لڑکیاں! سقراط نہیں ہیں‘ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ زہر پیالہ پیتی ہیں‘ لمحہ لمحہ سسکتی ہیں‘ مگر پھر بھی جیتی ہیں۔
قارئین! یہ لڑکیاں واقعی سقراط سے عظیم ہیں۔ اس معاشرے نے ان کی روح نشتر چبھو چبھو کر چھلنی کردی ہے۔ مجھے یہ بھی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ اور اس کڑوے سچ کو آپ بھی تسلیم کریں گے کہ ہمارے معاشرے میں ان کو وراثت کا حصہ نہیں دیا جاتا‘ ہاں اسی معاشرے میں ان کے حقوق سلب کیے جارہے ہیں‘ وہ پھر بھی زندہ ہیں اپنے پرائے کے طعنے تازیانے بن کر ان کے جسم و جان پر برستے ہیں مگر وہ زخمی جان کے ساتھ جی رہی ہیں کہ زندگی خدا کی امانت ہے وہ کیسے اس میں خیانت کر کے دوگز زمین سے بھی محروم ہو جائیں۔کسی نے ان کے اندر جھانکنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ یہ لڑکیاں چہرے پر مسکراہٹ سجائے اپنی آنکھوں کی اداسیوں کو سات پردوں میں چھپائے اس معاشرے میں کیسے زندگی کا ساتھ دے رہی ہیں۔میرے سامنے کی بات ہے کہ ہمارے علاقہ میں ایک نئی نویلی دلہن کا شوہر فوت ہو گیا تو سارا عتاب بے چاری لڑکی پر اتر آیا‘ جیسے بیوہ ہونے میں اس بیچاری لڑکی کی اپنی مرضی تھی۔ اسے پچھل پیری، منحوس، کالی قسمت اور سبز قدم کے القابات سے نوازا گیا۔ ایسے ہی اگر کسی لڑکی کو ناکردہ گناہوں کی سزا یوں ملے کہ مرد دوسری شادی یا عیاشی کی خاطر اسے طلاق دیدے، تب بھی ہمارا یہ پڑھا لکھا معاشرہ اسے زندہ درگور کردیتا ہے۔ زندگی ایسے القابات کے ساتھ گزارنا ناکردہ گناہوں کی سزا پانا کتنا مشکل ہے مگر یہ بے چاری لڑکیاں موت سے بدتر زندگی گزارنے پر صبر کرلیتی ہیں‘ سکون کی تلاش سجدوں میں کرتی ہیں مگر اس سب کے باوجود سسک کر جینا کتنا مشکل ہے یہ کوئی لڑکیوں سے پوچھے۔ اب تو گھروں میں بھی یہ معصوم لڑکیاں اپنی نمائش کرنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ لڑکے کی ڈیمانڈز پوری کرنے کی خاطر لڑکے کی ماں بہنیں آتی ہیں اور لڑکی کو یوں دیکھا جاتا ہے جیسے بکرا منڈی میں بکرے کے خریدار اسے دیکھتے ہیں دانت پورے ہیں گوشت کتنا نکلے گا۔ اگر قربانی کے بکرے کی طرح یہ لڑکیاں لڑکے کی ڈیمانڈز پر پورا اتر آئیں تو ان کی لاٹری نکل آتی ہے اگر لڑکے والے ریجیکٹ کردیں تو بوڑھے باپ کی کمر مزید جھک جاتی ہے۔ ماں کی نیندیں اچاٹ ہو جاتی ہیں۔ بھائی بہنوں اور بھابھی کی نظریں اٹھتے بیٹھتے یہی احساس دلانے لگتی ہیں کہ نہ جانے کب اس سے چھٹکارہ ملے گا۔لڑکی کا کردار، سلیقہ مندی، نماز روزے کی پابندی سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ دوش پھر بھی لڑکی کو ہی دیا جاتا ہے کہ اسی کا قصور ہے جو وہ لڑکے کے معیار کے مطابق نہیں۔ کاش! یہ لڑکے اپنی ڈیمانڈز ڈائریکٹ اللہ تعالیٰ کو بھیج دیں تاکہ اللہ خود ہی ان سے پوچھ سکے کہ وہ خود کس قابل ہیں جو میری مخلوق میں خامیاں نکالتے ہیں جس لڑکی کو ریجیکٹ کیا جاتا ہے وہ کیا چاہتی ہے اس کی ڈیمانڈز کیا ہے۔ پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔ دراصل اس معاشرے نے عورت کو درجہ دوئم کی مخلوق قرار دے دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسے انسانوں میں شمار کرنے کی بجائے حیوانوں میں شمار کرنے لگا ہے۔شادی ہونے کے بعد سسرال میں ان کے ساتھ کیسا کیساناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے اس کو لکھنے کیلئے مجھ میں تو خیر جرأت نہیں ہے ‘ قارئین! آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بیاہ کرآنے والی لڑکی کا کیا حال کیا جاتا ہےاگر نہیں معلوم تو مقامی اخبارات کی شہ سرخیاں ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔جائیداد کو اپنے تک محدود رکھنے کی خاطر کبھی تو اپنے سے چار گنا بڑی عمر کے مرد کے پلے باندھ دیا جاتا ہے جو جوان بیوی کو شک کی بنا پر ایسی ایسی اذیتیں دیتا ہے کہ وہ پنجرے میں پر کٹی کبوتری کی طرح پھڑپھڑاتی رہتی ہے اور کبھی جائیداد کی خاطر اس کی انگلی معصوم بچے کے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے جو جوان ہونے پر بوڑھی عورت کو ایک کھونٹے سے باندھ کر اپنی پسند سے شاد ی رچا لیتا ہے اور لڑکی کے ارمان سرخ کفن پہن کر ہمیشہ کی نیند سو جاتے ہیں۔ یہ تمام شیطانی کام ہمارے معاشرے میں صرف جائیداد اور انا کی تسکین کی خاطر کرتے ہیں ورنہ اسلام نے کب اجازت دی ہے کہ عورت کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جائے ۔ اسلام نے تو عورت کو معاشرے میں اعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔اس نے مارنے کا حکم بھی دیا ہے تو پھولوں کی چھڑی سے مگر آج کا یہ معاشرہ ان کو زندہ درگور کردیتا ہے۔ میرا عبقری کے توسط سے اس پڑھے لکھے معاشرے سے صرف ایک سوال ہے کہ اگر کوئی بچی بیوہ ہے یا طلاق یافتہ ہوگئی ہے‘ جہیز نہ ہونے یا لڑکے والوں کو پسند نہ آنےیا کسی بھی وجہ سے وہ وقت کی دہلیز پر بیٹھ گئی ہے تو اس میں اس بیچاری کا کیا قصور ہے؟ پھر کیوں اس کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھران دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا‘‘۔’’پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقینا میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت‘‘۔ (آل عمران، 3: 195)
اسلام نے عورت کو وہ مقام عطا فرمایا جو کسی بھی قدیم اور جدید تہذیب نے نہیں دیا۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کی جنت ماں کے قدموں تلے قرار دے کر ماں کو معاشرے کا سب سے زیادہ مکرم و محترم مقام عطا کیا، اسلام نے نہ صرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بلکہ اسے وراثت میں حقدار ٹھہرایا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا میں عورت کے تمام روپ اور کردار کو اپنی زبانِ مبارک سے بیان فرمایا: اب جس دور میں عورت ہو، جس مقام پر ہو اور اپنی حیثیت کا اندازہ کرنا چاہے تو وہ ان کرداروں کو دیکھ کر اپنی حیثیت کو پہچان سکتی ہے۔
’’عورتوں میں بہترین عورتیں چار ہیں، حضرت مریم بنت عمران علیہماالسلام، (ام المؤمنین) حضرت خدیجۃ الکبریٰ علیہا السلام،حضرت سیدہ فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا اور فرعون کی بیوی آسیہ علیہاالسلام‘‘۔ان چار عورتوں کی طرف اشارہ فرما کر حقیقت میں چار بہترین کرداروں کی نشاندہی فرمادی گئی ہے اور وہ کردار جس سے اللہ اور اس کا رسول ﷺ راضی ہوئے اور اس مقام سے سرفراز فرمایا جو کسی اور کو نصیب نہ ہوا، وہ کردار کیا ہے؟ایک ماں کا کردار حضرت مریم بنت عمران علیہا السلام ایک عظیم بیوی کا کردار حضرت خدیجہ الکبریٰ علیہا السلام۔ایک عظیم بیٹی کا کردار حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا ایک عظیم عورت کا کردار حضرت آسیہ علیہا السلام۔ان چاروں کرداروں پر نظر دوڑا کر ہر عورت اپنی حیثیت کو پہچان کر اپنے کردار کو متعین کرسکتی ہے،کہ وہ کون سے راز تھے جنہوں نے ان ہستیوں کو خیر النساء کے لقب سے سرفراز کیا؟
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں