امی نے بات کاٹ کر کہا: ناشکری کی باتیں منہ سے نہ نکالو‘ اپنے نیچے لوگوں کی طرف دیکھو‘ اپنے سے اونچے لوگوں کو نہ دیکھو‘ اگر تم ان پر نظر دوڑاؤ گی جو ہم سے بھی غریب ہیں تو تمہیں ایک سکون سا نصیب ہوگابرخلاف اس کے اپنے سے امیر لوگوں کو دیکھنے سے دل میں حسد پیدا ہوتا ہے
کالج سے آتے ہی امبر نے کتابیں میز پر پھینکیں اور دھم سے بستر پر گرپڑی‘ امبر کا سر چکرا رہا تھا اور تھکاوٹ سے جسم چور تھا‘ امی نے گھبرا کر پوچھا: ’’کیا بات ہے؟ طبیعت تو ٹھیک ہے آج بہت دیر کردی تم نے؟ کیا کالج میں کوئی فنکشن تھا؟ نہیں امی! فنکشن ونکشن کچھ نہیں تھا‘ امبر نے اکتائے ہوئے لہجہ میں جواب دیا‘ کالج کی بس خراب تھی‘ امی نے پیار سے میری طرف دیکھا اور بسوں کا تو آپ کو پتہ ہی ہے؟ امبر نے پھر کہا: اول تو کوئی آتی ہی نہیں‘ بھولے سے کوئی آتی ہے تو اس میں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی یہ کیا مصیبت ہے؟ امی مسکرانے لگیں: علم حاصل کرنے کیلئے قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں‘ تمہارا زمانہ تو پھر بھی اچھا ہے بسیں‘ ویگنیں‘ رکشے ہیں۔ ذرا ان لوگوں کی حالت کا اندازہ لگاؤ جب نہ بسیں چلتی تھی نہ ویگنیں اور نہ ہی رکشے تھے کئی کئی میل لوگ ٹھٹھرتی ہوئی سردیوں اور جھلسا دینے والی گرمیوں میں علم کی پیاس بجھانے کیلئے پیدل چلتے تھے۔ امی تھوڑی سی خاموشی کے بعد بولیں: پھر تم اکیلی تو ہو نہیں‘ ہزاروں لڑکیاں روزانہ اس کیفیت سے دوچار ہوتی ہیں‘ امی جو کچھ کہہ رہی تھیں وہ درست تھا لیکن مجھے جو چیز ہروقت بے چین رکھتی تھی وہ میں نے امی سے کہہ ہی دی‘ آپ ٹھیک کہتی ہیں امی! امبر نے کہا: لیکن بعض لوگ کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں انیلا ہے نا میری کلاس فیلو‘ اتنی امیر ہے کہ تین تین گاڑیاں ہروقت ان کے گھر پر کھڑی رہتی ہیں اور ایک میں ہوں کہ‘ امی نے بات کاٹ کر کہا: ناشکری کی باتیں منہ سے نہ نکالو‘ اپنے نیچے لوگوں کی طرف دیکھو‘ اپنے سے اونچے لوگوں کو نہ دیکھو‘ اگر تم ان پر نظر دوڑاؤ گی جو ہم سے بھی غریب ہیں تو تمہیں ایک سکون سا نصیب ہوگابرخلاف اس کے اپنے سے امیر لوگوں کو دیکھنے سے دل میں حسد پیدا ہوتا ہے اور زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ امی کا سمجھانے کا اندازہ بڑا اچھا تھا۔ ان کی باتیں امبر کے دل میں اترتی جارہی تھیں۔ انہوں نے پھر کہا: تمہاری کلاس میں ایسی بھی لڑکیاں ہوں گی جن کے پاس رکشہ تو کیا بس کے کرائے کے پیسے بھی نہیں ہوں گے۔ وہ بے چاری کس طرح کالج سے آتی جاتی ہوں گی۔ ہاں امی! ثمینہ بے چاری تو پیدل ہی چار کلومیٹر چل کر آتی ہے اور جاتی ہے۔ تمہیں تو اس پر رشک کرنا چاہیے‘ امی نے کہا۔ علم حاصل کرنے کیلئے اسے کسی تکلیف کی پرواہ نہیں۔ امی خاموش ہوگئیں مگر امبر کے دل کی کایا پلٹ چکی تھی۔ اس نے دل میں تہیہ کرلیا کہ کبھی ناشکری نہیں کرے گی اور میں بھی علم حاصل کرنے کیلئے ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کا عزم کرلیا۔
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
میں اور انور بچپن کے دوست تھے‘ ہمارے گھر ایک ہی محلے میں تھے‘ ہم دونوں ہم جماعت بھی تھے۔ پڑھائی میں ہم دونوں اچھے تھے۔ شام کو ہم اکٹھے گھر کے نزدیک پارک میں کرکٹ کھیلنے جاتے۔ انور بہت سادہ طبیعت کا مالک تھا۔ اس میں دوسروں کی مدد کا جذبہ بہت تھا۔ کلاس کے لڑکوں کو اس کی عادت کا علم تھا‘ اس لیے وہ اکثر کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے اس سے اپنے کام کروالیتے۔ میں انور کو سمجھاتا رہتا مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا وہ ہمیشہ دوسروں کی مدد کیلئے تیار رہتا۔ وہ ایک کھاتے پیتے گھرانے کا چشم وچراغ تھا‘ اس لیے روپے پیسے کی اسے کوئی کمی نہ تھی۔ میرے والد ایک ایماندار سرکاری ملازم تھے اور ہمارا گزارا صرف تنخواہ پر ہوتا تھا۔ میں بڑا ہوکر دولت مند بننا چاہتا تھا۔ وقت گزرتا رہا‘ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد انور اپنے والد کاکاروبار سنبھالنے لگا اور مجھے اس نے اپنے آفس میں ایک اچھی ملازمت دے دی لیکن میں بہت جلد امیر آدمی بننا چاہتا تھا اس لیے میں نے انور سے پانچ لاکھ روپے ادھار لیے اور بیرون ملک چلا گیا میں نے دن رات محنت کی‘ پہلے چھوٹی موٹی نوکریاں کیں‘ بھوکا رہا‘ بے گھر رہا‘ زندگی کی تلخیاں سہیں مگرہمت نہ ہاری۔ آخر دھیرے دھیرے میرا کاروبار بڑھتا چلا گیا۔ پہلے پہل تو انور سے میرا رابطہ رہا‘ پھر آہستہ آہستہ میں اپنے کام میں اتنا مصروف ہوگیا کہ کوئی دوست یاد نہ رہا۔ بیس سال گزر گئے۔ اب میں ایک بڑے کاروبار کا مالک تھا۔ اب میرے پاس وہ سب کچھ تھا جس کی میں نے خواہش کی تھی۔ بیس سال بعد اچانک ایک کام کے سلسلے میں مجھے پاکستان واپس آنا پڑا تو میں اپنے کئی دوستوں سے ملا۔ ان سے میں نے انور کے بارے میں پوچھا تو میں اس کے دفتر پہنچ گیا۔ دفتر کی عمارت بہت عالیشان تھی‘ مجھے اس کا کمرہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی۔ نہایت سادہ کمرہ تھا۔ میں نے وہاں موجود ایک ملازم سے پوچھا’’انور صاحب کا کمرہ یہی ہے‘‘ ملازم نے جواب دیا: ’’جی ہاں جناب! وہ ابھی آئے نہیں ہیں‘ ان کا فون آیا تھا کہ راستے میں ایک سائیکل والے کو ایک کار والا ٹکر مار گیا ہے وہ اسے لے کر ہسپتال جارہے ہیں‘ میں کچھ سوچ کر ہنس پڑا ’’تمہارے صاحب شروع سے ہی ایسے ہیں‘‘
میں نے پوچھا: ’’تمہارے صاحب کہاں رہتے ہیں‘ میں ان سے گھر پر ہی مل لوں گا‘‘ ملازم نے ایک کاغذ پر انور کے گھر کا پتہ لکھ دیا‘ میں باہر آگیا۔ میں نے اپنی سوچ اور کردار کا انور سے موازنہ کیا تو میں اپنی نظروں میں گرگیا۔ میں نے ساری زندگی کیا کیا تھا؟ صرف آسانیاں اور راحتیں حاصل کرنے کیلئے دولت کے پیچھے بھاگتا رہا اور انور اپنے لیے آخرت کی دولت کمارہا تھا۔ میرے آنسو چھلک پڑے۔ کاش! میں انور کے نقش قدم پر چلتا۔ سچ مچ دولت مند وہ تھا اور میں آج بھی مفلس ہوں۔ وہ اچھے اعمال کی دولت سے مالامال تھا اور لوگوں کی دعائیں سمیٹ رہا تھا۔ ضرورت مندوں کے کام آنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ (انتخاب:سانول چغتائی‘ رانجھو چغتائی‘ اماں زیبو چغتائی‘ بُھورل چغتائی‘ احمد پور شرقیہ)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں