مکی جنات سے ملاقات:مجھے تجسس ہوا کہ کیوں نہ ان مکی جنات سے میری ملاقات ہو اور ان سے کچھ حال احوال ہو کہ وہ کتنے عرصہ سے یہاں آرہے اور کیوں آرہے‘ مکہ میں ان کے خاندان کا قیام کتنا پرانا ہے بس اس طرح کے سوالات میرے دل میں مسلسل اٹھنے لگے اور میرے اندر انگڑائیاں لینے لگے۔ میں نے اس نومسلم جوگی عبدالواسع جن سے مشورہ کیا‘ کیا خیال ہے ان مکی مہمانوں کو ملا نہ جائے؟ وہ میری بات پر فوراً تیار ہوگیا اور ہم دونوں اس طرف چل پڑے‘ تاحد نظر مکلی کا پھیلا قبرستان‘ کہیں قبریں ٹوٹیں‘ کہیں مسمار‘ کہیں صدیوں پرانے بنے گنبد ہیں ایک ایک پتھر کے بنے ستون ہیں‘ کہیں نیولے‘ کہیں سانپ‘ کہیں بڑے بڑے بچھو‘ کہیں خطرناک زہریلی مکڑیاں اور طرح طرح کےایسے خطرناک حشرات الارض جو انسان کو دور سے پھونک مارے اور انسان موم ہوجائے۔ اللہ والے کا مزار اور انوکھا عمل: ہم چلتے جارہے تھے اور سارے منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھے‘ جاتے جاتے جوگی عبدالواسع مجھ سے کہنے لگا اس قبر کے بارے میں آپ جانتے تھے‘ اس کے بہت تھوڑے نشان باقی رہ گئے تھے‘ میں نے کہا نہیں ۔کہا: آپ تو کشف القبور کا مراقبہ کرلیتے ہیں‘ آپ خود کرلیجئے میں نے کہا ہم اصل میں مکی مہمانوں کو ملنے جارہے ہیں اگر کشف القبور کا مراقبہ کرنے بیٹھ گئے تو کہیں وہ واپس نہ چلے جائیں اور ان سے ملاقات چُوک نہ جائے۔ آپ ہی کچھ بتادیں۔ کہنے لگا اصل میں میں نے یہ عمل ایک مسلمان عامل جن سے سنا تھا کہ آج سے تین صدی اورستائیس سال پہلے کے ایک بہت بڑے اللہ کے ولی کی قبر یعنی مزار ہے‘ یہ سیستان سے آئے تھے جہاں سے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے تھے اور یہ اسی علاقہ کے رہنے والے لیکن ان سے بہت زیادہ مقامات میں آگے ہی آگے ہیں انہوں نے اللہ سے ایک دعا کی تھی کہ یااللہ میرے مرنے کے بعد میری قبر پر کوئی نہ آئے ‘کہیں ایسا نہ ہو کہ سو آنے والے مجھے فاتحہ اور کلام پڑھ کر دے اور ایک آنے والا کوئی ایسا ہو جو کہ شرک کرکے مجھے تکلیف پہنچائے اور بدعت کرکے مجھے دکھ دے‘ اس لیے انہوں نے اللہ سے تنہائی مانگی اور آج عالم یہ ہے کہ ان کے وصال کے بعد اس دور کے بادشاہ نے ایک بہترین گنبد اور قبہ اعلیٰ پتھروں کا بنوایا کچھ ہی عرصہ کے بعد وہ خودبخود گرنا شروع ہوگیا پھر لوگ اٹھا کر لے گئے پھر اندر کا تعویذا ور مقبرہ گرنا شروع ہوا اور گرتے گرتے یہ تھوڑا سا نشان ہے جسے کوئی نہیں جانتا کیونکہ میں یہاں اپنی زندگی گزار بیٹھا ہوں میں انوکھی چیز دیکھتا ہوں بس یوں نیا چاند شروع ہوتا ہے اور ان کی قبر کے اردگرد روح اورنورانیت کا انوکھا سامان ہوتا ہے ‘تمام نیک جنات ان کی قبر کے اردگرد نئے چاند کے ڈوبنے تک یکم سے چاند کی چودہ اور پندرہ تک ان کی قبر کے اردگرد بیٹھ کر صرف سورۂ یٰسین پڑھتے ہیں اور جو شخص صرف ان چودہ دنوں میں سورۂ یٰسین روزانہ چودہ بار پڑھ لے ‘ اسے ولایت کے انوکھے راز‘ کمالات‘ خیر کی راہیں‘ برکت کے پہاڑ‘ گناہوں سے خلاصی‘ اللہ کی مدد کا انوکھا تحفہ اور عرش سے اٹھنے والی صدائیں وہ اپنے کانوں سے سنے گا۔ وہ اپنی جاگتی آنکھوں سے اولیاءؒ انبیا ءؑسے روحانی ملاقاتیں کرے گا‘ وہ اپنی جاگتی آنکھوں سے جنات کو دیکھے گا حتیٰ کہ اللہ اس کے سامنے کائنات کے سربستہ رازوں کے پردے اٹھا دیں گے۔ زمین کے نیچے کے خزانے آنکھوں سے دیکھے گا۔ قبر والوں سے باتیں کرے گا۔ روحوں سے ملاقات جس سے چاہے فوراً کرلے گا۔ حالات میں آسانیاں ‘ مشکلات میں دوری‘ قرضوں سے نجات ‘دکھوں کا حل‘ بندشوں کی دوری‘ اگر رشتہ اور تکالیف اس کو بہت زیادہ تنگ کررہی ہیں اور ناکامیاں اس کا مقدر بن گئی ہیں‘ ہر راستہ اور گلی بند ہورہی‘ وقت اس کا مختصر ہوگیا ہے اس کی زندگی سے برکت اٹھ گئی ہے اور وقت سے برکت اٹھ گئی ہے‘ حالات نے اس کو کچل دیا ہے‘ زمانےنے اس کو پیچھے پھینک دیا ہے‘ تنگیاں روز روز کی ہیں اس کی مٹھی کھلتی نہیں ہمیشہ بند رہتی ہے یعنی اس کی مٹھی میں کوئی مال پیسہ آتا ہی نہیں‘ اس کی قسمت کی لکیریں مٹ گئی ہیں‘ گرد ش ایام نے اسے بہت پیچھےچھوڑ دیا ہے‘ ترقی کرجانے والوں نے اسے مُڑ کر نہیں دیکھا ‘لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں‘ بعض لوگ اس پر تھوکتے ہیں‘ وہ ایسی برائیوں کی گندگیوں کی دلدل میںپھنسا ہوا ہے‘ وہ نکلنا چاہتاہے مگر نکل نہیں سکتا اگر کوئی ایسا پھنسا ہوا ہے تو صرف تین ماہ باقاعدگی سےچودہ راتیں‘ اول آخر چودہ بار درود شریف اور سورۂ یٰسین چودہ بار پڑھ لے بس کچھ زیادہ عرصہ اس عمل کو کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف تین ماہ کرلے اسے رات
قبرستان میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے‘ بس وہ آئے یہاں چودہ بار سورۂ یٰسین پڑھے اور اللہ سے دعا مانگے اور اس کا ثواب اس اللہ کے ولی کی روح کو بخشے اور ان سے عرض کرے کہ شیخ رب کی بارگاہ میں میرے لیے دعا کریں کہ اللہ میری مشکلات آسان کردے ‘روزی کے خزانے کھول دے‘ برکات کے دروازے میرے لیے وا کردے‘ حیرت کا جہاں سامنے آجائے‘ جنات فرشتوں اور اللہ کے دوستوں کی ملاقاتیں آسان ہوجائیں بس یوں یہ برکات میرے لیے آتی چلی جائیں ۔تین ماہ‘ ورنہ ایک ماہ کافی ہیں تین ماہ عمل کرنا ضروری ہے‘ ایک ماہ میں ہی اس کی زندگی میں وہ انقلاب آئے گا‘ اس کے دل کے پردے اٹھیں گے‘ اس کی روح کی دنیا بیدار ہوگی‘ اس کے جذبے سچے ہوں گے‘ گناہوں اور سیاہ کاریوں کی فضاؤں اور گندگیوں سے نکل کر روح کی پاکیزگی من کا اجلا پن اور بولوں کو مٹھاس کے اندر سرائیت کرتا چلا جائے گا اور وہ حیرت کا جہان پائے گا۔ اس سے پردے ہٹ جائیں گے زمین اس کیلئے خزانہ اگل دے گی‘ آسمان اٹھنے والی آوازیں اس کے کانوں تک پہنچا دے گا‘ جس روح سے چاہے ملاقات کرلے جس ہستی کو چاہے جاگتی آنکھوں یاخواب میں دیکھ لے‘ یہ سب قرآن کی برکات اور اس اللہ کے ولی کی دعاؤں کی برکات ہیں‘ ورنہ قبر والا خود محتاج ہوتا ہے اور ہاں ہم دعاؤں کے محتاج ہیں اور صاحب قبر دعائیں کرتا ہےا ور اس کو دعاؤں کیلئے کہنا جائز ہے حرام نہیں شرک نہیں۔ مجھے صرف ایک چیز کا فکرتھا:میں جوگی عبدالواسع کی باتیں حیرت سے سن رہا تھا‘ کچھ دیر وہاں رہا‘ میں نے سورۂ یٰسین پڑھنا شروع کردی‘ قدرتی وہ ایام بھی چاند کے نئے دنوں کے تھے اور وہ چاند کی نو تھی‘ میں نے تھوڑی ہی دیر میں چودہ بار سورۂ یٰسین پڑھ لی‘ پر مجھے بار بار ایک چیز کا فکر تھا اور وہ فکر یہ تھا کہ میں نے مکی مہمانوں سے ملنا ہے میں یہ(سورۂ یٰسین چودہ مرتبہ) پڑھ کر شیخ کی روح کو ہدیہ کرکے دعاؤں کی درخواست کرکے چل پڑا۔ ہم چل رہے تھے قبرستان تھا جو ختم ہی نہیں ہورہا تھا‘ کہیں کانٹے‘ کہیں جھاڑیاں‘ بکھرے نوکیلےپتھر‘ جو اندر سے کھوکھلے تھے۔ بس یہی ماحول تھا‘ آخرکار ہم ایک درویش کے گنبد پر اور قبے پر پہنچے‘ وہاں جاکر میں نے زور سے السلام علیکم عرض کیا اور درخواست کی کہ اے مکہ سے آنے والے مہمانو! میں مکہ مکرمہ کا دیوانہ اور شیدائی ہوں‘ میں نے کعبہ کے طواف کیے ہیں‘ میں کعبہ میں آنا اور کعبہ کو دیکھا ثواب سمجھتا ہوں۔ میں مکہ کے رہنے والوں کا ہمیشہ قدردان رہا ہوں ‘میںنے مکہ والوں کو ہمیشہ ادب اور قدر کی نظر سے دیکھا ہے اور میں مکہ والوں سے محبت کرتا ہوں‘ ان سے پیار کرتا ہوں‘ لوگوں کو ان کا ادب اور احترام سکھاتا ہوں‘ میں بہت
دور سے چل کر پتھروں کی ٹھوکر کھاتے ہوئے اور زہریلے جانوروں کے درمیان سے نکلتے ہوئے آپ تک پہنچا ہوں۔ میں آپ سے ملاقات چاہتا ہوں:میں آپ سے ملاقات چاہتا ہوں اور دعا چاہتا ہوں‘ تھوڑی دیر ہوئی‘ میں نے اپنے اردگرد ایک تیز آندھی کی طرح ہوا بگولے اور ہوا کے درمیان کی ایک سنسناہٹ اور شور سنا‘ میں خاموش بیٹھ گیا‘ ہوا تھم گئی‘ کوئی بیس سے زیادہ جنات تھے جو میرے اردگرد آکر بیٹھ گئے۔ اکثر بوڑھے تھے ان میں جوان بھی تھے اور کچھ پردہ دار خواتین بھی تھیں‘ میں ان کے استقبال کیلئے کھڑا ہوگیا‘ میں نے تمام مردوں سے مصافحہ کیا اور چند بوڑھے بزرگوں نے مجھے گلے لگایا۔ ان کے گلے لگنے میںکیا کمال تھا ۔ ایک بوڑھے مکی جن سے جب میں گلے لگا ان کے گلے لگتے ہی میرے سینے میں ایسی خوشگوار تازگی‘ روشنی‘ نور اور نورانیت داخل ہوئی کہ میں محسوس کررہا تھا کہ شاید میرا سینہ پھٹ جائے گا اورمیں سنبھال نہیں سکوں گا۔ وہ بہت دیر اپنے گلے سے مجھے لگائے کھڑے رہے اور میرا بھی دل چاہ رہا تھا کہ وہ مجھے اپنے سینے سے لگائے کچھ اور دیر مجھے اپنی روحانی‘ نورانیت اور مکی نور دیتے رہیں اور منتقل کرتے رہیں۔ ہم دونوں نامعلوم رو رہے تھے:کچھ دیر کے بعد ان کی آنکھوں سے آنسو اور حتیٰ کہ سسکیاں بندھ گئیں کچھ ان کی کیفیت ایسی تھی کہ مجھے بھی رونا آگیا اور بے ساختہ میری بھی آہیں اور سسکیاں بلند ہوگئیں ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نامعلوم روتے رہے کیونکہ رونے کی وجہ معلوم نہیں تھی بس ایک کیفیت تھی جو ہم دونوں کے درمیان تھی اور نور تھا جو اس درویش سے میرے سینے اور دل کی اندرکی گہرائیوں میں منتقل ہورہا تھا‘ میں روتا رہا اور وہ روتے رہے۔ آخرکار اسی کیفیت میں ہم دونوں بیٹھ گئے‘ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور میرے انگوٹھے کے ناخن کو بہت غور سے دیکھنے لگے پھر میرے انگوٹھے کو چاروں سے گھمایا اور دیکھا اور دیکھ کر بولنے لگے کروڑوں میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے انگوٹھے کی لکیریں اور کیفیات اور انداز ایسا ہوتا ہے‘ آپ اب تک کہاں رہے؟ آپ مکہ میں آکر مجھ سے ملاقات کیوں نہ کرسکے‘ پھر ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگے آپ کو یاد ہے آپ ایک دفعہ جبل ہندی پر آئےتھےا ور فلاں صاحب آپ کے ساتھ تھے‘ میں نے ان سے کہا ہاں پرانی بات ہے مجھے یاد ہے‘ کہنے لگے وہاں میں نے آپ کو دیکھا تھا لیکن سرسری دیکھا تھا‘ اے کاش میں وہیں آپ سےمل لیتا اور وہیں ملاقات کرلیتا اور پھر مجھ سے سوال کیا کہ کبھی آپ کو ایک احساس ہوا ہے کہ آپ کے اندر کتنا بڑا برتن اور ظرف ہے اور جس میں کتنی روحانیت اورکمالات ہیں۔ یہی بڑے برتن کی علامت ہے:میں نے کہا: نہیں‘ میں تو اپنے آپ کو ایک عام انسان سمجھتا ہوں۔ کہنے لگے: یہی ظرف ہونے کی دلیل ہے اور یہی بڑے برتن ہونے کی علامت ہے جب انسان اپنے آپ کو کچھ سمجھ لیتا ہے پھر سب کچھ ہوتاہے تو ختم ہوجاتا ہے اور ملتا بھی نہیں حتیٰ کہ چھن جاتا ہے۔ بس یہ کیفیت اپنے اوپر باقی رکھیں‘ پھر کہا کہ آج میں نے آپ کے سینے میں جو انوارات‘ کمالات‘ کیفیات تجلیات اور برکات منتقل کی ہیں‘ یہ ان شاء اللہ آپ کی نسلوں تک ہمیشہ منتقل ہوتی رہیں گی اور جو بھی آپ کو ادب احترام اور اچھے اعتقاد اور اعتماد کی نظر سے دیکھے گا وہ ضرور اس کا حصہ پائے گا اور جو آپ کے احترام سے روگردانی کرے گا‘ اس کا سینہ سیاہ ہوجائے گا‘ اس کے دل کی نورانیت جاتی رہے گی اور اس کا اندر ختم ہوجائےگا اور وہ ایسے لوگوں میں شامل ہوجائے گا جن کے مقدر میں اگر رب چاہے تو خیر ضرور آسکتی ہے ورنہ وہ خیر سے محروم رہے گا۔ ان کی نسلیں شاید محروم رہ جائیں‘ بس اپنے اس نورانی برتن کو جو پہلے بھی نورانی تھا اور روحانی ہے‘ میں نے جو امانتیں بڑے بڑے صحابہؓ‘ اہل بیتؓ‘ اولیاءؒ، صالحین ‘محدثین‘ مفسرین اور ساجدین صادقین سے لی ہیں ‘میں نے آج وہ امانتیں آپ کومنتقل کردی ہیں ۔ میں نے صحابی رسولؐ کا جنازہ پڑھا ہے: پھر وہ شیخ فرمانے لگے: الحمدللہ! میں نے بڑے بڑےصحابہؓ کی زیارت کی‘ اہل بیتؓ کا دیدار کیا میں نے صحابی رسول ﷺ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا جنازہ پڑھا ہے‘ میں بڑے بڑے محدثین کی مجالس میں بیٹھا‘ خود عالم اور محدث ہوں بڑی بڑی تفاسیر لکھی ہیں۔ میں خود حیران‘ کہاں میں‘کہاں یہ‘ بس حیرت سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور میری حیرت بڑھتی چلی جارہی تھی۔ سب سے مصافحہ کرنے کے بعد ہم بیٹھے اور گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا لیکن یہ سب تو گفتگو سے پہلے ہی ہوچکا تھا جو میرے گمان‘ خیال‘ احساس اور ادراک سے بھی کہیں آگے‘ میرے تصور سے بھی کہیں زیادہ میں نے پالیا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا میں خیال بھی نہیں کرسکتا تھا کہ میں اتنی بڑی ہستی سے ملاقات کرپاؤں گا اور اتنی بڑی ہستی کبھی مجھے ملے گی‘ میں نے صحابہؓ جنات سے ملاقاتیں کیں‘ تابعینؒ‘ تبع تابعین ؒ جنات سے ملاقات کیں نیک صالح اولیاء جنات سے واسطہ پڑا‘ دوستی بھی ہے تعلق بھی ہے ان کی محبت مجھ سے ہے میری محبت ان سے ہے‘ لیکن یہ ہستی کچھ اور ہی تھی۔ یہ اچانک ہوا کیسے؟: میں حیران بھی ہوں اور پریشان بھی کہ یہ اچانک ہوا کیسے؟ پھر اچانک میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے ایک بات ڈالی کہ جوگی عبدالواسع کو ایمان پر لانے کا اللہ نے مجھے ذریعہ بنایا دل تو اللہ کے قبضہ میں ہےبس اللہ کو ایمان بہت پسند ہے اور کلمہ بہت پسند ہے اللہ پاک نے اس کے صلہ میں مجھے اس ہستی کی ملاقات کروادی اور اس ہستی کا دیدار کروا دیا اور اس ہستی کا فیضان مجھے مل گیا‘ میرا دل‘ میرا من‘ میرا جذبہ‘ میری سوچیں بار بار اس بات کی تصدیق کررہی تھیں کہ یہ سب اس کلمہ کی برکت سے ہوا اور اس کلمہ کی وجہ سے مجھے یہ مراد ملی ہے۔ اب ہمارا تعارف شروع ہوا سب سے بڑی عمر کے بزرگ یہی تھی ان میں کسی کے والد تھے‘ کسی کے ماموں تھے‘ کسی کے دادا اورکسی کے پڑدادا بھی تھے ہر عمر کے افراد ان میں بیٹھے تھے اور یہ سب سے بڑی عمر کے تھے ۔وہ کہنے لگے دراصل ہمارے یہاں رشتہ دار ہیں جو ہزاروں سالوں سے آباد ہیں اور ہم ہزاروں سالوں سے مکہ ہی میں آباد ہیں‘ ہمارا اصل مسکن جبل ثور جہاں میرے آقاﷺ کے قدم مبارک پڑے اور بڑے بڑے انبیاء کے قدم مبارک پڑے وہاں رہتے ہیں لیکن میں خود ہمیشہ کعبہ میں رہتا ہوں اورمسجد حرم میں رہتا ہوں‘ پھر بعض اوقات وہاں سے اپنے گھر جبل ثور میں ہفتوں رہتا ہوں اور پھر ہفتوں یہاں بھی رہتا ہوں‘ میرا آنا جانا لگا رہتا ہے پھر اس بزرگ جن نے مجھے میرے سوال کے بعد جو کعبہ کی کیفیات تجلیات بتائیں شاید میں نے کبھی کسی کتاب میں نہیں پڑھا‘ میرا گمان ہے کسی کتاب میں ہوں گے بھی نہیں‘ میرے مطالعہ میں نہیں گزرے۔ آئیے قارئین! میں اس نیک جن کی کیفیات تجلیات بتاتا ہوں جو انہوں نے مجھ سے بیان کیں وہ کیفیات اور تجلیات انہوں نے خود پائیں اور مخلوق کو بھی دلائیں۔ )
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں