ایسے جوڑوں کی کمی نہیں کہ ان میں سے کسی کے رفیق یا رفیقہ حیات کو بیماری ہوجائے بلکہ معمولی سی چوٹ بھی لگ جائے تو ان کے رفیق یا رفیقہ حیات کو بڑی بے چینی ہونے لگتی ہے بیمار اگر مرد ہوتو بیوی اور اگر بیوی ہوتو شوہر سب کچھ چھوڑ کر اپنی زندگی کے ساتھی کے علاج معالجے اور تیمار داری میں لگ جاتے ہیں
پچھلی بار جب آپ بیمار پڑے تھے اور معمولی سے زکام نے طویل لت کی شکل اختیار کرلی تھی تو آپ کی اہلیہ نے اس بحران کا مقابلہ کس طرح کیا تھا؟ انہوں نے اس کا کیا اثر لیا تھا؟ کیا انہوں نے آپ کے کام کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کی تھی اور یہ اعتراف کیا تھا کہ آپ ان کی زندگی کیلئے انتہائی ضروری ہیں؟ اگر آپ کوئی خاتون ہیں تو یہی سوالات آپ سے بھی آپ کے شوہر کے متعلق کئے جاسکتے ہیں۔ کیا آپ کے شوہر نے گھر کا کام کاج سنبھال لیا تھا اور یہ کہا تھا کہ آپ کا وجود ان کیلئے عافیت کا سامان فراہم کرتا ہے۔ بہرحال آپ شوہر ہوں یا بیوی اگر آپ علالت میں آپ کے رفیق/ رفیقہ حیات نے پوری طرح آپ کا ساتھ دیا تھا تو سمجھ لیجئے کہ آپ کی شادی کامیاب ہے اور آپ ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی ہیں، معالجین ، ماہرین نفسیات، سماجی کارکن سب ہی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کسی جوڑے کی کامیابی کی آزمائش صحیح معنوں میں ان میں سے کسی ایک کی علالت کے دوران ہی ہوتی ہے۔ جب میاں بیوی میں سے کوئی بیمار پڑ جائے تو اس وقت یہ بات پرکھی جاتی ہے کہ انہیں ایک دوسرے کا کس قدر خیال ہے اوران کے درمیان شادی کا بندھن کس قدر مضبوط ہے۔
ایسے جوڑوں کی کمی نہیں کہ ان میں سے کسی کے رفیق یا رفیقہ حیات کو بیماری ہوجائے بلکہ معمولی سی چوٹ بھی لگ جائے تو ان کے رفیق یا رفیقہ حیات کو بڑی بے چینی ہونے لگتی ہے بیمار اگر مرد ہوتو بیوی اور اگر بیوی ہوتو شوہر سب کچھ چھوڑ کر اپنی زندگی کے ساتھی کے علاج معالجے اور تیمار داری میں لگ جاتے ہیں۔ اس جذبے کو مختلف لوگوں نے مختلف نام دیئے ہیں لیکن صحیح معنوں میں اس کو ایک ہی نام دیا جاسکتا ہے اور وہ ہے’’محبت‘‘۔ اس لحاظ سے علالت ہی ایک جوڑے کو یہ معلوم کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے کہ اسکے جیون ساتھی کو اس سے کس قدر محبت ہے اور وقت پڑنے پر وہ اس کے کس قدر کام آسکتا ہے۔ ایک ماہر نفسیات کے بقول جب کوئی بیمار پڑتا ہے تو اس پر گویا ایک قسم کی بے چارگی کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جب ایک علیل مرد یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی بیوی اسے کس قدر چاہتی ہے، اسی طرح ایک بیمار عورت یہ سمجھ سکتی ہے کہ اس کے شوہر کو اس کا کس قدر خیال ہے۔ میاں اپنی بیوی اور بیوی اپنے شوہر کے بیمار پڑنے پر جس قسم کے جذبات و احساسات کا اظہار کرتی ہے ویسے جذبات و احساس کا اظہار کوئی اور نہیں کرسکتا۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ مریض کی صحت یابی یا جلد صحت یابی کا انحصار بھی بڑی حد تک اس کے شوہر یا بیوی کی خبر گیری، تیمارداری اور محبت پر ہوتا ہے۔ اس جذبے کو ’’قربت‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ایسے مریض کہ جو کسی مطب یا کلینک میں علاج کیلئے جانے کے بجائے گھر پر ہی علاج کرانا پسند کرتے ہیں، ان کے گھر پر علاج کرانے اور شفایاب ہونے کے راز کو خوب سمجھا جاسکتا ہے، اگر بیمار کا قریب ترین عزیز بیماری کے دوران ہر وقت ساتھ ہوتو اس سے مریض کے شفایاب ہونے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اگر کسی کے ساتھ آپ کے گہرے دلی تعلقات ہوں اور وہ آپ کی بیماری کے دوران آپ کے پاس ہوتو یقین رکھئے کہ آپ کو جلد صحت یابی ہوگی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بیماری میں آپ کو تکلیف نہیں ہوگی، تکلیف تو ہوگی لیکن جس کے ساتھ آپ کے دل کا رشتہ قائم ہو وہ اگر آپ کے پاس موجود ہوتو تکلیف کا احساس بہت کم ہوجاتا ہے اور بیماری کے مسائل بہ آسانی حل ہوتے ہیں۔واقعہ تو ہے کہ بیویاں اپنے شوہروں کی بری عادتیں بھی چھڑاسکتی ہیں لیکن براہ راست نہیں بلکہ اس کے لئے بالواسطہ طریق کار اختیار کرنا ہوگا۔ فرض کیجئے کہ بیوی کوشوہر کا سگریٹ پینا پسند نہیں تواس طرح اپنےسگریٹ نوش شوہر سے کہے میں تم سے پیار کرتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ ہم دونوں کی جوڑی سلامت رہے ہم دونوں بڑھاپے تک ایک دوسرے کا ساتھ دیتے رہیں، لیکن مجھے تمہاری سگریٹ نوشی سے خطرہ محسوس ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی ماہر صحت سگریٹ نوشی کو کسی لحاظ سے مفید نہیں بتاتا بلکہ سب ہی اسے کئی مہلک بیماریوں کا سبب بتاتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ اس کی وجہ سے تمہیں کوئی مہلک بیماری ہوگئی تو میں کہاں کی رہوگی۔ پھر مجھے یہ بھی پسند نہیں کہ تمہاری محنت کی کمائی کا ایک اچھا خاصا حصہ اس جان لیوا نشے پر ضائع ہوتا رہے۔ بیوی اگر اس طرح چند بار شوہر کو پیار سے سمجھانے کی کوشش کرے تو یقین ہے کہ اس کی یہ نصیحت شوہر کے دل میں گھر کرلے گی اور وہ اس سے متاثر ہوکر سگریٹ نوشی چھوڑ سکتا ہے لیکن مریض کو بھی چند باتوں کا خیال رکھنا چاہیے مثلاً اسے چاہیے کہ وہ اپنی دل جوئی اور تیمار داری میں مصروف بیوی یا شوہر کو زچ نہ کرے اور اس بات کا خیال رکھے کہ اسے خواہ مخواہ پریشانی نہ ہو۔ ایسی باتیں نہ کرے کہ جو اسکے ساتھی کو ناپسند ہوں یا جن سے اسے تکلیف پہنچتی ہو۔ اکتاہٹ پیدا کرنے والی عادتوں کے اعادہ سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس سے دونوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ ایسی عادتوں سے صرف بیماری کی حالت میں نہیں بلکہ ہر حال میں گریز کرنا چاہیے۔ مطالعہ نفسیات اس طرف رہنمائی کرتا ہے کہ ایسے جوڑوں کو سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں سے کوئی ایک بیمار ہوکر ایسی باتوں پر زور دے جو اس کے ساتھی کو ناپسند ہوں۔ کچھ اور بھی دلچسپ باتیں ہوتی ہیں، مثلاً عام طور پر گھر کا انتظام عورتیں سنبھالتی ہیں عورتیں اکثر اپنے شوہروں کی خدمت گزاری بھی کرتی ہیں ایسی صورت میں جب کوئی عورت بیمار پڑ جاتی ہے تو گھر کا انتظام مرد کو سنبھالنا پڑتا ہے جس میں اسے بڑی دقت محسوس ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی جلد سے جلد صحت یاب ہوکر اپنی ذمے داریاں سنبھال لے۔اس کے برعکس شوہر بالعموم خاندان کے مالی انتظامات اور کفالت کا ذمے دار ہوتا اور تمام مالی بندوبست وہی کرتا ہے لیکن اس کے بیمار ہوجانے پر گھر کا مالی انتظام بھی عورت ہی سنبھال لیتی ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثر حالات میں شوہر کے شفایاب ہونے تک وہ اپنے شوہر کو مالی تفکرات سے نجات دلادیتی ہے بلکہ بعض حالتوں میں شوہر کے مکمل طور پر صحت یاب ہونے تک وہ اس پر کوئی مالی دبائو ہرگز پڑنے نہیں دیتی۔ کبھی کبھی علالت کے دوران بعض ایسی خواہشات بھی پوری ہوجاتی ہیں جو عام حالات میں پوری نہیں ہوپاتیں۔ مثلاً بعض گھریلو معاملات میں ایسے ہوتے ہیں جن سے شوہر اپنے طور پر نمٹنا چاہتا ہے جب کہ بیوی انہیں کسی اور طرح نمٹانا چاہتی ہے۔ تاہم وہ بیوی کو اس بات کیلئے مجبور نہیں کرنا چاہتا کہ وہ اس کی خواہش کے مطابق کام کرے لیکن جب بیوی بیمار ہوجاتی ہے اور اس کے فرائض بھی شوہر ہی سنبھال لیتا ہے تو اس خاص معاملے یا معاملات کو جن میں اسے بیوی سے اختلاف ہوتا ہے وہ اپنی پسند کے مطابق نمٹاتا ہے۔ بیوی کی صحت یابی کے بعد یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ میاں اور بیوی میں سے کس کا طریقہ درست یا زیادہ سودمند ہے، پھر اس کے مطابق سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔ بعض مرتبہ علالت باعث مسرت بھی ہوسکتی ہے، مثلاً فرض کیجئے کہ ایک شخص ایک سیل ایجنٹ ہے اور اپنے پیشے کے سبب اکثر سفر پر رہتا ہے۔ اس کی بیوی کو اس کے آئے دن کا سفر پسند نہیں اور وہ چاہتی ہے کہ اس کا شوہر کچھ عرصہ لگاتار گھر پر رہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ ممکن ہوتا ہے تو اس وقت جب شوہر بیمار ہوکر گھر کے اندر مقید ہوجائے شوہر کااس طرح مقید ہونا بیوی کے لئے باعث مسرت ہوتا ہے ۔ ان باتوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ علالت کی ازدواجی زندگی سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے اور علالت میاں بیوی کے تعلقات کو مزید مستحکم کردیتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں