یہ موسم اگر اپنے مزاج پر قائم ہوتو سب موسموں سے بہتر ہوتا ہے کیونکہ ربیع کا مزاج روح اور خون کے موافق ہوتا ہے۔ ربیع بدن کے رنگ کو سرخ کردیتا ہے۔ یہ خون کو اعتدال کے ساتھ جلد کی طرف جذب کرتا ہے اور اس کی گرمی اس حد تک نہیں پہنچتی
علم طب کا جغرافیہ سے گہرا تعلق ہے کیونکہ علم طب امراض انسانی اور صحت سے بحث کرتا ہے اور صحت و مرض کا گہرا تعلق جغرافیائی حالات سے ہے اگر کسی مقام کی آب و ہوا بہتر ہوتی ہے تو وہاں کے باشندوں کا معیار صحت بہتر ہوتا ہے اور اگر کسی مقام کی آب وہوا خراب ہوتی ہے تو وہاں کے باشندوں کی صحت پر بھی اس کا بُرا اثر پڑتا ہے۔ انسان کا رنگ وروپ‘ قد و قامت اور طاقت و توانائی بھی جغرافیائی حالات سے متاثر ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ کرہ ارض کے مختلف علاقوں کے باشندوں میں جسمانی تفاوت پایا جاتا ہے۔ مشاہدے میں یہ بات بھی آتی رہتی ہے کہ د وران سال جب موسم بہتر ہوتا ہیے تو انسان کی صحت بھی بہتر رہتی ہے اور جب موسم خراب ہوتا ہے تو اس سے فضا میں تکدر بڑھتا ہے اور امراض جنم لیتے ہیں جو صحت انسانی کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ اچھی آب و ہوا اور اچھے ماحول میں غذائی اجزاءبھی بہتر میسر آتے ہیں کیونکہ نباتات اور حیوانات سردگرم سے فطری طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ نباتاتی اجزاءغذا یعنی سبزیاں ترکاریاں اور حیواناتی یعنی لحمیاتی اجزائے غذا جغرافیائی حالات اور تغیرات سے ضرور اثرپذیر ہوتے ہیں۔ خوشگوار موسموں میں حیوانات بہتر طور پر پرورش پاتے ہیں اور ان سے حاصل شدہ غذائی اجزاءبہتر صحت کے ضامن ہوتے ہیں۔
ان تجربات اور مشاہدوں کی روشنی میں حکمائے قدیم نے علم طب بیان کرنے کیلئے علم جغرافیہ سے کامل استفادہ کیا ہے اور انسانی مزاج یا صحت و مرض‘ اجزائے خوراک اور ادویہ پر موسموں کے تغیرات کی روشنی میں جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ ذیل میں درج کررہے ہیں۔
حکمائے قدیم نے کرہ ارض کو سات حصوں میں تقسیم کیا اور اسی اعتبار سے مزاج انسانی کا جائزہ لیا اس بارے میں حکماءکے دو گروہ ہوگئے ایک گروہ جس میں شیخ الرئیس حکیم ابن سینا شامل تھے ان کا نظریہ یہ تھا کہ خط استوا کے باشندے زیادہ معتدل ہیں اس کے اور چوتھی اقلیم کے باشندے زیادہ معتدل ہیں دوسرا تو وہ تھا جس میں زکریا شامل تھے جس کا یہ خیال تھا کہ خط استوا کے باشندے زیادہ گرم ہیں۔ چوتھی اقلیم کے باشندے سب سے زیادہ معتدل ہیں یعنی معتدل سرزمیں خط استوا کے پاس نہیں بلکہ چوتھی اقلیم تھی۔ اب علوم جغرافیہ کافی روشن ہوچکا ہے اور اقلیمی نظریہ یکسر تبدیل ہوچکا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جدید منطقاتی تقسیم کے مطابق قدیم نظریہ مزاج کو بیان کیا جائے۔
موسموں کے اثرات
حکمائے قدیم نے علم جغرافیہ سے استفادہ کرکے سال کو چار موسموں میں تقسیم کیا اور جسم انسانی پر ان کے اثرات سے بحث کی اور ان اثرات کو واضح طور پر یوں بیان کیا ہے۔
موسم ربیع کے اثرات
یہ موسم اگر اپنے مزاج پر قائم ہوتو سب موسموں سے بہتر ہوتا ہے کیونکہ ربیع کا مزاج روح اور خون کے موافق ہوتا ہے۔ ربیع بدن کے رنگ کو سرخ کردیتا ہے۔ یہ خون کو اعتدال کے ساتھ جلد کی طرف جذب کرتا ہے اور اس کی گرمی اس حد تک نہیں پہنچتی کہ خون کو تحلیل کردے۔ جیسا کہ موسم گرما میں تحلیل خون کا عمل بڑھ جاتا ہے۔ موسم ربیع بچوں کیلئے نہایت مناسب و موافق ہوتا ہے ا ور ان مزاج کیلئے جو بچوں جیسا مزاج رکھتے ہیں۔
موسم گرما کے اثرات
اس موسم کا مزاج گرم خشک ہوتا ہے اور حرارت کی زیادتی کے باعث رطوبتوں کی تحلیل کا عمل تیز کردیتا ہے اس موسم میں چونکہ دن بڑے اور راتیں چھوٹی ہوتی ہیں اس لیے حرارت کے علاوہ خشکی میں بھی اضافہ ہوتا ہے تاکہ بارش ہوجائے۔ موسم گرما میں خون اور بلغم کی مقدار بدن میں گھٹ جاتی ہے لیکن صفرا کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے بدن کا رنگ زرد پڑجاتا ہے اور آخر میں سودا کی بھی زیادتی ہوجاتی ہے۔ بوڑھے اور بوڑھوں جیسا مزاج رکھنے والے لوگ اس موسم میں تندرست اور قوی ہوجاتے ہیں۔
موسم خریف کے اثرات
اس موسم میں گرمی تو کم ہوجاتی ہے لیکن سردی مستقل طور پر نہیں بڑھتی ہے یہ موسم حرارت وجدرت میں اعتدال کے قریب ہوتا ہے لیکن رطوبت و پیوست میں معتدل نہیں ہوتا اس لیے کہ موسم خریف سے قبل موسم گرما ہوا کو خشک کردیتا ہے اور موسم خریف میں ہوا کو مرعوب بنانے کے اسباب معدوم ہوجاتے ہیں۔
جاڑے کے اثرات
یہ موسم ٹھنڈا اور مرعوب ہوتا ہے اس لیے کہ آفتاب دور ہوتا ہے فضا میں بخارات آبی کی کثرت ہوتی ہے۔ تحلیل کا عمل اس موسم میں بہت کم ہوتا ہے۔ انجماد کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ بارش اور شبنم بھی نہیں ہوتی البتہ خوش خوری اور ہضم غذا کیلئے بہترین موسم ہے۔
امراض کا تعلق جغرافیائی حالات سے
امراض کا تعلق بھی جغرافیائی حالات سے بہت گہرا ہے۔ ہر موسم میں کچھ مخصوص امراض ہوتے ہیں جن کی وضاحت حسب ذیل ہے۔
امراض موسم ربیع: اسہال‘ موی‘ نفث الدم‘ مالیخولیا‘ فالج و لقوہ‘ رجع المفاصل (جوڑوں کے درد)
امراض موسم گرما: بخار‘ دق‘ آشوب چشم‘ خسرہ‘ چیچک‘ صفرا‘ سردا وغیرہ۔
امراض موسم خریف: عرق النساءامراض ریح (گیس اور بادی وغیرہ کا مرض)
سردی کے موسم کے امراض: بلغمی امراض مثلاً زکام‘ نزلہ‘ بخار وغیرہ۔
علم جغرافیہ درحقیقت علم طب کے مبادی علوم میں شامل ہے اور اس بنا پر اکثر طبی مباحث کو بغیر علم جغرافیہ کے مبادیات حاصل کیے ہوئے سمجھنا محال ہے‘ لہٰذا احیائے طب کے نقطہ نظر سے یہ ضروری ہے کہ طب کے جغرافیائی مباحث کی تشریح اور تجدید موجودہ جغرافیائی معلومات کی روشنی میں کی جائے تاکہ علم جغرافیہ کی قدیم معلومات کے نقائص دور ہوسکیں اور مبادیات طب کے نصاب میں منطق‘فلسفہ‘ سائنس اور جغرافیہ بھی شامل ہوں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں