Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

نصیحت کی باتیں، بچوں کی زبانی

ماہنامہ عبقری - مارچ 2008ء

” تعبیر “ ( تحریر : حجاب بنت راشد شمسی،لاہور) آفتا ب ایک شریر لڑکا تھا ۔ محلے کے تمام لو گ اس کی شرارتوں سے تنگ تھے ۔ وہ آئے دن کوئی نہ کوئی نئی شرارت کر بیٹھتا ۔ پر ندو ں کے گھونسلے توڑنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ نہ جانے کتنے پرندو ں کے گھونسلے اس کے ہاتھوں بر باد ہو چکے تھے ۔ آفتا ب کے والدین اکثر اسے سمجھایا کر تے کہ بیٹا پرندو ں کو تنگ کر نا اچھی با ت نہیں ۔ مگر ان کا اس پر کوئی اثر نہ ہو تا بلکہ وہ الٹا ان سے کہتا : ” بچپن میں ہر کوئی شرارت کر تا ہے ۔ اگر میں کوئی چھو ٹی مو ٹی شرارت کر لیتا ہو ں تو نہ صرف آپ بلکہ پورے محلے والے ہا تھ دھو کر میرے پیچھے پڑ جا تے ہیں ۔ “ اس کے والد نے قدرے سنجید ہ لہجے میں کہا : ” ہم کب کہتے ہیں کہ تم کوئی شرا رت نہ کرو۔ کرو مگر ایسی جس سے کسی کو تکلیف نہ ہو ۔ “ ایک دن آفتا ب چڑیا کے گھونسلے سے انڈے نکالنے کے لیے درخت پر چڑھا تو اس کا پاﺅ ں پھسل پڑا اور وہ دھڑام سے نیچے گرا ۔ اس کے نہ صرف شدید چوٹیں آئیں بلکہ اس کی ٹانگ کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی ۔ اس کو ہسپتال لے جا یا گیا ۔ جہا ں اس کی ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا دیا گیا ۔ ایک دن سخت تکلیف میں گزارنے کے بعد کچھ آرام آیا تو بیڈ پر لیٹے لیٹے ہی نئی شرارت کرنے کا منصوبہ بنا نے لگا ۔ اسی سو چ و بچار میں اس کی آنکھ لگ گئی ۔ اس نے دیکھا کہ روز ِ محشر ہے ۔ نفسا نفسی کا عالم ہے ۔ ہر شخص اپنے گنا ہو ں تلے دباجا رہا ہے ۔ ہرکوئی خوفزدہ تھا ۔ اسی اثنا ءمیں آفتاب کا دم گھٹنے لگا ۔ لیکن کسی نے اس کی طر ف توجہ نہ دی ۔ پھر وہ اپنے خوفنا ک انجام سے کانپنے لگا۔ اسے اپنی تمام شرار تیں یا د آنے لگیں ۔ پھر اس کے کا نو ں میں پرندو ں کا شور گونجنے لگا جو اس کے خلا ف احتجاج کر رہے تھے ۔ یکا یک کسی نے اس کا ہا تھ پکڑا اور ایک طرف گھسیٹا ۔ اس نے دیکھاسامنے آگ جل رہی ہے اور اس کے جھلسا دینے والے شعلے اس کی طر ف لپک رہے ہیں ۔ وہ زور زور سے چلانے لگا : ” میں دوزخ میں نہیں جاﺅں گا ۔ میری توبہ میں آئندہ کسی کو تنگ نہیں کر و ں گا ۔ مجھے چھوڑ دو ۔ میں کسی پرندے کو نقصان نہیں پہنچاﺅ ں گا ۔“اس کے بیڈ کے ساتھ بیٹھی ہوئی اس کی ما ں نے اسے سہا را دیا اور پو چھا : ” بیٹا کیا کوئی خوا ب دیکھا ہے ؟“ آفتاب نے اپنے حواس پر قابو پا تے ہوئے اپنی امی کو سارا خوا ب اور عبرتنا ک انجام بھی بتا دیا ۔ اس کی امی نے خو اب سننے کے بعد اس سے کہا: ” اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تم آئندہ کسی کو تکلیف نہ پہنچانا ۔ کسی پرندے کے گھونسلے کو مت توڑناورنہ یا د رکھو ظالم کا انجام برا ہو تا ہے۔ اس سے قبل کہ تمہارا انجام خوفنا ک ہو تم ظلم سے تو بہ کر لو ۔ “ آفتا ب نے وعدہ کیا کہ وہ کسی بے زبان کو دکھ نہ پہنچائے گا ۔ بلکہ ہر مصیبت زدہ کی مدد کرے گا اور مظلوموں کی حمایت کرے گا ۔“بچو! آپ بھی تکلیف دہ شرارتو ں سے اپنا وقت بر باد کرنے کے بجائے دکھی انسانوں کی خدمت کو اپناشعار بنائیں ۔ اللہ نیکی کرنیوالو ں سے خوش ہوتاہے اور انہیں اس کا اجر بھی دیتا ہے۔ ایفائے عہد کا مثالی واقعہ ( مر سلہ : حافظ قاسم، قصور پو رہ لاہور) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ قابل ذکر ہے جس سے معلوم ہو گا کہ اس وقت کے مسلمان اپنی زبان کے کس قدر پابند تھے ۔ وعدہ ، پتھر کی لکیر سمجھتے تھے ۔ہر مزان ایرانیو ں کے ایک لشکر کا سر دار تھا۔ ایک مر تبہ مغلو ب ہو کر اس نے جزیہ دینا بھی قبول کیا تھا ۔ مگر پھر با غی ہو کو مقابلے پر آیا ۔ لیکن مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ زندگی پر مضبو طی سے جمے ہوئے تھے ۔ اس لیے اللہ کی مدد ان کے ساتھ تھی ۔ اس بار بھی ہر مزان کو شکست ہو ئی اور وہ گرفتا ر ہو کر اس حالت میں کہ تا ج مر صع سر پر تھا ،دیبا کی قبازیب تن ، کمر سے مرقع تلوار آویزاں پیش بہا زیورات سے آراستہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پہنچا۔ آپ رضی اللہ عنہ اس وقت مسجد نبوی میں تشریف رکھتے تھے ۔ فرمایا تم نے مسلسل تین با ر بد عہدی کی ۔ اب اگر اس کا بدلہ تم سے لیا جائے تو تم کو کیا اعتراض ہے ؟ ہرمزان نے کہا مجھے خوف ہے کہ میرااعتراض سننے سے بیشتر ہی مجھے قتل نہ کر دیا جائے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسا ہر گز نہ ہو گا تم کو ئی خوف نہ کر و۔ ہر مزان نے کہا مجھ کو پانی پلادو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پانی لا نے کا حکم دیا۔ ہر مزان نے ہا تھ میں پانی کا پیالہ لیکر کہا مجھے خطر ہ ہے کہ میں پانی پینے کی حالت میں قتل نہ کر دیا جاﺅ ں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب تک تم پانی نہ پی لو اور اپنا عذر بیا ن نہ کرو تم اپنے آپ کو ہر قسم کے خطر ہ سے محفوظ سمجھو ۔ ہرمزان نے پیالہ ہا تھ سے رکھ دیا اور کہا میں پانی نہیں پینا چاہتا آپ نے مجھ کو امان بخشی ہے اس لیے آپ مجھ کو قتل بھی نہیں کر سکتے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ہر مزان کی اس چالا کی اور دھوکہ دہی پر بہت غصہ آیا ۔ لیکن حضرت انس رضی اللہ عنہ درمیا ن میں بول اٹھے اور کہا ۔ امیر المومنین ! یہ سچ کہتا ہے کیونکہ آپ نے فرمایا ہے کہ جب تک پورا حال نہ کہہ لو کسی قسم کا خوف نہ کرو ۔ اور جب تک پانی نہ پی لوکسی قسم کے خطرے میں نہ ڈالے جا ﺅ گے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے کلا م کی دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہ نے بھی تا ئید کی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہرمزان تو نے مجھے دھوکا دیا ہے لیکن میں تجھے دھوکا نہ دوں گا ۔ اسلام نے اس کی تعلیم نہیں دی ۔ ایفا ئے عہد اور حسن سلوک کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر مزان مسلمان ہو گیا۔ امیر المومنین نے دوہزار سالانہ ا سکی تنخواہ مقرر کر دی ۔ نبوت کے تربیت یا فتہ بچے ایک دفعہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ نما ز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے ۔ وہاں ایک ضعیف با با جی وضوکر رہے تھے۔ لیکن دونوں بھائیو ں نے دیکھا کہ ان کے وضو کا طریقہ ٹھیک نہیں ہے ۔ اب دونو ں بھائی سو چ میں پڑ گئے کہ ہم ان کی اصلا ح کیسے کریں ۔ کیونکہ وہ بزر گ ہیں اور کہیں ہماری باتیں ان کو نا گوار نہ گزریں اور ہماری وجہ سے ان کو تکلیف ہو ۔ آخر انہو ں نے مشورے سے ایک پروگرام بنایا کہ ان کی اصلاح بھی ہو جائے اور ان کی دل شکنی بھی نہ ہو ۔ اب ان بزرگ کے پا س گئے اور کہا با با جی ! میرا بھائی کہتا ہے کہ میں ٹھیک وضو کر تا ہو ں اور میں کہتا ہو ں کہ میں ٹھیک کرتا ہو ں ۔ آپ ہم دونو ں کا وضو دیکھیں اور بتائیں کہ کون صحیح طریقے سے وضوکر تا ہے ؟ اب پہلے حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے وضو کیا اور خوب اچھے طریقے سے کیا ۔ پھر اس کے بعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اچھی طر ح وضو کیا ۔ پھر دونو ں بھائی ان بزرگ کی طر ف متوجہ ہوئے اور پو چھا ۔ بزرگوار! آپ بتائیں کہ ہم دونوں میں سے کون ٹھیک وضو کر تاہے ؟ بابا جی بھی سمجھدار تھے بچوں کا اندازہ سمجھ گئے اور بولے !میرے بچو ! آپ دونو ں کا وضو ٹھیک ہے ،میرا ہی غلط ہے ۔ آپ دونو ں کے وضو کو دیکھ کر میری بھی اصلا ح ہو گئی ہے اور ان بزرگ نے دونو ں بھائیوں کو بہت دعائیں دیں۔ اس طر ح حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے نواسوں نے حکمت و دانائی کے ساتھ اصلا ح بھی کر دی اور ان کی دل شکنی بھی نہ ہوئی ۔ ہمیںبھی چاہیے کہ پیار اور محبت کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کریں اور بڑوں کی بے ادبی نہ کریں کیوں کہ : با اد ب با نصیب بے ادب بے نصیب
Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 347 reviews.