Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

جنات کا پیدائشی دوست Part1

ماہنامہ عبقری - اگست 2016ء

پندرہ شعبان سے پہلے جنات کی آمد شروع:اسی رمضان سے قبل ہی یعنی پندرہ شعبان سے جنات کا بہت زیادہ سلسلہ شروع ہوگیا ہوا یہ کہ جنات کی ترتیب ہے کہ وہ اپنی شادیاں یا اپنی تقریبات رمضان سے پہلے ختم کردیتے ہیں۔ نیک صالح جنات رمضان المبارک میں اکثر غاروں میں چلے جاتے ہیں یا تنہائیاں تلاش کرتے ہیں۔ کچھ اس طرح اسی رمضان سے پہلے بھی ہوا پندرہ شعبان کو میرے پاس میرے پرانے احباب حاجی صاحب، باورچی بابا، عبدالسلام جن اوران کے ساتھ صحابی بابا بھی تھے اور اس کے دفعہ ان کےساتھ فوقانی جن بھی تھے۔ حضرات تشریف لائے، ان کیلئے میں نے کچھ کھانے پینے کا انتظام کیا۔ بہت خوش ہوئے‘ باتوں ہی باتوں میں ان کی آمد کا پتہ چلا کہ وہ کس لیے یہاں آئے تھے تو اس سے پہلے کہ وہ بات کرتے فوقانی جن ثانی نے جس کو فوقانی ثانی کہتے ہیں نےاپنے آنے کا مقصد بیان کیا ۔فوقانی ثانی نے سنائی انوکھی آپ بیتی:کہنے لگے کہ میںسب سے پہلے آپ سے ہوکر جب گیا ‘تو راستے میں میں نے ایک واقعہ دیکھا ایک بہت بڑا طاقت ور جن یعنی ’’دیو‘‘ تھا جس نے ایک بہت بڑے محل ایک رئیس کا محل تھا اس پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ اس کے قبضےکا انداز یہ تھا کہ گھر میں گھر کے مکین رہ رہے تھے لیکن اس نے انہیں چین و سکون سے نہیں رہنے دیا۔ کبھی گھر کے کسی گوشے میں آگ لگادیتا‘ کبھی ان کے بچوں کو بیمار کردیتا اور کبھی ان کے اندر جھگڑے کی کیفیت پیدا کردیتا‘ وہ بیچارے ہروقت کسی نہ کسی مصیبت اور کسی نہ کسی پریشانی اور کسی نہ کسی مشکل میں مبتلا رہتے تھے اور یہ مشکلات ایسی تھیں جو نہ ختم ہونے والی تھیں‘ بہت علاج معالجے بہت ادویات‘ تدبیریں کرچکے تھے چونکہ مال دولت بہت زیادہ تھی‘ انہوں نے اس علاج اور چھٹکارے کیلئے بہت تدبیریں کیں لیکن کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی تھی اگر وقتی طور پر کوئی فائدہ بھی ہوتا تھا تو وہ دیو پھر سے کوئی ایسی حرکت کرتا پھر سے مسائل پیدا ہوجاتے‘ فوقانی ثانی کہنے لگا: مجھے اس گھر پر ترس آیا کیونکہ وہ مالدار تو تھے لیکن ساتھ نیک بھی تھے۔ بہت کم ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس مال بھی ہو اور ساتھ عبادت، تلاوت، تسبیح، ذکر، صدقات خیرات بھی ہوں۔ میں اس گھر کے ایک کونے میں اتر گیا۔آخر مجھے دیو سے کیسے نبٹناہے: میں نے اپنے اردگرد حصار کرلیا کیونکہ جہاں وہ دیو جن تھا وہاں بہت بڑا عامل بھی تھا اور اس کے عملیات کی ہر چیز میں کوئی نہ کوئی ایسی ترتیب اور تدبیر ہوتی کہ وہ جن و انسان کو حرکت نہیں کرنے دیتا تھا‘ اس کی ہر چیز میں شیطانیت تھی‘ اس کے ہرمسئلے میں کوئی نہ کوئی مصیبت تھی۔ میں کچھ دن تو ایک کونے میں رہا اور کچھ دنوں کے بعد میں نے سوچا مجھے اس کیلئے کیا کرنا چاہیے؟ وہ میرا حصار نہیں توڑ سکے گا:سوچتے سوچتے آخر کار میں ایک نتیجے پر پہنچا اور وہ نتیجہ یہ تھا کہ میں خود جاکر اس سے بات کروں چونکہ میرے پاس طاقتور حصار تھا اور اس طاقت ور حصار کو مجھے یقین تھا کہ وہ نہیں توڑ سکے گا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ حصار مضبوط ہوگا اور اس حصار میں میںکامیاب ہوں گا ‘لہٰذا اسی حصار کے بھروسے پر میں اس دیو کے سامنے آیااور اس دیو کے سامنے آکر میں نے اسے چیلنج کیا میں چھوٹا‘ وہ بڑا، مجھے بظاہر سمجھ آئی کہ میں اس کے ساتھ کیسے جھگڑا کرسکوں گا؟ ہم فوقانی ثانی کی یہ ساری باتیں سن رہے‘ میرے ساتھ صحابی بابا، عبدالسلام‘ باورچی جن، حاجی صاحب بھی موجود تھے۔ لیکن اس دوران مجھے احساس ہواکہ عبدالسلام نے اچانک ہی اس کی بات پر ناگواری کا احساس کیا۔ میں نے آنکھ کے اشارے سے اسے روک دیا کہ اسے بات کرنے دو۔ اس بات پر کہ اسے بات کرنے دو، اس نے اپنی بات جاری رکھی لیکن اس دوران میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے حصار کیا کیا۔ لفظ کہف کا حصار:تو وہ کہنے لگا کہ دراصل میں نے جو حصار کیا تھا وہ ایک عمل کا کیا تھا میں نے اپنے اردگرد صرف اور صرف لفظ کہف پڑھا تھا جو سورۂ کہف کا لفظ ہے صرف وہی پڑھا تھا اور میں نے اس کو سانس روک کر حد سے زیادہ پڑھا تھا اور حد سے زیادہ پڑھنے پر اس کی تاثیر مجھے ملی اور میں اس تاثیر کو بہت زیادہ تلاش کرتا۔ مجھے اس لفظ کہف کی بہت زیادہ تاثیر ملی کیونکہ لفظ کہف کی تاثیر سے میں واقف تھا یہ اس کے اندر بہت طاقت اور بہت اس کے اندر قوت ہے اور اس کی تاثیر حد سے زیادہ قوت والی ہے۔ مجھ چھوٹے سے جن کو دیکھ کر دیو حیران رہ گیا: میں نے اپنے آپ کو لفظ کہف سے حصار کیا اور لفظ کہف کے حصار کرنے کے بعد میں دیو کے سامنے گیا اور اچانک اپنے سامنے مجھ چھوٹے سے جن کو دیکھ کر بہت حیران ہوا اور اس کی حیرانی واقعی قابل دید تھی۔ اس کی حیرانی میں بہت زیادہ مجھے احساس ہوا کہ میں چھوٹا ہوں اور وہ بہت بڑا ہے اور اس کی طاقت بہت زیادہ ہے‘ اس کی قوت بہت زیادہ ہے‘ پہلے تو میں نے اپنے آپ کو محسوس کیا کہ میں نے یہ کام کرکے غلطی کی لیکن پھر مجھے قرآن کے اس لفظ کہف پر بہت زیادہ یقین تھا۔ میرا دیو کو چیلنج: اس یقین کی بدولت میں نے اس کو چیلنج کیا تو آخر اس مسلمان گھرانے کو کیوں تنگ کررہا ہے؟ ان کا قصور کیا ہے؟ ان کے گھر میں بیماریاں‘ تکلیفیں‘ مشکلات‘ مسائل‘ پریشانیاں‘ الجھنیں پیدا کی ہیں۔ تمہیں اس میں آخر کیا مزہ ملتا‘ کیامحسوس ہوتا ہے۔ اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے‘ اس کے منہ سے انگارے نکل رہے تھے اسے میری بات بہت ناگوار گزری‘ اس نے گرج دار آواز میں کہا کہ تو کون ہوتا ہے میرے معاملات میں دخل کرنے والا‘ مجھے یہ گھر اچھالگتا ہے‘ گھر والے اچھے لگتے ہیں‘ اس گھر پر میری حکومت ہوگئی‘ اس گھر پرمیرا راج ہوگیا اور میں ہمیشہ دن رات اسی گھر میں رہوں گا اور میں نے ان گھر والوں کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنا ہے اور اپنی غلامی میں رکھنا ہے۔ وہ کہتا جارہا تھا میں سنتا جارہا تھا اس کے بول بول میں تیر تھے جو زہر سے بجھے ہوئے تھے‘ اس کے اندر ایک نفرت تھی‘ اس کے اندر ایک بغاوت تھی اس کے اندر بغض اور کینہ کی سخت بدبو تھی۔انہوں نے مجھے اجاڑا میں انہیں اجاڑ دوں گا: فوقانی ثانی ایک لمحے کیلئے ٹھہر گیا اس نے ہم سب کو ایک گہری نظر سے دیکھا اورگہری نظر سے دیکھنے کے بعد کہنے لگا کہ میرے پاس کچھ نہیں تھا‘ بس آپ حضرات کی صحبت تھی اور لفظ کہف کی طاقت تھی اور میں لفظ کہف مسلسل پڑھ رہا تھا اور اس کی باتوں کو خاموشی سے سن رہا تھا۔ وہ کہنے لگا سالہا سال سے میں اس گھر میں ہوں اس سے پہلے یہاں ساتھ ہی ایک بہت بڑا برگد کا درخت تھا۔ میں اس برگد کے درخت میں میرا قیام تھا میری ساری فیملی وہاں رہتی تھی۔ ان لوگوں نے وہ جگہ خرید لی اور برگد کے درخت کو کاٹ دیا۔ میں گھر اجڑ گیا‘ میں اپنی فیملی کو لے کر ایک ساتھ ہی وہاں ویرانہ ہےوہاں منتقل ہوگیا۔ انہوں نے اس جگہ کو اپنی حویلی میں شامل کرلیا۔ یہ خوش و خرم رہنے لگے‘ مجھے تکلیف پہنچی جن لوگوں نے مجھے ویران کیا اور بے آباد کیا وہ خود خوشحال اور سکھی کیسے رہ سکتے ہیں؟ بس یہ چیز تھی جس نے مجھے ان کے خلاف انتقام لینے کیلئے کہا۔ اب دن رات میرا کام یہی ہے اور میں ان کو ذلیل کروں گا‘ خوار کروں گا‘ پریشان کروں گا‘ میرے دل میں ان کیلئے نفرتیں ہی نفرتیں ہیں اور میرے دل میں ان کیلئے صدا کی بے زاریاں ہیں‘ میں کبھی بھی ان کو معاف نہیں کروں گا۔ وہ کہتا جارہا تھا اس کی آنکھوں کے شعلے اور بھڑکے اس کے منہ کے انگارے اور بڑے ہوئے اس کی نفرت کے تیر جو کہ زہرمیں بجھے ہوئے تھے اور زیادہ نکلنا شروع ہوئے۔ میں محفوظ ہوں ورنہ وہ تو مجھے جلا چکا ہوتا:مجھے ایک بات کا احساس ہوا کہ میں محفوظ ہوں‘ وہ اب تک مجھے جلا چکا ہوتا‘ مجھے صفحہ ہستی سے مٹا چکا ہوتا لیکن وہ ایسا نہ کرپایا‘ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ یہ باتوں ہی باتوں کچھ عمل بھی کررہا تھااورانگلی کو بار بار حرکت دے رہا تھا میں اس کے چہرے کو پڑھ رہا تھا جہاں اس کی غیض و غضب کی آوازیں بڑھ رہی تھیں وہاں اس کے چہرے کے تغیرات بتارہے تھے کہ اسے میرے اس عمل میں ناکامی ہورہی ہے‘ میرے اندر خوشی کی لہر بڑھ رہی تھی۔ میں ایک اعتماد اور اطمینان کیفیتوں میں آگے نکل گیا تھا اور مجھے احساس ہوا کہ میں بہت مطمئن ہوں‘ محفوظ ہوں اور اس چیز کا حصار میں نے کرکے اپنے آپ کو محفوظ کرلیا ہے۔تمہارے اردگرد اصحاب کہف کھڑے ہیں: میں اسی حفاظت کی کیفیت میں اس کی باتیں سن رہا تھا جب وہ اپنی باتیں کرتے کرتے شاید خود ہی اکتا گیا تھا‘ مجھ سے بولا اب بولوں تم کیوں آئے؟ میں نے کہا مجھ سےسوال نہ کرو؟ یہ سوال تم اپنی ذات سے کرو ‘تم یہاں کیوں ہو؟ میری اس بات پر اس کا غصہ اس کی آگ اور زیادہ بھڑک ہوئی کہنے لگا تم کون ہوتے ہو؟ مجھ سے پوچھنے والے؟ پھر خود ہی کہنے لگا تمہارے اردگرد میں محسوس کررہا ہوں اصحاب کہف کھڑے پہرہ دے رہے ہیں اور ان کا کتا ہے جس کا منہ اتنا بڑا ہے کہ وہ پہاڑ کو بھی نگل جائے اور وہ منہ کھولے کھڑا میری طرف دیکھ رہا ہے اگر میں نے تیرا کوئی برا چاہا تو وہ مجھے نگل جائے گا۔ میں تجھے کچھ کہہ نہیں سکتا میں بے بس ہوں۔میں تجھے نہیں چھوڑوں گا: آخر وہ خود ہی بول پڑا لیکن مجھے تجھ پر غصہ ہے میں موقع کی تلاش میں رہوں گا تجھے نہیں چھوڑوں گا۔ میری مسکراہٹ ہونٹوں پرپھیلی میری مسکراہٹ سے اس کا غصہ اور بڑھنے لگا لیکن اب وہ بولا نہیں۔ اب میرے بولنے کا وقت تھا: اب میرے بولنے کا وقت تھا۔ تو میں نے اس سے کہا کہ سب سے پہلا سوال تو یہ ہے تو نے انسانیت کو بہت زیادہ پریشان کرنے کا ایک مشن اپنے سر لیا ہوا ہے ‘آخر تو اس مشن کو کب چھوڑے گا۔ دوسرا تو یہ نہ سمجھ کہ اب میں یہاں سے چلا جاؤں گا جو لفظ میں پڑھ رہا ہوں مجھے اس لفظ کی طاقت اور قوت کا احساس ہوگیا ہے اور اب میں لفظ کو مسلسل پڑھتا رہوں گا اور بہت زیادہ پڑھتا رہوں گا۔ آج میں تجھے تیرا انجام سکھا کر جاؤں گا:میرے ساتھ اس لفظ کی طاقت ہے‘ میرے ساتھ اس لفظ کی قوت ہے‘ میرے ساتھ اس لفظ کی تاثیر ہے‘ میں اس لفظ کی طاقت اور قوت کو حد سے زیادہ پہچان گیا ہوں۔ آج میں تجھے تیرا انجام سکھا کر جاؤں گا اور مجھے تیرا انجام سوفیصد سکھانا ہے۔ نامعلوم میرے دل میں کیا سوجھی میں نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں اور دونوں مٹھیاں بہت طاقت سے بھینچ لیں اور اتنی قوت سے خود میری ہڈیوں کے کڑاکے اور آوازیں نکلنا شروع ہوگئیں میں اپنی ہڈیوں کی آوازیں اورکڑاکے خود ہی سن رہا تھا۔ میں  نےطاقت کے ساتھ لفظ کہف کو اپنی زبان اور دل سے پڑھنا شروع کیا اور مٹھیاں بھینچ کر میں نے تصور کیا جتنا زیادہ مجھے زیادہ بھینچے چلی جارہی اتنے زیادہ اس کا عمل ختم ہوتا جارہا تھا اس کی شیطانی قوتیں میری مٹھی کے اندر بند ہوتی جارہی تھیں جتنی میری انگلیوں کی گرفت بڑھتی چلی جارہی تھیں اتنے اس کے جسم میں میری گرفت بڑھتی چلی جارہی ۔ میں حیران ہوگیا میں نے چند لمحے ہی یہ عمل کیا تھا اس کا غصہ ختم ہوگیا وہ ایک دم ٹھنڈا پڑ گیا اور اس کی کیفیتوں میں عجیب انقلاب آگیا۔یہ نہ کر میں مرجاؤں گا: وہ ایک دم میں مایوس اور ڈھیلا پڑ گیا تھا اور مجھ سے کہنے لگا اپنے اس عمل کو کم کردے‘ میں کچھ نہیں کہتا تجھے بلکہ چھوڑتا ہوں‘ پہلے اس کے لہجے میں حکم تھا جب میں نے اپنا عمل جاری رکھا تھوڑی ہی دیر میں اس کے لہجے میں لجاہت اور منت آگئی اور کہنے لگا دیکھ تو جو کہےگا میں کروںگا پر یہ نہ کر، میرا سارا عمل ٹوٹ گیا اور میرا جسم ختم ہورہا ہے‘ میری جان نکل رہی ہے‘ میں مرجاؤں گا۔ میری بیوی بچے ہیں میرا انتظار کررہے ہیں‘ اس کی آنکھوں سے شعلے ختم‘ منہ سے انگارے ختم‘ اس کے زہربجھے تیر ختم، اب وہ تھا اور اس کی منت تھی۔ یہ بات کہتے ہوئے فوقانی ثانی نے ہمارے چہرے کی طرف دیکھا میں نے محسوس کیا عبدالسلام بھی اس سے پہلے بہت زیادہ ناگواری کا اظہار کررہا تھا اور میرے اشارے پر اس کے چہرے پر طمانیت اور اطمینان آچکا تھا وہ خاموش ہوگیا اور وہ بہت مطمئن تھا اور اس کی بات کو بہت دلچسپی سے سن رہا تھا اور اس کی طبیعت میں ایک نہایت اعتماد اوراطمینان محسوس کررہا تھا۔ آخر دیو کی منت ختم اور چیخ و پکار شروع ہوگئی:فوقانی ثانی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہا کہ میں اس(دیو) کی بات سن رہا تھا اس کی منتوں پر میں نے کوئی توجہ نہ دی مجھے پتہ تھا کہ اگر میں نے اس کو اپنے اس کہف کے عمل سے آزاد کردیا تو یہ کوئی نہ کوئی شرارت کرے گا‘ آخر کار اس کی منت ختم ہوئی اور اس کی چیخ و پکار شروع ہوئی اس کا شور اس کا واویلا اس کی ہائے ہائے بہت زیادہ بڑھنے لگے اس نے کہا مجھ سے جو قسم لیتا ہے لے لے، مجھ سے جو عہد لیتا ہے لے لے، یہ میرے سامنے اصحاب کہف کو ہٹا دے اور ان کے کتے کے منہ کو بند کرا دے اور جو عمل تو کررہا یہ عمل چھوڑ دے۔ تیرے عمل سے میرا جسم پگھلا جارہا ہے اور میں ختم ہورہا ہوں۔ میں دوڑ نہیں سکتا میرے چاروں طرف اصحاب کہف کا پہرہ ہے اور اگر میں دوڑنے کی کوشش کرتا بھی ہوں تو سامنے ان کے کتے کا کھلا منہ اس کی ہیبت، واقعی مجھے نگل لے گی۔ مجھے اس پر ترس آنا شروع ہوا۔ اصحاب کہف کے مخلص کے اشارے پر میں نے اسے چھوڑ دیا:اسی دوران میں نے اصحاب کہف کے ایک مخلص کو دیکھا جس کا نام تھا ازرافطیونس نے مجھے دیکھا اور اشارہ کیا ‘چھوڑ دو، یہ سچا عہد کررہا ہے‘ اس کے دل میں دھوکہ کھوٹ نہیں یہ آئندہ کسی کو تنگ نہیں کرے گا ان کے اشارے پر میں نے اپنی مٹھیوں کو کشش کو اور بھینچنے کو ڈھیلا کرنا شروع کیا اور میرا عمل کم ہورہا تھا اور اس کے جسم میں تھرتھراہٹ پسینہ اور اس کی جان میں جان آرہی تھی‘ میں نے عمل ختم کیا وہ نیچے گرگیا بہت دیر تک پڑا سانسیں لیتا تھا اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں اسے کچھ محسوس نہیں ہورہا تھا آخر کار وہ اٹھا اور میرے قدموں میں پڑگیا ۔کہنے لگا میں تجھ سے بہت بڑا تھا میرے سامنے بڑے بڑے جنات انسان آئے بڑے بڑے عامل جنات آئے اور بڑے بڑے انسان عامل آئے میں نے سب کو راکھ بنا دیا ۔جب بہت سو کو بھگا دیا اور خود بہت سو کو میں نے برباد کردیا لیکن تو پہلا جن ہے جس نے مجھے کمزور کردیا‘ برباد کردیا‘ مایوس کردیا‘ بے ہتھیار کردیا‘ میرے سارے گر ‘عمل‘ ہتھیار تو نے چھین لیے تھے۔ مجھے کسی قابل نہ رکھا۔ میری زندگی کا ایک پل پل تو نے ویران کردیا ۔ مجھ سے کہنے لگا کہ یہ عمل تو مجھے دے سکتا ہے میں نے کہا اگر یہی عمل میں نے تجھے دے دیا تو پھر میرے پاس باقی رہا کیا۔ لہٰذا اب جا تو یہاں سے اور اپنے گھر چلا جا، ان نیک لوگوں کے حویلی کو ویران نہ کر، ان کی زندگی میں مال، دولت، خوشیاں ہیں اس لیے کہ وہ نیک اعمال کرتے ہیں اور تو نے ان کی زندگی کو اجیرن کردیا تھا تھوڑی ہی دیر ہوئی وہ اس حویلی سے چلا گیا، میں اس واقعہ سے اتنا خوش ہوں اور یہ واقعہ آپ کو اس لیے سنا رہا ہوں کہ میں نے لفظ کہف کی طاقت کو آزمایا۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 994 reviews.