ابتدائی حالات زندگی
حضرت مالک دینار رحمتہ اللہ علیہ بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں ابتدا میں بہت دولت مند اور وجیہہ شکل تھے۔ آپ کی آرزو تھی کہ آپ کو جامع مسجد دمشق کی تولیت حاصل ہوجائے کیونکہ یہ شاہی مسجد تھی اور اس کے ساتھ بہت بڑی جائیداد وقف تھی اور وہاں کا متولی بڑے اعزاز واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اسی مقصد کے پیش نظر حرص عہدہ کیلئے آپ اس مسجد میں جاکر معتکف ہوگئے اور پورے ایک سال تک برابر مصروف عبادت رہے تاکہ لوگ آپ کو ہر وقت نماز میں مشغول پاکر خلیفہ سے آپ کے تقدس کا ذکر کریں اور آپ کو تولیت کا اعزاز حاصل ہوجائے۔ ایک روز آپ نے دل میں کہا کہ میں ایک برس سے منافقانہ عبادت کررہا ہوں اور یہ بہت شرمناک حرکت ہے کیوں نہ میں مخلصانہ عبادت کروں۔ دوسرے روز آپ نے خود بخود توبہ کرلی اور اس روز آپ نے مخلصانہ عبادت کی جب کوئی اللہ کا ہوجاتا ہے تو اللہ ضرور اسے نوازتا ہے چنانچہ دوسرے ہی روز لوگوں نے ایک متولی کی ضرورت محسوس کی اور آپ کے پاس آئے کہ آپ اس مسجد کی تولیت منظور کرلیں آپ نے دل میں کہا یاالٰہی بس میں ایک سال متواتر ریاکارانہ عبادت کرتا رہا مگر کسی نے بھی میری پرواہ نہ کی اور صرف ایک رات تیری طرف دل سے متوجہ ہوا تو نے اکٹھے20 آدمی میرے پاس بھیج دئیے۔ اب میں بھی تیرا ہوکر رہوں گا۔ چنانچہ آپ اس مسجد سے اسی وقت اٹھ کر چلے آئے اور تولیت کی قبولیت سے انکار کردیا۔
عبادت و ریاضت
دل کی دنیا پلٹ چکی تھی آپ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر عبادت میں مصروف ہوگئے۔ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو نماز میں مصروف رہتے۔ کئی سال تک یہ دستور رہا کہ آپ نان بائی کی دکان پر جاکر صرف ایک روٹی خرید لیتے اور اسی سے روزہ افطار کرتے۔ آپ کا نفس برابر گوشت کی آرزو کرتا رہا لیکن بیس سال تک آپ نے گوشت کو ہاتھ نہیں لگایا۔ چالیس سال بصرہ میں رہے لیکن خرمے کو ہاتھ نہ لگایا زاہد واتقا میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔
ارشادات عالیہ
جب آپ ”اِیَّاکَ نَعبُدُوَاِیَّاکَ نَستَعِینُ“ پڑھتے تو زار زار روتے اور فرماتے کہ اگر یہ آیت قرآن شریف میں نازل نہ ہوتی تو میں اسے کبھی نہ پڑھا کرتا کیونکہ کہتے تو ہیں کہ تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور پوجتے نفس کو ہیں کہتے تو ہیں کہ ”تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور لوگوں کے دروازے پر جاتے ہیں اور ان کا شکریہ و شکایت کرتے ہیں۔ فرمایا افسوس نعمت تو اللہ کی کھاتا ہوں اور فرمانبرداری شیطان کی کرتا ہوں۔
فرمایا اس دنیا سے بچو کہ اس نے علماءتک کے دل مسخر کرلیے ہیں۔ میرے نزدیک سب سے بہتر عمل اخلاص ہے۔ فرمایا ایک روز ایک قرب الموت شخص کی عیادت کو گیا میں نے بار بار کلمہ شہادت پڑھنے کو کہا مگر زبان سے نہ نکلتا تھا۔ وہ شخص بولا اے میرے شیخ ایک پہاڑ ہے کہ جو کلمہ کا قصد کرتے ہی میری طرف بڑھتا ہے۔ پوچھا تیرا پیشہ کیا تھا۔ بولا میں مال کی فروخت میں دھوکے سے کام لیتا۔ کم دیتا اور کم تولتا تھا۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو ایسی چیزیں عطا کیں جو کسی کو بھی اس سے پہلے نہ ملی تھیں۔ ایک ”فَاذکُرُونِی اَذکُرکُم “ دوسری ”اُدعُونِی اَستَجِب لَکُم “ یعنی تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا“ اور جب تم دعا مانگو گے قبول کروں گا“ فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو عالم دنیا کو دوست رکھتا ہے سب سے کم سزا جو اسے ملتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل سے اپنے ذکرو مناجات کی حلاوت فنا کردیتے ہیں۔ ایک شخص نے آپ سے نصیحت کی درخواست کی‘ آپ نے فرمایا کارساز حقیقی کی کارسازی پر راضی رہ تاکہ تجھے نجات حاصل ہو۔
کرامات:آپ کے پڑوس میں ایک شخص رہتا تھا جو نہایت ظالم و سخت گیر اور بااقتدار تھا۔ آپ کو بھی اس سے سخت تکلیف پہنچتی تھی مگر آپ صبر سے کام لیتے تھے اور کبھی کسی سے کچھ نہ کہتے تھے ایک روز چند اور افراد نے آکر آپ سے کہا کہ یہ شخص ہمیں بہت تنگ کرتا ہے ایک دن آپ اس کو سمجھانے گئے تو اس نے کہا آپ جانتے ہیں کہ میں بادشاہ کا خاص آدمی ہوں کسی کی مجال نہیں جو مجھے کچھ کہہ سکے۔ فرمایا تو میں بادشاہ ہی سے شکایت کروں گا۔ بولا کردیجیے مگر بادشاہ میرے خلاف ہرگز نہ کرے گا اور میں جو اس سے کہہ دوں گا وہی ہوگا۔ فرمایا بادشاہ نہ سنے گا تو رحمان کریم سے تو شکایت کی جاسکتی ہے۔ بولا جناب وہ بہت مہربان اور رحم دل ہے وہ مجھے ہرگز اپنی گرفت میںنہ لے گا۔ مجبور ہوکر آپ واپس چلے آئے مگر اس کے مظالم حد سے زیادہ متجاوز ہوگئے۔ اور کچھ لوگ پھر اس کی شکایت لے کر آپ کے پاس آئے۔ اس مرتبہ آپ نے سے تنبیہ شدید کا عہد کرلیا اورپکے ارادہ سے روانہ ہوئے لیکن آپ کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب آپ نے ایک غیبی آواز سنی کہ دیکھو مالک وہ میرا دوست ہے اس سے کچھ نہ کہنا آپ اس کے پاس پہنچے تو بولا اچھا اب آپ پھر دوبارہ میرے پاس آئے ہیں۔فرمایا آیا تو ہوں مگر اس دفعہ آنے کا مقصد یہ ہے کہ میں تجھے ایک نئے معاملہ سے آگاہ کروں اس کے بعد آپ نے آواز کے متعلق کیفیت بیان کی بولا اچھا یہ بات ہے اور وہ مجھے دوست کہتا ہے تو میں بھی دوست کی راہ میں سب کچھ نثار کیے دیتا ہوں یہ کہا اور سب کچھ لٹا کر جنگل کی طرف نعرے مارتا ہوا نکل گیا۔ ایک عرصہ کے بعد آپ نے اسے مکہ معظمہ میں دیکھا آخری وقت تھا اور کہہ رہا تھا اس نے مجھے دوست بنایا تھا۔ میں بھی دوست کی راہ ہی میں نکلا اور اس کی رضا و اطاعت میں زندگی ختم کردی یہ کہا اور دم توڑ دیا۔ ایک دفعہ آپ کشتی میں سوار ہوگئے۔ بوسیدہ لباس پہنے ہوئے تھے ملاحوں نے آپ سے کشتی کا کرایہ طلب کیا فرمایا میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ انہوں نے آپ کو اس شدت کے ساتھ مارنا شروع کیا کہ آپ بے ہوش ہوہوجاتے تھے اور جب ہوش آتا تھا تو پھر مارتے تھے۔ آخر بولے کرایہ دے ورنہ ہم ابھی دریا میں پھینک دینگے۔ اتنے میں بہت سی مچھلیاں دینار منہ میں لیے ہوئے ظاہر ہوئیں آپ نے ان کے منہ سے ایک دینار لے کر انہیں دے دیا۔
ملاح یہ کرامت دیکھ کر پاوں پر گرپڑے۔ آپ اسی وقت دریا میں کودے اور پانی پر چل کر نگاہوں سے غائب ہوگئے۔ اسی وجہ سے آپ مالک دینار مشہور ہوگئے۔ بصرہ کی ایک ماہ پیکر امیر زادی نے آپ سے شادی کی خواہش کی فرمایا میں تو دنیا کو طلاق دے چکا ہوں کسی اور کو ڈھونڈو! انتقال کے بعد لوگوں نے خواب میں دیکھ کر پوچھا کہیے وہاں آپ پر کیا گزری۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے میرے گناہوں کے باوجود اس حسن ظن کی وجہ سے جو مجھے اس کے ساتھ تھا بخش دیا۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 511
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں