قرآن مجید نے آج سے 14 سو سال پہلے جہالت میں ڈوبے ہوئے اور گناہوں کی سیاہی میں گھرے ہوئے عربوں میں ایسا عظیم انقلاب پیدا کیا جس کی مثال نہیں ملتی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن نازل ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم دن ہو یا رات قرآن کی تلاوت فرماتے منکرین جب قرآن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سنتے تھے اور بے تاب ہوجاتے اور سجدے میں گر جاتے اور مسلمان ہوجاتے۔ قرآن اللہ کا کلام تمام کلاموں کا بادشاہ مسلمانوں پر تو اس کے اثرات پڑتے ہی ہیں مگر آج دنیا بھر کے غیر مسلموں پر ہمیں قرآن کے اثرات نمایاں نظر آرہے ہیں۔
جن ذرائع سے قوم کے نونہالوں کو قرآن و حدیث کے اسباق سناکرہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ستارے بنانا تھا وہاں سے انہیں فسق و فجور حسن و عشق کا سبق دیا جارہا ہے اور جدید تحقیقات کے نام پر نونہالوں کو قرآن سے دور کیا جارہا ہے آج کے اس معاشرے میں قرآن کی عظمت نونہالوں کے دلوں سے ختم کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بات بات پر لوگ قرآن کی قسمیں اٹھانے پر تیار ہوجاتے ہیں جبکہ سکھ پاکستان کے اکثر اضلاع میں نہیں ہیں، ہماری نئی پود نہیں جانتی کہ ان کے مذہبی رسم و رواج کیا تھے۔ یقینا ہمیں جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ یہاں ان کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب کے بارے میں ایک واقعہ لکھا جارہا ہے۔
یہ 1947ءسے پہلے کا واقعہ ہے۔ دسوہہ سے ہوشیارپور جانے والی سڑک پر دو سکھ جنہوں نے بڑے بڑے ڈنڈوں کے آگے جھاڑو باندھ رکھے تھے۔ سڑک صاف کرتے جارہے تھے۔ ان سے تھوڑے فاصلے پر دو سکھ عطر کا چھڑکاﺅ کرتے جارہے تھے اور ساتھ ساتھ لوگوں کو بڑے ادب و احترام کے ساتھ سڑک سے پیچھے ہٹنے کا کہہ رہے تھے۔
عطر کی خوشبو سے سارا راستہ معطر ہورہا تھا۔ ان کے پیچھے چار اور سکھ تھے جنہوں نے ایک پالکی اٹھا رکھی تھی جس کی چھولداری پر طلائی ماروں سے کشیدہ کاری کی ہوئی تھی۔ دو بہت ہی معزز سکھ مور کے پروں سے دائیں بائیں گرد و غبار کے علاوہ اپنی مذہبی کتاب کو مکھیوں سے محفوظ رکھتے جارہے تھے۔ ہمیں بعد میں بزرگوں نے بتایا کہ یہ سکھ گرنتھ صاحب کو لئے جارہے ہیں۔ جو ان کے گرنتھی کسی مجمع عام میں پڑھ کر سنائیں گے۔ یہ ذہن نشین رکھیں کہ یہ گرنتھ سکھوں کے مذہبی رہنما گرونانک کی دستی تحریر ہے جو چھوٹی چھوٹی منظوم پوتھیوں پر مشتمل ہے۔
دوسرا واقعہ ایک عیسائی عورت کا ہے کہ ایک بہت بڑے مسلمان سردار کے گھر ایک عیسائی بیوہ عورت ملازمت کرتی تھی۔ ایک دن سردار صاحب کی بیٹی کے سونے کے کڑے گم ہوگئے۔ جو بقول سردار صاحب بیس ہزار روپے کے تھے۔ کڑوں کی چوری کا الزام سردار صاحب نے عیسائی ملازمہ پر لگادیا۔ اس الزام سے عیسائی عورت کا خون خشک ہوگیا۔ وہ ساری عمر بمعہ اپنے بچوں کے سردار صاحب کی غلامی کرتی تو بھی بیس ہزار روپیہ پورا نہ ہوتا۔ عیسائی عورت نے ہر طرح سے اپنے بے گناہ ہونے کا ثبوت مہیا کیا مگر سردار صاحب کسی طرح راضی نہ ہوئے۔ وہ اس بات پر بضد تھے کہ کڑے اسی عورت نے چرائے ہیں۔
آخر طے یہ پایا کہ اگر وہ عورت انجیل پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھائے کہ کڑے اس نے چوری نہیں کئے تو ہم اعتبار کرلینگے۔
بلاشبہ ملازمہ سچی تھی۔ علاوہ اس کے کہ وہ اپنے مذہبی عقائد سے ناآشنا تھی۔ اس نے انجیل پر حلف اٹھانے کی حامی بھرلی۔ دن مقرر ہوگیا۔ اس گاﺅں میں کافی گھر عیسائیوں کے تھے جب انہوں نے بیوہ کے انجیل اٹھانے کے وعدے کے متعلق سنا تو تمام گھروں میں تشویش پھیل گئی۔
جس دن انجیل پر حلف لیا جانا تھا تمام عیسائی اکٹھے ہوگئے۔ انہوں نے دو ہزار روپیہ فی گھر چند اکٹھا کرکے سردار صاحب کو دے دیا جو سردار صاحب نے بخوشی قبول کرلیا۔ عیسائیوں نے مجمع عام میں بڑے فخر سے کہا کہ ہم جان دے سکتے ہیں لیکن اپنی جان اور مال بچانے کے لئے اپنی مذہبی کتاب کی آڑ نہیں لے سکتے۔
ایک بیوہ عیسائی عورت سے بغیر کسی ثبوت کے محض شک و شبہ کی بنا پر بیس ہزار روپیہ وصول کرکے سردار صاحب کو جن دل خراش واقعات سے گزرکر قضا و قدر کے خفیہ ہاتھوں سے ہلاک ہونا پڑا وہ ایک علیحدہ داستان ہے۔ زمانہ گزرگیا ہے۔ اب بھی سردار صاحب کی حسرت ناک موت یاد آتی ہے تو دل لرزنے لگتا ہے۔
قارئین! سوچئے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کیا ہم کلاموں کے بادشاہ قرآن کی اس قدر عظمت واحترام کرتے ہیں ؟
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 513
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں