گھریلو اور پیشہ وارانہ مصروفیات کا ازدواجی تعلقات میں رخنہ انداز ہونا ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے کم و بیش ہر جوڑے کو واسطہ پڑتا ہے۔ بات اس وقت اور بھی گھمبیر ہو جا تی ہے ۔ جب صرف میاں ہی نہیں بیوی بھی کسی نہ کسی اعتبار سے بیرون خانہ سرگرمیوں کے لئے خا طر خواہ وقت نہ نکال پاتی ہو ۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے جوڑوں کوعموماً ایسے مسائل پیش نہیں آتے کیو نکہ اس طبقے میں اب بھی کما نا مرد کا اور گھر کا چلانا عور ت کا کام سمجھا جا تا ہے ۔ لیکن بعض گھر ایسے بھی ہیں جن کے خصوصی نوعیت کے حالات اور روز روز بڑھتی ہوئی مہنگا ئی میاں اور بیوی سے تقاضا کر تے ہیں کہ دونوں مل کر کمانے اور گھر چلا نے والے بنیں ۔ جہاں تک ہماری فہم تخمینہ کر تی ہے، ایسے گھروں کی تعداد میں آہستہ آہستہ لیکن بتدریج اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ اس اعتبار سے ازدواجی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ اور چونکہ عمومی طور پر ایسے مسائل سے نپٹنے کے لئے کوئی لا ئحہ عمل اختیار نہیں کیا جاتا اس لئے ان سے پیدا ہونے والے نتائج زیادہ سنگین اور زیادہ دوررس ہو تے ہیں۔
ایسی ہی ایک خا تون نے ایک روز ہم سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا۔ ” میر ے پاس ایک اچھی جا ب ہے ۔ا پنے شوہر سے میرے تعلقات بہت اچھے ہیں اور میرے بچے بھی مجھ سے بہت تعاون کرتے ہیں لیکن ہماری فیملی لائف روزبروز کنڑول سے باہر نکلتی جا رہی ہے ۔ ہم سب اپنے شیڈول میں اس بری طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کے لیے بہت کم وقت نکال پاتے ہیں ۔ مجھے ڈر ہے کہ خدانخواستہ اس روٹین کا کوئی غلط نتیجہ برآمدنہ ہو جائے۔“ اس خا تون کے نزدیک اس کی پیشہ وارانہ مصروفیات ان کی گھریلو زندگی کو منفی انداز میں متاثر کر رہی تھیں۔ اس حوالے سے انہوں نے ہمارے سامنے اپنے خدشات کا اظہار کیا ۔ کام چھوڑا جا سکتا ہے نہ گھر، دونوں مصروفیات کا متوازن کیا جا نا چاہیے۔ پھر بات صر ف بیرونی مصروفیات کے گھر پر اثر انداز ہو نے پر ختم ہو جا تی ۔ یہ تلوار دو دھاری ہے۔ کئی دفعہ کے حالات، میاں بیوی کی پیشہ وارانہ مصروفیات کو بھی متاثر کر نے لگتے ہیں ۔ مثال کے طور پر درج ذیل صورت حال ملا حظہ کیجئے۔ خاتون ایک سکول میں ٹیچرہے جبکہ ان کے شوہر وکا لت کرتے ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں جن کی عمریں آٹھ اور چھ سال ہیں ۔ دونوں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اگر حالات ہموار انداز میں چلتے رہے تو ان کی روٹین کچھ اس طر ح ہوتی ہے۔ محترمہ اپنے سکول سے فارغ ہو کر گھر آتی ہیں اور دوپہر کا کھا نا تیار کرتی ہیں۔ صاحب بچوں کو ان کے سکول سے لیکر گھر چھوڑ جاتے ہیں، محترمہ انہیں کھا نا کھلاتی ہیں، اس کے بعد انہیں ٹیوشن کے لئے چھوڑ کرآتی ہیں ۔ واپسی پر وہ تھوڑی دیر گھر کے کام وغیرہ کرتی ہیں اور پانچ بجے کے بعد رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف ہو جاتی ہیں ۔ کھا نا پکا کر وہ بچوں کو ٹیوشن سے واپس لاتی ہیں۔ گھر واپسی پر کچھ دیر صاحب کے واپس آنے کا انتظار کیا جا تا ہے اور اگر انہیں واپسی میں دیر ہو رہی ہو تو بچوں کو کھانا کھلا کر سلا دیتی ہے۔ اس کے بعد وہ شوہر کی واپسی تک جا گتی رہتی ہے۔ اور اُن کے واپس آکر کھانا کھانے کے وقت تک عموماً دونوں اتنے تھک چکے ہوتے ہیں کہ بستر پر لیٹتے ہی نیند کی وادیوں میں اتر جا تے ہیں۔ آپس میں کوئی بات کرنے کا موقع انہیں بہت کم ملتا ہے۔
اگرچہ یہ روٹین خاصی حد تک قابل قبول ہے لیکن بدقسمتی سے حالات ہمیشہ ہموار انداز میں نہیں چلتے ۔ اکثر کسی بچے کی طبیعت خراب ہو جا تی ہے یا محترمہ کو سکول نکلتے ہوئے دیر ہو جاتی ہے اور وہ وقت پر کھا نا تیار نہیںکر پاتیں یا صاحب راستے میں ٹریفک میں پھنس جاتے ہیں اور بچوں کے سکو ل تک پہنچنے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ ہر مرتبہ ایسی کو ئی صورت حال پیش آنے پر دونوں کو خاصی ذہنی کوفت اٹھانا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر خاندانی مصروفیات بھی وقت مانگتی ہیں اور جب کبھی بھی ایسا ہوتا ہے، دونوں اپنے اپنے کا م کا حرج ہو نے کی شکا یت کر تے ہوئے نظر آتے ہیں صاحب کا کہنا ہے۔” ہم اپنی اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے دباﺅ کو اپنے ازدواجی تعلق پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دیتے لیکن اپنے پیشے میں اچھی کارکر دگی دکھانا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شو ہر یا بیوی اور والد اور والدہ کے فرائض پوری ذمہ داری سے انجام دینا بہت مشکل کام ہے۔ بعض اوقات یہ دبا ﺅ ہم پر غالب آ جا تا ہے ، ہم میں سے کوئی نہ کوئی جھنجھلا اٹھتا ہے اور ہمارے تعلقات کشیدہ ہونے لگتے ہیں ۔ یہ جو ڑا ان ازدواجی مسائل کا شکا ر ہے، آج سے پندرہ سال پہلے کسی نے ان مسائل کا تذکرہ بھی نہ سنا تھا۔ بڑھتی ہو ئی مہنگا ئی نے کئی گھرانوں کی خوا تین کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ بھی مالی ذمہ داریوں کا بو جھ اٹھانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔خا نگی ذمہ داریاں اپنی جگہ مو جو د رہتی ہیں اور انہیں پور ا کرنے میں بھی دونوں کو برابر حصہ لینا پڑتا ہے۔ نہ وہ اپنے کا م کو پورا وقت اور یکسوئی دے پاتے ہیں اور نہ اپنے گھر کو۔ دو نوں پر دباﺅ بڑھتا رہتا ہے اور اس دبا ﺅ کو برداشت کر نے کے لئے جس صبر وتحمل کی ضرورت ہو تی ہے ، ہم میں سے اکثر لوگ اس سے محروم ہو تے ہیں ۔
ایسی صورت حال سے متاثر ہونے والی سب سے پہلی چیز ازدواجی تعلقات کا روما نی عنصر ہو تا ہے ۔ دونوں میاں بیوی کے لئے قربت کے لمحات حاصل کرنے کے مواقع کم ہو تے چلے جاتے ہیں ۔ پھر دوسری علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں۔ چڑچڑاہٹ ، بے صبری ، نیند کے مسائل ، خوش مزاجی میںکمی ۔ بہت سے جو ڑے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے اعصاب کوٹوٹ پھوٹ کے بچانے کے لئے عارضی سہارے تلا ش کرنے لگتے ہیں اور سگریٹ یا سکون آور ادویات کے عادی ہو جا تے ہیں ۔ اس دباﺅ کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟ اپنے ازدواجی تعلقات کو اس کی تباہ کاریوں سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟ آئندہ شمارے میں اس حوالے سے چند اہم اصول بیان کریںگے جن پرعمل کر کے اس صورت حال میں گرفتار جوڑے بہت حد تک اپنی ذہنی و جسمانی دباﺅ سے نجات حاصل کر سکیں گے ۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 95
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں