حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رعب
ایک مرتبہ قریش کی کچھ عورتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کے دوران اپنی آواز کو اونچا کررہی تھیں‘ اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سن کر وہ عورتیں پردہ میں چھپ کر ایک طرف ہوکر بیٹھ گئیں‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اجازت دیدی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مسکراتے دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دعا دی ”اے اللہ کے رسول! صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ آپ کو ہنساتا رہے“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے تو ان عورتوں پر تعجب ہوا کہ یہ میرے پاس بیٹھی تھیں‘ جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو گھبرا کر پردہ تلاش کرنے لگ پڑیں“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈریں“ پھر ان عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اے اپنی جان کی دشمن عورتو! تم مجھ سے ڈرتی ہو لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں“ عورتوں نے جواب دیا ہاں! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سخت اور گرم مزاج ہو“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! شیطان تجھے دیکھ کر اپنا راستہ تبدیل کرلیتا ہے۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا علم
ایک مرتبہ ایک یہودی آدمی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا اے امیرالمومنین تمہاری کتاب میں ایک آیت ایسی ہے جس کو تم پڑھتے ہو اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید کا دن قرار دے دیتے‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس آیت سے متعلق دریافت کیا تو یہودی نے کہا: وہ آیت یہ ہے:ترجمہ:”آج ہم نے تمہارے لیے دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے اس جگہ اور اس دن کا بھی علم ہے جہاں یہ آیت نازل ہوئی‘ یہ آیت یوم عرفہ کو جمعہ کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خواب کا حال سناتے ہوئے فرمایا ”میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگوں کو میرے سامنے لایا جارہا ہے ان پر مختلف قسم کی قمیضیں ہیں‘ بعض قمیضیں چھاتی تک ہیں اور بعض کی اس سے بھی چھوٹی ہیں‘ اس دوران عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو بھی میرے سامنے لایا گیا اس کی قمیض اتنی لمبی تھی کہ وہ اسے گھسیٹتے ہوئے آرہے تھے‘ لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس کی کیا تعبیر کرتے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد دین داری ہے۔
دودھ کی تعبیر
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”میں نے خواب میں دیکھا کہ دودھ کا ایک پیالہ مجھے پیش کیا گیا اور میں نے اس میں سے پیا یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ اس کی طراوت میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے پھر میں نے باقی ماندہ دودھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیدیا‘ لوگوں نے اس کی تعبیر دریافت کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” اس سے مراد علم ودانش ہے۔“
فراست عمر رضی اللہ عنہ
ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے فرمایا ”تمہیں بھی مبارک ہو اور لوگوں کو خوشخبری دیدو کہ جو شخص بھی دل کی صداقت کے ساتھ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرے گا جنت میں داخل ہوگا۔“ چنانچہ وہ حضرات لوگوں کو خوشخبری سنانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے‘ سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات ہوئی لوگوں نے انہیں یہ خوشخبری سنائی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں واپس بھیج دیا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ”تمہیں کس نے واپس بھیجا؟“ لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام لیا‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس طرح تو لوگ اسی پر بھروسہ کرکے بیٹھ جائیں گے۔“
آیت حجاب کا نزول
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رفع حاجت کیلئے وسیع میدان میں جایا کرتی تھیں۔ شدت غیرت کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر یہ بات شاق گزرتی تھی اور آپ اس کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کرتے تھے تاکہ انہیں روک دیں لیکن قبل از نزول وحی آپ نے ایسا نہ کیا۔
ایک رات ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا باہر آئیں‘ وہ ایک دراز قامت خاتون تھیں‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں پکار کر کہا”اے سودہ رضی اللہ عنہ ! ہم نے آپ کو پہچان لیا ہے۔“ یہ بات انہوں نے اس خواہش سے کی کہ حجاب (پردہ) کا حکم نازل ہوجائے پس اللہ تعالیٰ نے پردہ کا حکم نازل فرمایا۔
منافق کا جنازہ
جب رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا انتقال ہوگیا تو اس کا بیٹا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا ”مجھے اپنی قمیض عطافرمادیجئے جس میں میرے والد کو کفن دیا جائے“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیض عطا فرمادی تو اس نے کہا کہ ”میرے والد کا جنازہ بھی پڑھادیجئے“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جنازہ پڑھانے کیلئے چل پڑے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اٹھے اور جاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن تھام لیا اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھانا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے: ترجمہ:”تم ان کیلئے بخشش مانگو یا نہ مانگو (بات ایک ہی ہے) اگر تم ان کیلئے ستر دفعہ بھی بخشش مانگو گے تو بھی خدا ان کو نہیں بخشے گا۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس میں اس کیلئے ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کروں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ”یہ تو منافق ہے“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہ شفقت اس کی نماز جنازہ پڑھا دی لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تائید میں مندرجہ ذیل آیت کو نازل فرمایا:”اور (ا ے پیغمبر) ان میں سے کوئی مرجائے تو کبھی اس کے جنازہ پر نماز نہ پڑھانا اور نہ قبر پر جاکر کھڑے ہونا۔ “
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 407
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں