بیوی کے منہ پر تھپڑ ماردیا:ایک روز غصے میں آکر میں نے اپنی بیوی کے منہ پر تھپڑ مار دیا۔ اس کے بعد تو وہ ہر وقت سر میں درد کا بہانہ کرتی ہے‘ زیادہ تر لیٹی رہتی ہے۔ گھر میں کھانا پکانا بھی کم کردیا ہے۔ کہیں آنے جانے کو بھی نہیں کہتی۔ میں بات کرتا ہوں تو کہتی ہے کہ چکر آرہے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ اس کو چکر نہیں آتے۔ بس وہ مجھے تنگ کرنے کیلئے خود کو نفسیاتی مریضہ ظاہر کرنا چاہتی ہے۔ (شعیب پٹھان‘ ڈیرہ اسماعیل خان)
مشورہ:وہ نفسیاتی مریضہ ہو بھی تو سکتی ہے۔ آپ کو کیا معلوم اس پر تھپڑ نے کتنا برا اثر کیا ہے۔ اس نے صدمہ لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھر کے کام وغیرہ میں بھی اس کا دل نہیں لگ رہا۔ ڈیپریشن والی کیفیت بھی ہوسکتی ہے۔ اپنا رویہ بدل کر دیکھیں اور جو تکلیف وہ بیان کررہی ہے، مان لیں کہ ہوگی اور اگر وہ یہ سب کہہ کر آپ کو تنگ کررہی ہے تو آپ نے بھی تو اس کو تکلیف پہنچائی ہے۔ ایسا رویہ اختیار کریں کہ وہ اس تکلیف کو بھول جائے۔
میری منگیتر نفسیاتی مریضہ ہے!:جس لڑکی سے میری منگنی ہوئی تھی وہ نفسیاتی مریضہ ہو گئی۔ اس نے ایک روز گھر کی چھت سے چھلانگ لگا دی۔ ٹانگ میں فریکچر ہوا کیونکہ وہ فرسٹ فلور سے گری تھی اور نیچے گھاس تھی۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ یہ اور زیادہ بلندی سے بھی چھلانگ لگا سکتی ہے۔ گھر والوں نے خود منگنی ختم کردی۔ پھر اس کی شادی ہمارے ہی رشتہ داروں میںہوئی اور وہ ٹھیک بھی ہوگئی۔ اب اس کا ایک بیٹا ہے دو سال کا۔ شوہر فوت ہوگیا ہے۔ وہ بے چاری جوان بیوہ ہے۔ میں سوچتا ہوں کیوںنہ پھر اپنا رشتہ بھجوائوں کیونکہ میں نے ابھی تک شادی نہیں کی۔ مسئلہ یہ ہے کہ گھر والے اس کے نفسیاتی مرض پر اعتراض کریں گے۔ (عثمان‘ لاہور)
مشورہ: آپ کے دل میں ہمدردی ہے اور اس رشتے کو مستقل مزاجی سے نبھانے کی صلاحیت بھی ہے تو رشتہ کیا جاسکتا ہے۔ اچھی طرح سوچ لیں چونکہ یہ زندگی بھر کا ساتھ ہوگا۔ خاتون پر ابھی بہت بڑا غم بھی گزارا ہے۔ کچھ انتظار کریں کہ ان کی ذہنی کیفیت بہتر ہو جائے۔ جہاں تک نفسیاتی مریضہ ہونے کی بات ہے تو ٹھیک ہو چکی ہیں۔ کبھی کبھی دوبارہ علامت ظاہر ہوں تو توجہ دے سکتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک بہت بڑی نیکی ہوگی، بیوہ کا سہارا بننا اور یتیم بچے کی سرپرستی کا موقع مل رہا ہے۔ گھر والوں کے دل میں اگر لڑکی کیلئے نرمی آجائے تو اعتراض نہ کریں گے۔
پسند کی شادی تھی مگر:ہماری پسند کی شادی تھی مگر بے حد مشکل وقت گزارا۔ ساس نے طعنے دے دیکر زندگی عذاب کردی تھی۔ ایک روز میں نے بھی غصہ کیا۔ اس وقت شوہر نے ان کی حمایت کی تو میں اور زیادہ ناراض ہوئی۔ اپنی امی کو فون کیا۔ انہوں نے کہا زیادتی برداشت نہ کرنا، آجائو۔ تو میں اسی وقت گھر سے نکل گئی۔ ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے۔ دشمن خوش ہورہے ہیں اور دونوں طرف نفرت بڑھ رہی ہے۔ میرے گھر والے بھی اب میرا وہاں جانا پسند نہیں کرتے مگر مجھے احساس ہے کہ گھر نہیں چھوڑنا چاہئے تھا۔ شوہر سے فون پر بات ہوتی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں جس طرح گئی تھی، اسی طرح واپس آجائوں۔ گھر والے اب مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ وہ بات کرکے بھیجنا چاہتے ہیں کہ آئندہ مسئلہ نہ ہو۔ (مسز اسامہ‘ راولپنڈی)
مشورہ: ذراسی بات سے پسند کو بدلتے یا ناپسند ہوتے دیر نہیں لگتی یہ تو آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ شادی کرنے سے زیادہ نبھانا مشکل ہے۔ گھر والوں کی بات بھی مناسب ہے کہ آئندہ ساس آپ کو طعنے نہ دیں۔ یہ بات کر لی جائے گی تو ہوسکتا ہے لڑائی جھگڑے میں کمی آجائے۔ یا پھر شوہر ہی اپنی والدہ کو احترام کے ساتھ سمجھا دیں کہ شادی صرف آپ کی طرف سے خواہش پر نہیں ہوئی۔ ان کا بیٹا بھی پسند کرتا تھا۔اگر واپس جانے کی خواہش ہے تو اپنے گھر والوں کو بتا دیں کہ اگر ان کے کہنے پر شوہر نہیں آتے تو بھی آپ کو جانا ہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ پھر آپ دونوں ہنسی خوشی ملنے آجائیں۔
میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں:میں اکثر خیالوں میں گم ہو جاتی ہوں اور جب کسی سے مخاطب ہوتی ہوں تو خود کو وہی تصور کرتی ہوں جو خیالوں میں سوچا ہوتا ہے۔ مثلاً میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں، اس لئے میرا لہجہ، چلنا اور دیکھنا بھی یہ ظاہر کرتا ہے جیسے کہ میں ڈاکٹر ہوں۔ ویسے لوگوں کو میری ذہنی کیفیت کا پتہ نہیں چلتا اور میری یہ خواہش ہے کہ لوگ پہچانیں میں ایک ڈاکٹر کی شخصیت رکھتی ہوں۔ (صائمہ‘بہاولپور)
مشورہ:اگر آپ طالبہ ہیں تو لوگ آپ کو اسی حیثیت سے پہچانیں گے اور یہ اچھی بات ہے۔ اپنی خواہش کے مطابق خود کو کسی روپ میں سمجھنا اور انداز بدل لینا، شخصیت میں بناوٹ اور مصنوعی پن کا سبب ہوگا۔ انسان کو وہی ظاہر ہونا چاہیے جو حقیقت میں وہ ہے۔
خود اذیتی کا نشہ:میں نے ایسے کئی لوگوں کو دیکھا ہے جو خود کو تکلیف دیتے ہیں۔ ان میں میرا ایک کزن بھی ہے۔ وہ ایک سال ملک سے باہر رہ کر بھی آیا، لیکن اس کے اندر کوئی اچھی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ کسی سے زیادہ بات نہیں کرتا۔ اس لئے میں اس سے پوچھ نہیں سکتا کہ وہ خود کو سزا کیوں دیتا ہے۔ ایک روز تو اس نے اپنے گلے میں پھندا بھی ڈال لیا تھا کہ بس اب زندہ رہنے کو دل نہیں چاہتا۔ (عمر‘ مانگا منڈی)
مشورہ: بعض لوگ اپنے آپ کو کسی نہ کسی طرح تکلیف دیتے رہتے ہیں۔ دراصل ان کو خود کو اذیت دینے کا نشہ سا ہو جاتا ہے۔ ایسا عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب وہ شدید ہیجان کی کیفیت میں ہوں یا شدید اداس ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کبھی ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ کچھ لوگوں کو اپنے مسائل قابو سے باہر محسوس ہوتے ہیں اور بے بسی کا احساس اپنے آپ کو تکلیف دینے پر مائل کرتا ہے۔ خط میں کوئی تفصیل نہیں لہٰذا اتنی ہی معلومات دی جاسکتی ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں