Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

بوتل سے نکلا بونا جن اور آدھی خواہشات

ماہنامہ عبقری - جولائی 2018ء

جن نے گھبرا کر کہا: ارے! ہم تو بھول گئے کہ ابھی تو بغداد کا آدھا راستہ باقی ہے‘‘ سلمان نے کہا: کوئی بات نہیں تم مجھے دو اونٹ لادو‘ باقی سفر اونٹ پر طے کرتے ہیں‘ چٹکی بجاتے ہی ایک اونٹ نمودار ہوگیا۔ سلمان اس پر سوار ہوکر بغداد کی طرف چل پڑا۔

بہت زمانہ گزرا بغداد سے بہت دور سمندر کے کنارے ماہی گیروں کی ایک بستی آباد تھی۔ اس بستی میں ایک لڑکا سلمان اپنے چچا عاصم کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ عاصم ایک برا آدمی تھا۔ دن کے وقت مچھلیاں پکڑتا اور رات کو ڈاکے ڈالتا‘ اس طرح وہ بہت دولت مند ہوگیا تھا۔ بستی کے لوگ اسے قسمت کا دھنی سمجھتے تھے‘ سلمان اپنے چچا کی ان حرکات سے بے خبر تھا‘ وہ تو صبح سویرے اٹھتا اور سارا دن گھر کے کام کرتا رہتا‘ رات کو اصطبل کے ایک کونے میں سوجاتا۔ ہفتے میں صرف ایک دن اسے آزادی ملتی۔ اس روز اس کا چچا‘ اسے مچھلیاں پکڑنے کیلئے اپنے ساتھ سمندر پر لے جاتا۔ ایک دن جب اس نے جال سمندر میں ڈالا تو مچھلیوں ساتھ ایک بوتل بھی جال میں پھنس گئی۔ اس نے یہ بوتل اپنے کرتے میں رکھ لی۔ رات کو سوتے وقت اس نے بوتل کو غور سے دیکھا تو اس کے منہ پر ایک مہر لگی ہوئی تھی اور اس پر عجیب سے الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ سلمان نے جلدی سے بوتل کی مہر توڑی اور بوتل کے منہ کو دیکھنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بوتل سے ایک پتلی سی دھوئیں کی دھار اوپر اٹھنے لگی۔ آہستہ آہستہ دھواں پھیلنے لگا اور ایک بڑا سا بادل بن گیا۔ سلمان نے دھوئیں سے نظریں ہٹا کر بوتل کی طرف دیکھا تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ بوتل کے منہ پر ایک بالکل ننھا سا جن بیٹھا اسے گھور رہا تھا۔ سلمان نے پوچھا: ’’کیا تم جن ہو؟‘‘ جی ہاں! ننھے جن نے جواب دیا۔ سلمان نے پوچھا: کیا تم میری ہر خواہش پوری کروگے؟۔ ننھا جن بولا: آپ حکم تو کریں۔ سلمان نے تھوڑی سوچا اور بولا: میرا جی چاہتا ہے میں شہزادوں کی طرح اچھے اچھے کپڑے پہنوں۔ ننھے جن نے اشارہ کیا دوسرے ہی لمحے سلمان کے جسم پر شہزادوں جیسا لباس تھا لیکن اس کی ٹانگیں ننگی تھیں۔ ننھا جن گھبرا کر بولا: معاف کرنا میرے آقا میں صرف آپ کی آدھی خواہش پوری کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ دراصل میں بہت چھوٹا ہوں‘ سلمان کہنے لگا: میں نے اس کا حل سوچ لیا ہے‘ فرض کرو اگر میں تم سے کپڑوں کے دو جوڑے مانگتا تو۔ ننھا جن مسکرا کر بولا: تو ایک ضرور مل جاتا‘ اب ننھے جن نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا اور سلمان کے جسم پر سر سے پاؤں تک ایک خوبصورت ریشمی لباس تھا۔ سلمان کو خیال آیا کہ جلدی سے یہاں سے دور چلے جانا چاہیے کہیں لالچی چچا کو نہ پتہ چلا جائے۔ اس نے جن کو حکم دیا: ’’مجھے بغداد لے چلو‘‘ جن نے فوراً انگلی اوپر اٹھائی تو سلمان تیزی سے ہوا میں اڑنے لگا۔ کافی دیر کے بعد وہ ہلکے سے جھٹکے ساتھ زمین پر آریا۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو ریگستان میں کھڑا ہوا پایا۔ جن نے گھبرا کر کہا: ارے! ہم تو بھول گئے کہ ابھی تو بغداد کا آدھا راستہ باقی ہے‘‘ سلمان نے کہا: کوئی بات نہیں تم مجھے دو اونٹ لادو‘ باقی سفر اونٹ پر طے کرتے ہیں‘ چٹکی بجاتے ہی ایک اونٹ نمودار ہوگیا۔ سلمان اس پر سوار ہوکر بغداد کی طرف چل پڑا۔ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ ڈاکوؤں نے اسے گھیرلیا۔ ڈاکوؤں کا سردار خوشی سے چلایا: آج ہمیں دو عمدہ شکار ہاتھ لگے ہیں‘ ایک وزیراعلیٰ کی بیٹی اور دوسرا یہ شہزادہ۔ سلمان بولا: بھائی میں شہزادہ نہیں بلکہ ایک یتیم لڑکا ہوں‘ سردار نے کہا: پھر تو ہم تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے کیونکہ تم جان چکے ہو کہ ہم وزیراعلیٰ کی بیٹی کو اٹھا کر لائے ہیں‘ یہ کہہ کر ڈاکو اسے مارنے کیلئے آگے بڑھے‘ سلمان نے فوراً بوتل نکالی اور جن کو حکم دیا کہ ان ڈاکوؤں کو بھیڑوں میں تبدیل کردے‘ دوسرے ہی لمحے وہاں ڈاکوؤں کی جگہ بھیڑیں کھڑی تھیں۔ سلمان نے سکھ کا سانس لیا۔ یکایک اس کی نظر ایک تھیلے پر پڑی۔ اس نے جلدی سے تھیلا کھولا تو اندر سے ایک خوبصورت لڑکی نکلی۔ وہ وزیراعلیٰ کی بیٹی صوبیہ تھی۔ اس نے سلمان کا شکریہ ادا کیا اور بولی: کیا ہم جلدی سے بغداد پہنچ سکتے ہیں؟ سلمان نے جن کو حکم دیا کہ دو قالین لاؤ‘ جن نے فوراً ایک قالین حاضر کردیا۔ سلمان اور صوبیہ قالین پر بیٹھے تو وہ ہوا میں اڑنے لگا۔ وزیراعلیٰ اپنی پیاری بیٹی کی واپسی سے اس قدر خوش ہوا کہ اس نے صوبیہ کی منگنی سلمان کے ساتھ کردی‘ سلمان کا نام پورے ملک میں مشہور ہوگیا۔ اس کے چچا عاصم نے جب یہ خبر سنی کہ سلمان کی منگنی وزیراعلیٰ کی بیٹی سے ہوگئی ہے اور وزیراعلیٰ نے اسے رہنے کیلئے ایک عالی شان محل دیا ہے تو وہ فوراً بغداد چلا آیا۔ اس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے اور ایک فقیر کے بھیس میں سلمان کے سامنے آیا اور گڑگڑا کر بھیک مانگنے لگا۔ سلمان نے غور سے دیکھا تو اپنے چچا کو فوراً پہچان لیا۔ وہ اسے محل کے اندر لے گیا اور اس کو پہننے کیلئے نئے کپڑے دئیے اور پھر اس کی خوب خاطر تواضع کی۔ سلمان نے اپنے چچا کو محل کی سیر کرائی اور پھر اسے اس کمرے میں لے گیا جہاں سونے چاندی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے‘ اتنی ساری دولت دیکھ کر عاصم کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں‘ کچھ دیر بعد سلمان نے محسوس کیا کہ چچا کی للچائی ہوئی نظریں سونے کے پاس پڑی ہوئی بوتل پر جمی ہوئی ہیں۔ عاصم بہت چالاک آدمی تھا‘ بوتل کو دیکھتے ہی سمجھ گیا یہ کوئی عام بوتل نہیں۔ اس نے جلدی سے آگے بڑھ کر بوتل اٹھالی اور کہنے لگا: کیسی عجیب بات ہے کہ سونے کی اشرفیوں کے پاس یہ میلی سی بوتل پڑی ہے‘ یہ تو مجھ جیسے غریب کے پاس ہونی چاہیے‘ عاصم نے بوتل کا ڈھکنا کھول دیا‘ اور جب اس میں سے دھواں نکلا تو کہنے لگا: اب میں سمجھا تمہارے پاس اتنی دولت کس طرح آئی ہے‘ اب یہ دولت میرے پاس آئےگی؟ سلمان نے کہا: یہ جن میرے قابو میں ہے‘ آپ کا حکم نہیں مانےگا‘ ابھی دیکھ لیتے ہیں:یہ کہہ کر اس نے جن کو حکم دیا کہ سلمان کو ختم کردو‘ ننھے جن نے انگلی اٹھائی اور سلمان فرش پر گر پڑا۔ عاصم نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور محل سے باہر آگیا۔ سنسان جگہ پر آگیا۔ بوتل کا ڈھکن کھولا تو ننھے جن نے اداس نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا: کیا حکم ہے آقا؟ ننھا جن جب سے عاصم کے پاس آیا تھا بہت اداس ہوگیا تھا۔عاصم نے کہا: میرا حکم غور سے سنو‘ میں چاہتا ہوں کہ خلیفہ بغداد تباہ ہوجائے اور اس کی جگہ میں خلیفہ بن جاؤں‘ ابھی وہ یہ باتیں کرہی رہا تھا کہ سپاہیوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے اسے گھیرلیا۔ وہ چلا رہے تھے یہی وہ ڈاکو ہے جس کی ہمیں مدت سے تلاش تھی‘ اگلے روز عاصم کو شہر کے باہر ایک اونچی چٹان پر لے جاکر پھانسی دے دی گئی۔ اس طرح اس کی آدھی خواہش پوری ہوگئی یعنی وہ تخت تک پہنچنے کی بجائے پھانسی کے تختے پر پہنچ گیا۔ اس کے مرتے ہی ننھا جن سلمان کے پاس واپس آگیا۔ سلمان ہوش میں آچکا تھا۔ اصل میں وہ مرا نہیں تھا بلکہ بے ہوش ہوا تھا کیونکہ ننھا جن آدھی خواہش پوری کرنے کی طاقت رکھتا تھا جس کا عاصم کو علم نہیں تھا۔ خلیفہ کے خاص حکیم نے سلمان کو بہت جلد صحت یاب کردیا۔ سلمان کی صحت یابی کی خبر سن کر خلیفہ اس قدر خوش ہوا کہ ملک بھر میں چھٹی کا اعلان کردیا۔ کچھ دنوں کے بعد سلمان کی شادی وزیراعلیٰ کی بیٹی صوبیہ کے ساتھ ہوگئی۔ اس طرح سلمان کی آدھی خواہش پوری ہوگئی یعنی وہ شہزادہ تو نہ بن سکا مگر ایک صوبے کا گورنر بن گیا۔ اس کی شادی کسی شہزادی سے تو نہ ہوسکی لیکن اس کی بیوی صوبیہ اس شان سے رہتی تھی کہ شہزادیاں بھی رشک کرتی تھیں۔(انتخاب:سانول چغتائی‘ رانجھو چغتائی‘ اماں زیبو چغتائی‘ بُھورل چغتائی‘ احمد پور شرقیہ)

 

  وہ کبھی محتاج نہ ہوگا:
جو کوئی پنج وقت نماز کے بعد اسم الٰہی یَاحَکَمُ کو 80 مرتبہ پڑھے گا ان شاء اللہ تعالیٰ وہ کبھی محتاج نہ ہوگا۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 816 reviews.