سلمیٰ رشید اکثر کھانسی میں مبتلا رہتی تھیں‘ بچپن سے ہی ان کے پھیپھڑے خاصے کمزور تھے اور سرد موسم میں وہ ٹھنڈی چیزوں کے استعمال سے پرہیز بھی کرتی تھیں۔ شوہر کے مالی حالات کے باعث ان کا شمار نہایت غربت میں زندگی بسر کرنے والوں میں ہوتا تھا۔ لہٰذا انہوں نے آمدنی میں اضافے کیلئے خود بھی کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ شہر میں رہنے کی وجہ سے ان کو کوئی کام مل سکتا تھا لیکن تعلیم اور ہنر دونوں سے محروم ہونے کے سبب انہیں کام نہ مل سکا جب وہ ہر طرف سے مایوس ہوگئیں تو ان کی ملاقات محلے میں نئی آنے والی ادھیڑ عمر رضیہ بی بی سے ہوئی۔ دونوں کی کہانی ملتی جلتی تھی لہٰذا سلمیٰ نے انہیں ہمدرد جان کر اپنا حال دل سنا ڈالا۔ رضیہ بی بی نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ اگر وہ چاہے تو گھریلو صفائی ستھرائی کا کام اسے مل سکتا ہے سلمیٰ بھی ہر طرف سے مایوس ہوچکی تھی اس لیے فوراً حامی بھرلی یوں انہیں روزگار مل گیا۔ اب سلمیٰ صبح سویرے بچوں کو ناشتہ کروانے کے بعد گھر اپنی بڑی بیٹی کے سپرد کرتیں اور کام پر نکل جاتیں۔ شروع شروع میں تو دو تین گھروں میں کام کیا لیکن آہستہ آہستہ گھروں کی تعداد بڑھنے لگی تو مصروفیت بھی بڑھنے لگی۔
دن گزرتے چلے گئے.... شروع کے چند ماہ تک تو حالات ٹھیک رہے لیکن رفتہ رفتہ ان کی طبیعت زیادہ خراب رہنے لگی۔ اب کھانسی کے ساتھ ساتھ انہیں سینے میں درد اور سانس لینے میں بھی دقت محسوس ہونے لگی شروع شروع تو انہوں نے اس کیفیت کو نظرانداز کیا لیکن جب ایک سرد رات میں انہیں کھانسی کے سخت ٹھسکے کے بعد سانس اکھڑتی ہوئی محسوس ہوئی تو ان کے شوہر کو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا.... وہ رات اس گھرانے پر قیامت کی رات تھی۔ ساری رات وہ شدید بے چینی کے عالم میں رہیں دوسری صبح جب سلمیٰ کو ایک سرکاری ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹر نے تشخیص کی کہ انہیں ”دمہ اور سانس کی نالیوں میں سوزش کا مرض لاحق ہوگیا ہے۔ ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ دھول‘ مٹی سے خود کو جتنا ہوسکے بچائیں!!۔ خبر کیا تھی اس گھرانے کیلئے ایک نئی مصیبت کا آغاز تھا۔ سلمیٰ کا کام ہی صفائی ستھرائی تھا۔ اس لیے دھول‘ مٹی سے بچنا ان کیلئے محال تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر کے مشورے کو نظرانداز کیا اور دوا کے ساتھ ساتھ اپنا کام بھی جاری رکھا‘ اس کا نتیجہ منفی ہی نکلنا تھا سو وہی ہوا.... آج سلمیٰ دمے کی مریضہ ہیں اوراس کے ساتھ ساتھ کھانسی اور سانس کی سوزش میں مبتلا ہوکر چارپائی پر لیٹ کے بے احتیاطی سے رونما ہونے والی کیفیت کی مثال بن کر زندگی گزار رہی ہے۔ صرف سلمیٰ ہی نہیں بلکہ لاتعداد ایسی خاتون خانہ ہیں جو کہ معاشی بدحالی اور صفائی ستھرائی کے جنون میں خود کو سانس کے امراض میں مبتلا کرلیتی ہیں اور انہیں احساس ہی نہیں ہوپاتا کہ یہ مرض کیوں کر لاحق ہوا۔
حال ہی میں مغرب میں کی جانے والی یہ طبی تحقیق ایسی خواتین کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جو خواتین گھر کی صفائی ستھرائی کے دوران سانس کی نالیوں کے ذریعے خود کو دھول کے ذرات سے محفوظ رکھنے کیلئے ناک اور منہ پر رومال نہیں باندھتیں وہ دمہ اور سانس کی نالیوں کی سوزش کے مرض میں زیادہ مبتلا ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں ان دونوں امراض کا شکار ایک تہائی خواتین اسی وجہ سے مریض بن کر صرف دوا کے آسرے پر ہی زندہ ہیں۔
اگرچہ اس تحقیق سے پہلے یہ بات تو آشکارا تھی کہ مذکورہ دونوں امراض کے شکار افراد دھول مٹی سے بچیں تو اس سے مرض شدت اختیار کرنے سے رک جاتا ہے تاہم یہ بات پہلی بار منکشف ہوئی ہے کہ صفائی ستھرائی کے دوران اگر خواتین منہ اور ناک پر کپڑا نہ لپیٹیں تو اس وجہ سے بھی وہ بتدریج اس مرض کے قریب تر ہوتی جاتی ہیں۔ تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ صرف دھول ہی نہیں بلکہ صفائی ستھرائی کے دوران بلیچ اور اسی طرح کی وہ مصنوعات جن کے بخارات سانس کے ذریعے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتے ہیں وہ بھی دمہ اور سانس کی نالیوں میں سوزش کے علاوہ الرجی کو بھی جنم دیتے ہیں۔
یہ تحقیق سپین میں کی گئی ہے۔ سپین کے شہر بارسلونا میں واقع میونسپل انسٹیٹوٹ آف میڈیکل ریسرچ سے وابستہ ڈاکٹر جان پال زوک اس حوالے سے کہتے ہیں کہ اگرچہ گھریلو خواتین کیلئے گھر کی صفائی ستھرائی روزانہ کا معمول ہے لیکن اس سے بھی زیادہ وہ لوگ ان خطرات کی زد میں ہیں جو گھروں‘ دفاتر یا کارخانوں میں صفائی ستھرائی کا کام کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن وجوہات کے باعث دمہ‘ الرجی یا سانس کی نالیوں کی سوزش کا مرض لاحق ہوتا ہے ان وجوہات کا سامنا ایک خاتون خانہ کے مقابلے میں پیشہ ورانہ طور پر کام کرنے والوں کو زیادہ کرنا پڑتا ہے چنانچہ اسی تناسب سے وہ مرض کا شکار بھی جلدی ہوتے ہیں لیکن یہ سمجھ لینا قطعاً غلط ہوگا کہ اس طرح ایک خاتون خانہ خطرے سے بالکل دور ہے۔ ہاں فرق ہے تو صرف تناسب کا.... جتنا زیادہ اس ماحول میں رہیں گے اتنی ہی جلدی امراض کا شکار بھی ہوںگے۔
اس تحقیق میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ اس طرح کا کام کرنے والے مردوںکے مقابلے میں عورتیں زیادہ امراض کا شکار ہوتی ہیں۔ صفائی ستھرائی کے کام سے وابستہ مردوں میں دمہ‘ سانس کی نالیوں کی سوزش اور الرجی کا تناسب پانچ فیصد جبکہ خواتین میں بارہ فیصد پایا گیا ہے۔ صفائی ستھرائی کے کام سے وابستہ ہر آٹھ میں سے ایک خاتون دمہ اور ہر چھ میں سے ایک سانس کی نالیوں کی سوزش میں مبتلا ہوجاتی ہے۔
کھیتوں‘ زرعی مراکز‘ ہسپتالوں‘ کیمیائی کارخانوں وغیرہ میں صفائی ستھرائی کاکام سرانجام دینے والے ہوٹلوں‘ باورچی خانوں یا لیبارٹری میں کام کرنے والوں کی نسبت خطرے سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ اگر خوش قسمتی سے ان امراض میں گرفتار نہیں ہوئے ہیں تو حفاظتی اقدامات کریں۔
تحقیق میں خواتین کو مشورہ دیا گیا ہے کہ صفائی ستھرائی کے دوران ناک اور منہ پر کپڑا لپیٹیں۔ کھڑکی‘ دروازے اور روشندان کھلے رکھیں اور بلیچ وغیرہ جیسی مصنوعات کو استعمال کرتے ہوئے ناک پر کپڑا لپیٹنے کے ساتھ ساتھ چند لمحوں کیلئے سانس بھی روک لیا کریں تاکہ ان کے مضربخارات پھیپھڑوں تک نہ پہنچ سکیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 420
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں