ملک کے موجودہ سماجی اور اقتصادی حالات میں اکثر لڑکیوں کو گھر میں رہنا ہے اس کا مطلب یہ نہیںکہ خواتین نااہل ہیں یا ان میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ادبی سر گرمیوں میں حصہ لے سکیں، یاکسی کا لج کی لکچرار اورڈاکٹر اور نرس بنیں، یا کوئی دوسرا عہدہ سنبھالیں۔ ماننا پڑے گا کہ ہمارا معاشی نظام فی الحال ہم سب کو روزگار مہیا نہیں کر سکتا، یا یو ںکہیے کہ ہم سب اس وقت ایک ساتھ برسرِ روزگار ہو کر اپنے پاﺅں پر کھڑے نہیں ہو سکتے۔ ملک کی آبادی کے پیش نظر ہم میں سے چند ہی ایسی خواتین ہیں،جو گھریلو ذمہ داریوں کے علاوہ سیاسی اور معاشی ذمہ داریوں کو نباہ رہیں ہیں، یا ادبی تحریکو ں میں شامل ہیں او ر مختلف پیشوں جیسے طب، تعلیم اور کسی انتظامی مجلس میں حصہ لے رہی ہیں۔ ان حالات میں ظاہر ہے کہ ان خواتین کو جو گھر کے باہر عملی زندگی میں شامل ہونے کے مواقع سے محروم ہیں، صرف اچھی بیوی اور ماں کاہی کر دار ادا کرناہو گا اس لیے تعلیمی سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو گھریلو ذمہ داریا ں سنبھالنے اور اچھی بیوی بننے کی بھی تربیت ملنی چاہیے، تاکہ کنبہ کے ساتھ ساتھ قوم کی فلا ح و بہبود کے کام بھی گھر میںہو سکیں۔تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ بہت سی لڑکیا ں یہ سوچ کرکہ نوکری تو کرنا نہیں ہے، تعلیم کو ادھورا چھوڑ دیتی ہیں اور بعد میں غلط رجحانا ت کا شکا ر ہو جاتی ہیں۔ وہ سوچتی ہیں کہ جب اسکولی تعلیم حاصل کیے بغیر نئے فیشن اور گفتگو کرنے کے دل کش انداز سیکھے جا سکتے ہیں تو درسی کتابو ںمیں وقت صرف کرنے کی کیا ضرورت ہے۔تعلیم کا مقصد فیشن سے رہنا نہیں، بلکہ اپنے ملک کا ذمہ دار شہری بننا اور قوم کے مستقبل کی تعمیر میں اپنا رول صحیح طریقہ سے ادا کرنا ہوتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ چھوٹے موٹے امتحانا ت پاس کرنے کے بعد لڑکیاں فیشن پرستی کواپنا شیوہ بنا لیتی ہیں اور گھریلو ماحول اور کام کا ج سے اجتناب کر تی ہیں۔ گھٹیا ادب کا مطالعہ، فلمی لباس کی نقل اور سیروتفریح ان کے لیے زندگی کے اہم مقاصد بن جا تے ہیں۔ والدین، عموماً مائیں لڑکی کے ان سنہرے خوابوں سے مرعوب ہو جاتی ہیں اوران کے بے جا مطالبات پورے کرتی ہیں وہ تعلیمی مقاصد کو فراموش کر بیٹھتی ہیں اور بیٹی کو قنا عت،صلح پسندی، قربانی اور دوسری کارآمدباتوں کی تربیت دینے کے بجائے خود اس کی جدت پسندی سے اتنی متاثر ہو جاتی ہیںکہ وہ دھیرے دھیرے کاہل، خودپسند، خود غرض اور خیالی دنیا میں رہنے والی ایک غیر حقیقت پسند لڑکی بن جا تی ہے۔
مثلاً رشیدہ اپنی سہیلی محمودہ کے شوہر سے بہت مرعوب نظر آتی ہے اور دل ہی دل میں کڑہتی ہے کہ ”میری بھی قسمت کہاں پھوٹی!“ اور پھر ایک ٹھنڈی سانس کے ساتھ دل میں اپنے خا وند کے بارے میں کہتی ہے کہ ”کہا ں میں اور کہا ں یہ....! افوہ، مجھے کتنی شرم آتی ہے، جب یہ شیر وانی پہن کر نکلتے ہیں، کو ئی سمجھے شاید سوٹ ہے ہی نہیں۔ “ یا پھر نجمہ اپنی سہیلی سلمٰی کی نئی کا ر کو دیکھ کر ایک دم بے چین ہو جا تی ہے، گھرکی ہرچیز اس کو بُری لگتی ہے، بچوں پر برستی ہے، شوہر کی محبت اور پیار بھری با تو ں سے خوش ہو نے کے بجا ئے اس کو جھڑک دیتی ہے اور کہتی ہے، ”باتیں بنا ئیں اتنا سمجھا یا کہ ترقی کرنے کی کوشش کیجیے، لیکن آپ کے اوپر میری کسی با ت کا اثر ہی نہیں ہوتا۔“ اس مکالمہ کے بعد اس پر ایک رقت طاری ہو جاتی ہے اور وہ اپنے کو دنیا میں نہایت بد نصیب عورت تصور کرنے لگتی ہے۔یہی نہیں اگر لڑکی خوش قسمتی سے ان تمام ظاہر ی چیزوں کو حاصل کر لیتی ہے، جن کی وہ شادی سے پہلے خواب دیکھتی تھی تو اس کو کسی اور بات کی فکر ہو جا تی ہے۔
مثال کے طور پر اگر کسی کی شادی ڈاکٹر سے ہو تی ہے تو خاوند کے زیادہ دیر تک کلینک میں بیٹھنے اور مرےضو ں کو زیادہ وقت دینے پر ہی اپنے کو بدقسمت سمجھنے لگتی ہے اور سوچتی ہے کہ کاش کسی بڑے سرکا ری افسر سے بیاہ ہو تا جو وقت پر تو گھر آتا اور پھر اگر کسی سرکاری افسر کی بیوی سے ملاقات کی جائے اور اس کے دل کی گہر ائیو ں میں جھا نکا جائے تو وہاں بھی بے اطمینانی اور الجھنیں ہو ں گی۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد تبادے، ایک ما حو ل سے الگ ہو کر دوسرے ماحول میں اپنے کو کھپانا، بچو ں کی تعلیم کا نقصان، یہ وہ چند مسئلے ہیں، جن سے گزیٹڈ افسروں کی بیویا ں متفکر دکھا ئی دیتی ہیں۔ اکثر بیویا ں یہ سمجھتی ہیں کہ قسمت نے ان کا سا تھ نہیں دیا اور ان کووہ کچھ نہیں مل سکا جس کی وہ مستحق تھیں ان با تو ں سے ظاہر ہو تا ہے کہ وہ زندگی کی حقیقی قدروں سے بالکل نا واقف ہیں اور چند سطحی باتوںکو متاع حیا ت سمجھتی ہیں۔ عورت کے لیے شوہر کی محبت ہی دراصل بنیا د ہے، جس پر خوش گوار گھریلو زندگی کی تعمیر کی جا سکتی ہے۔ کا ر، کوٹھی، زیورات اور لباس ثانوی چیزیں ہیں بہت سی لڑکیاں یہ جا نتی ہی نہیں کہ وہ کیا چا ہتی ہیں اور ان کو کون سی ایسی شے مل جا ئے، جس سے ان کو اطمینان ہو۔
دوسروں کی تقلید اور حر ص وہ جذبہ ہے، جوہر وقت ان میں کا رفرما رہتا ہے اور بجائے اس کی کہ وہ اپنے گھر کی رونق بنیں، شوہر کے لیے وبال بن جا تی ہیں۔ شوہر کی اچھا ئی یابرائی دراصل اپنی سمجھ، اپنے عمل اور مزاج پر منحصر ہے۔ ہر شادی تقریباً ایک سی ہو تی ہے۔ یہ صرف ہماری تعلیم و تربیت ہے، جو اس کو کامیاب بنا کر ہمیں ایک مطمئن زندگی بسر کرنے کا اہل بنا تی ہے۔ ان بنیادی با تو ں کو ذہن نشین کرانا اور بیٹی کے مزاج کا ایک حصہ بنانا والدین کا فرض ہے۔ اسکو ل و کا لج میں الجبرا اور جیومیٹری کے پرابلم حل کر نے کے طریقے سیکھا کر امتحان کے بعد بھلا ئے جا سکتے ہیں، لیکن ازدو اجی زندگی مستقل امتحان ہوتی ہے اور اس امتحان میں کا میابی کی تیاری بچپن سے ہی شروع ہو جا نی چاہیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ والدین کو شروع سے ہی لڑکی کے مستقبل کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 51
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں