آج عبداللہ بہت خوش تھا کیونکہ آج اس کے بیٹے حذیفہ کا سکول میں پہلا دن تھا۔ عبداللہ دن بھر رکشہ چلاتا اور جو کماتا اس سے گھر والے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے زندگی گزارتے۔
عبداللہ ان پڑھ تھا اسے پڑھنا لکھنا بالکل بھی نہیں آتا تھا اسی وجہ سے وہ چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا تعلیم حاصل کرے اور علم کے ذریعے پوری دنیا میں دین زندہ کرے۔ عبداللہ نے سب سے پہلے مسجد کے امام صاحب (جو عالم دین تھے) مشورہ کیا کہ عبداللہ کی تعلیم وتربیت کس طرح کی جائے۔
امام صاحب نے عبداللہ کو مشورہ دیا کہ سب سے پہلے حذیفہ بیٹے کو کسی اچھے دینی ماحول والے سکول میں داخلہ دلوا دو پھر کچھ عرصہ بعد جب حذیفہ بیٹا اچھی طرح پڑھنا لکھنا سیکھ لے تو اسے کسی اچھے مدرسہ میں حفظ (قرآن یاد) کروا دیا جائے۔
عبداللہ کو امام صاحب کی باتیں بہت اچھی لگیں وہ امام صاحب سے اجازت لے کر گھر آیا اور حذیفہ کی والدہ کو امام صاحب کی کہی ہوئی باتیں بتائیں۔ حذیفہ کی والدہ ایک سمجھدار خاتون تھیں وہ بھی ان باتوں پر عمل کرنے کیلئے فوراً تیار ہوگئیں۔
عبداللہ گھر کے قریب موجود سکول گیا اور حذیفہ کا داخلہ سکول میں کروا دیا۔ آج حذیفہ کا سکول جانے کا پہلا دن تھا۔
ایسے لگ رہا تھا کہ عبداللہ کے گھر میں عید آگئی ہے سب گھر والے خوش تھے کہ آج حذیفہ سکول جائے گا۔حذیفہ کو سکول کی نئی وردی پہنائی گئی۔
امی نے جلدی سے لنچ بکس میں حذیفہ کا پسندیدہ کھانا رکھ دیا اور حذیفہ کو پیار سے سمجھایا کہ دیکھو بیٹااب کھانے کا وقفہ ہو تو ہاتھ دھو کر بسم اللہ پڑھ کر سیدھے ہاتھ سے کھانا کھانا اور اپنے ساتھیوں کو بھی کھلانا۔
حذیفہ میاں اپنے اباجان کے رکشہ میں بیٹھ کر سکول پہنچے۔
لیکن یہ کیا....؟ جیسے ہی عبداللہ حذیفہ کو سکول چھوڑ کر واپس آنے لگا حذیفہ نے رونا شروع کردیا اور اس زور سے رونا شروع کیا کہ عبداللہ کو اسے واپس گھر لانا پڑا۔
گھر آکر عبداللہ نے حذیفہ کو بہت سمجھایا اور علم حاصل کرنے کے فضائل (فائدے ) سنائے لیکن حذیفہ میاں نہ مانے اور سکول جانے کیلئے بالکل تیار نہ تھے۔
اب تو عبداللہ بہت پریشان ہوا اور حذیفہ کی والدہ سے مشورہ کیا۔
انہوں نے عبداللہ کو سمجھایا کہ بچہ ہے کچھ دنوں میں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ آپ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں اور اللہ سے دعا کریں۔ عبداللہ نے ایسا ہی کیا۔ وہ روزانہ ہر فرض نماز کے بعد حذیفہ کیلئے دعا کرتا۔
حذیفہ میاں اپنی مستی میں مگن تھے‘ وہ دن کو باہر نکلتے دوستوں میں کھیلتے اور شام کو گھر آکر کھانا کھا کر سوجاتے۔ ایک دن حذیفہ اپنی عادت کے مطابق شام کے وقت کھیل کے میدان پہنچے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کا کوئی دوست بھی کھیلنے نہیں آیا۔ وہ بہت پریشان ہوئے اور کچھ دیر دوستوں کا انتظار کرنے کے بعد گھر واپس آگئے۔ دوسرے دن بھی یہی ہوا یہاں تک کہ پورا ہفتہ گزر گیا۔ اب حذیفہ نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا۔
ایک ہفتہ کے بعد حذیفہ کے دروازے پر کسی نے دستک دی حذیفہ نے دروازہ کھولا تو اس کے سارے دوست کھڑے تھے وہ حذیفہ کو کھیلنے کیلئے بلانے آئے تھے۔
حذیفہ نے ان سے پورا ہفتہ غائب رہنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے سکول میں امتحانات ہورہے تھے اس لیے ہم پڑھائی کررہے تھے‘ اب الحمدللہ ہمارے امتحانات ختم ہوگئے ہیں تو ہم تمہیں کھیلنے کیلئے بلانے آئے ہیں۔ حذیفہ ان کی باتیں سن کر حیران رہ گیا‘ اس نے امتحان کا لفظ پہلی مرتبہ سنا تھا اسے نہیں پتا تھا کہ امتحان کیا ہوتا ہے۔
دوستوں کے سامنے تو اس نے کچھ نہیں کہا‘ خاموشی سے ان کے ساتھ کھیلنے چلا گیا لیکن جب شام کو وہ کھیل کر گھر واپس آیا تو رات کے کھانے پر اس نے عبداللہ سے پوچھا کہ ”ابوجان یہ امتحان کیا ہوتا ہے؟“
عبداللہ نے کہا کہ بیٹا جو بچے سکول میں پڑھتے ہیں ان کی پڑھائی کا سال گزرنے پر ان سے اس پڑھائی کے متعلق سوالات کیے جاتے ہیں اور دیکھا جاتا ہے کہ کس بچے نے اپنا سبق اچھی طرح یاد کیا ہے سب سے اچھی طرح سبق یاد کرنے والے بچوں کو اچھے اچھے تحفے دئیے جاتے ہیں اور گھر والے بھی خوش ہوکر ان کو انعامات دیتے ہیں۔
تحفوں اور انعامات کا سن کر حذیفہ کے منہ میں پانی آگیا اس نے اپنے ابو سے کہا ”ابو ابو! کیا مجھے بھی انعامات مل سکتے ہیں؟“
عبداللہ نے کہا کیوں نہیں اگر تم سکول جائو اور دل لگا کر پڑھو تو تمہیں بھی انعامات ملیں گے اور تمہارے امی ابو بھی خوش ہونگے اور جب کسی بچے سے اس کے امی اور ابو خوش ہوں تو اس سے اللہ بھی خوش ہوتے ہیں اور ہرکام میں اس کی مدد کرتے ہیں۔
اب حذیفہ کو بہت افسوس ہوا کہ اس نے اپنے امی ابو کا دل دکھایا اور ان کی بات نہ مانی اس نے اپنے امی ابو سے معافی مانگی اور ان سے وعدہ کیا کہ اب وہ ہمیشہ ان کی بات مانے گا اور کبھی بھی ان کی نافرمانی نہیں کرے گا۔
دوستو! امی ابو ہمیشہ ہماری اچھائی ہی سوچتے ہیں‘ ان کی چاہت ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا/ بیٹی دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجائے اس لیے کبھی بھی ان کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے اور اگر کسی بات پر امی ابو ناراض ہوجائیں تو فوراً معافی مانگنی چاہیے کیونکہ جس سے اس کے امی ابو ناراض ہوتے ہیں اس سے اللہ بھی ناراض ہوجاتے ہیں۔ ہمارے پیارے نبی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ” والدین کی ناراضگی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے۔“
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں