں سے چاروں طرف دیکھتا ہوں۔ (عارف نعیم‘ جہلم)
مشورہ:دانتوں سے ناخن کاٹنا منفی جذبات کا اظہار ہے۔ یہ عموماً اضطراب اور تناﺅ کی نشانی ہے۔ ان لوگوں کے ناگوار جذبات کا اثر اپنی ذات کی طرف ہوتا ہے اور یہ اپنی انگلیوں کو منہ کی طرف لے جاتے ہیں۔عموماً یہ فعل لاشعوری ہوتا ہے لہٰذا اس عادت پر قابو پانے کیلئے ضروی ہے کہ انسان مضبوط قوت ارادی سے کام لے اور زیادہ وقت منہ میں کچھ نہ کچھ ڈالے رکھے مثلاً چیونگم وغیرہ۔ جب پہلے سے کچھ چبایا جارہا ہوتا ہے تو پھر ناخن کاٹنے کی طرف توجہ نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ جب ناخن کاٹنے کی طرف توجہ جائے تو یہ سوچیں کہ مجھے کیا الجھن ہے۔ آخر میں ایسا کیوں کر رہا ہوں۔ اس طرح تو میری انگلیاں بدنما نظر آرہی ہیں اور تکلیف بھی ہوتی ہے پھر لوگوں کے درمیان یہ حرکت معیوب بھی لگتی ہے۔ بچپن کی بات اور تھی‘ کم از کم اس وقت یہ مناسب نہیں۔ آپ نے اپنی الجھن کے بارے میں خط لکھ کر اپنی اصلاح کا پہلا قدم اٹھایا ہے۔ اب شعوری کوشش کریں اور جب بھی ہاتھ منہ کی طرف جائے۔ بہت اطمینان سے خود کو روک دیں۔ یہ ایسی عادت نہیں کہ چھوڑی نہ جا سکے۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 905
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں