آگ میرے لئے گلزار بن گئی، افطاری کا وقت ہوا تو سفید ڈاڑھی والے بزرگ مجھے افطاری دے گئے میں نے مغرب کی نماز ادا کی یوں لگ رہا تھا میرے اپنے مقتدی میرے پیچھے نماز ادا کررہے ہیں یہی حال عشاء کی نماز اور تروایح میں رہا۔
قرآن کی صداقت کے کیا ہی کہنے، میں گمراہ، قرآن نے راہ دکھائی۔ میں انجان مجھے شناسائی بخشی۔ میں آنکھوں سے دیکھ کر بھی اندھی، قرآن نے مجھے بینا کردیا۔ اے میرے محسن میری آرزو ہے کہ اے کاش انسان تیری اہمیت کو پہچانے‘ رہبری حاصل کرتے ہوئے تجھ سے دوستی لگالے جو اس کے اس وقت کام آنے والی ہے جب کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا۔ سچے قرآن کے سچے معجزے ہمارے لئے ہدایت کا پیغام ہیں اگر ہم سمجھیں تو… ایسے ہی دو معجزات کا ذکر کرتی ہوں کائنات میں سچا دل رکھنے والوں کیلئے معجزات ہوتے ہیں۔ کرسٹن ہندو سے عیسائی ہوگیا، مذہب کا گہرا مطالعہ کا شوق رکھتا تھا اس کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا جواب دینے سے مذہب عیسوی کے شہرت یافتہ مقررین پیروکار لیکچرار عاجز تھے۔ کسی نے اس کو بتایا قرآن واحد اللہ رب العزت کی کتاب ہے جس میں ہر سوال کا جواب موجود ہے، اس انگریز نے قرآن کا مطالعہ شروع کیا تو اس کے پیاسے دل کی تشنگی ختم ہوگئی۔ا س کا شوق بڑھا یوں اس کو ہر مسئلے کا حل مل گیا۔ اس کا پہلا سوال تھا جن وانس کی تخلیق کا کیا مقصد ہے؟ اس کو جواب ملا کہ بے شک اللہ نے اشرف المخلوقات بناکر اپنا نائب بنایا ہے۔ خلافت کا حق کیسے ادا ہوتا ہے؟ قرآن نے جواب دیا اللہ نے جنوں انسانوں کو اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔ پھراس کا سوال تھا عبادت کا کوئی دائمی فائدہ ہوگا قرآن نے اسے بتایا کہ اللہ کی منشا کے مطابق زندگی گزارنے والوں کیلئے خوشخبری اور کامیابی ہے۔ اللہ نے ان کی جان و مال کو جنت کے بدلے میں خرید لیا ہے کرسٹن کا دل دماغ گواہی دینے لگا قرآن سے بڑی کوئی صداقت نہیں اسی صداقت کو قبول کرتے ہوئے کرسٹن دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا اور اپنا نام عامر علی دائود رکھا اور ا بدی راحت اس قرآن کے غور و فکر پر ان کی زندگی گزری جوکہ قرآن کا معجزہ ہے۔
دوسرا معجزہ رمضان المبارک کی 5 تاریخ 1986ء میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے ایک شخص علاقہ جتوئی تحصیل علی پور کا رہنے والا تھا اس شخص کی دو بیویاں تھیں ایک سے چار بچے دوسری سے صرف ایک لڑکا تھا جوکہ ماں باپ کی آنکھوں کا تارا تھا۔ دوسری ماں کے چار بیٹے اس سے حسد بغض رکھتے اور جان سے مارنے کی سوچتے۔ 4 بھائی بھٹہ جلارہے تھے‘ وہ اینٹوں کا بھٹہ جلانے کا آخری دن تھا تو ان کا وہ آنکھوں کا تارا حافظ قرآن بھائی آگیا بھائیوں نے موقع جانتے ہوئے بھائی کو بھٹے میں دھکا دے دیا۔ ظالم بھائی بھٹے کا منہ بند کرکے حافظ بھائی کو جلتی آگ میں چھوڑ کر آگئے۔ افطاری کے وقت ماں نے پوچھا تو ظالم بھائیوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ ماں کو قتل کا شک ہونے لگا تروایح کا وقت آگیا مگر حافظ صاحب نہ پہنچے۔ باپ نے پولیس کو اطلاع دی پولیس بھٹے پر تفتیش کرتے رات بارہ بجے پہنچی بھٹے کا سوراخ کھولا تو اندر سے آواز آئی میرا خیال کرنا میں اندر زندہ ہوں۔ باہر نکالا تو سب حیران رہ گئے۔ جب حافظ صاحب سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ میرے بھائی مجھے آگ میں پھینک گئے آگ میرے لئے گلزار بن گئی، افطاری کا وقت ہوا تو سفید ڈاڑھی والے بزرگ مجھے افطاری دے گئے میں نے مغرب کی نماز ادا کی یوں لگ رہا تھا میرے اپنے مقتدی میرے پیچھے نماز ادا کررہے ہیں یہی حال عشاء کی نماز اور تروایح میں رہا۔ ا ب میں آپ کے سامنے زندہ سلامت ہوں۔ انسپکٹر پولیس نے بھائیوں کی گرفتاری کا حکم دیا تو حافظ صاحب نے کہا کہ میں اپنے بھائیوں کو معاف کرتا ہوں لیکن پولیس نے ان کو گرفتار کرلیا۔ یہ برکت اور معجزہ تھا کتاب اللہ کو اخلاص سے یاد کرنے اوراس پر عمل کرنے سے اللہ کریم نے حافظ قرآن کو بھڑکتی ہوئی بھٹی میں زندہ سلامت بچا کر نکال لیا۔ دوسرے اس کے دل میں ایسی نرمی تھی کہ اپنے جانی دشمنوں کو جو اس کو جان سے مارنے کی پوری تدبیر کرچکے تھے معاف کردیا۔ اللہ کریم ہر حافظ قرآن کو اور ہر مسلمان کو قرآن کریم کی سچی برکات نصیب فرمائے، اعلیٰ درجے کا سچا مومن بناکر قرآن سے مستفید فرمائے۔ آمین!
واقعی قرآن فرقان ہے جس کا مطلب معجزہ ہے، معجزہ قیامت تک معجزہ ہی رہے گا۔ اے انسان منہ نہ پھیر، کوتاہی نہ کر، سستی نہ کر، اس کا انجام اچھا نہیں۔ قرآن سفارشی بھی ہے اور شکایت بھی کرسکتا ہے، اپنی زندگیوں کو قرآن سے سنوار لو ابھی وقت ہے، وقت ختم ہونے سے پہلے وقت کی قدر کرلو۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں