محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں رسالہ عبقری بہت شوق سے پڑھتا ہوں‘ مجھے جہاں سے بھی کوئی ٹوٹکہ یا روحانی عمل ملے میری کوشش ہوتی ہے کہ اسے جلد از جلد عبقری شمارے میں چھاپنے کیلئے ارسال کردوں کیونکہ بلاشبہ عبقری دور حاضر کا مشہور ترین شمارہ ہےکیونکہ میں خود دیکھتا ہوں کہ جیسے ہی ہمارے قریبی بک سٹال پر عبقری آتا ہے تو ہاتھوں ہاتھ بک جاتا ہے اور میری کوشش ہے کہ جلد سے جلد عبقری مجھے مل جائے ایسا نہ ہو کہ مجھے پھر چند روز انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑے۔ چند دن پہلے مقامی اخبار کا مطالعہ کررہا تھا کہ اس میں ایک مشہور کالم نویس کا کالم پڑھا‘ جس میں انہوں نے لکھا کہ کیسے ایک ٹوٹکے نے ان کے گردے کا مرض دور کردیا۔ میں نے جیسے ہی یہ ٹوٹکہ پڑھا فوراً قلم اٹھایا اور اسے قارئین عبقری کی نذر کرنے کیلئے لکھنا شروع کردیا۔ وہ کالم نویس لکھتے ہیں کہ:۔ گزشتہ دنوں علاج معالجہ کے حوالے سے میں ایک حیرت انگیز تجربے سے دوچار ہوا۔
میں ہرسال مکمل چیک اپ کے لئے کسی ہسپتال میں دو دن کے لئے ایڈمٹ ہو جاتا ہوں جہاں تمام ٹیسٹ میری کاہلی، سستی اور مصروفیات کو نظرانداز کر کے ایک ہی مقام پر ہو جاتے ہیں ۔ چنانچہ میں اس مرتبہ بھی لاہور کے مشہور روڈپر واقع ایک پرائیویٹ ہسپتال میں داخل ہوا اور یہ ایک خوشگوار تجربہ اس لحاظ سے تھا کہ یہاں بیرون ملک کے تعلیم یافتہ اعلیٰ درجے کے ڈاکٹر موجود تھے جو لاہور کے ایک بہت بڑے پرائیویٹ ہسپتال کے ڈاکٹروں کے برعکس مریضوں کو پوری توجہ سے دیکھتے تھے۔ یہاں یورین ٹیسٹ (یورین کو اردو میں پیشاب کہتے ہیں) کے دوران پتہ چلا کہ مجھے تھری پلس (+++) پروٹین آرہی ہے یہ نتیجہ عام یورین ٹیسٹ کا تھا مگر ’’پلس‘‘ ایک مبہم سی اصطلاح ہے اس سے اصل مقدار کا اندازہ نہیں ہوتا، چنانچہ پروٹین کی صحیح تعداد جاننے کے لئے 24 گھنٹے کا یورین اکٹھا کر کے جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ یورین میں پروٹین کی زیادہ سے زیادہ مقدار 0.12 ہونا چاہئے جبکہ ٹیسٹ میں یہ0.41ظاہر ہورہی تھی۔ پاکستان کے صف اول کے یورالوجسٹ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اس کا علاج تو بہت پیچیدہ ہے تاہم انہوں نے ایک اچھے پروفیشنل کی طرح مجھے مشورہ دیا کہ اس ضمن میں صحیح رائے کوئی نفرالوجسٹ ہی دے سکتا ہے۔
الحمداللہ میرے باقی سارے ٹیسٹ شوگر سے لے کر کولیسٹرول، کڈنی اور ہارٹ وغیرہ تک کے بالکل میری ’’حسب منشاہ‘‘ آئے۔ یعنی سو فیصد ٹھیک تھے مگر کڈنی جو کہ میری صرف ایک ہے (ایک کڈنی کے قرب و جوار میں واقع کینسر کی وجہ سے یہ کڈنی بارہ برس پیشتر نکال دینا پڑی تھی کہ وہ بری صحبت میں رہی تھی) اس کا تعلق بہرحال پروٹین کے اخراج سے بھی بنتا ہے کیونکہ کڈنی کا کام فلٹر کرنا ہے اور اگر یورین میں پروٹین آرہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کڈنی صحیح کام نہیں کررہی ۔ چنانچہ ہسپتال سے واپسی پر میں نے پاکستان کے نامور یورالوجسٹ ڈاکٹر سے بھی مشورہ کیا اور انہیں بتایا کہ پہلے ڈاکٹر نے نفرالوجسٹ سے رجوع کرنے کے لئے کہا ہے، ڈاکٹر صاحب نے کہا ان کا مشورہ بالکل صحیح ہے اور ساتھ ہی انہوں نے مہربانی یہ کی کہ مجھے ایک ڈاکٹر کی طرف ریفر کردیا اور بتایا کہ اس وقت اس ڈاکٹر صاحب کا شمار پاکستان کے بہترین نفرالوجسٹ میں ہوتا ہے اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ وہ آپ کے بہت مداح ہیں چنانچہ میں بھاگم بھاگ اس ڈاکٹر کے کلینک پہنچا تو امریکہ سے پڑھے ہوئے اس منکسر المزاج طبیب نے مجھے باہر آکر ریسیو کیا اور پھر پوری توجہ سے یورین رپورٹ کے مندرجات کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہہ کر میری ساری پریشانی دور کردی کہ ایک کڈنی دو کڈنیوں کا کام کررہی ہے اور یہ جو یورین میں پروٹین کی مقدار ہے اس میں کوئی تشویش کی بات نہیں۔ یہ بہت کم ہے آپ آرام سے گھر جائیں، آپ کی کڈنی کی باقی ساری رپورٹس بالکل نارمل ہیں۔ لہٰذا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ اب میں آپ کو سچی بات بتائوں کہ میں اپنی اکلوتی کڈنی کے بظاہر صحیح کام نہ کرنے کی وجہ سے اندر ہی اندر سخت پریشان بلکہ ہراساں تھا، ڈاکٹر صاحب نے اس روز مجھے جو خوشی دی وہ میں کبھی نہیں بھول سکوں گا۔
مگر ابھی تک میں نے آپ کو جو کچھ بتایا ہے وہ سارے کا سارا پس منظر تھا، اصل بات میں آپ کو اب بتانے لگا ہوں اور وہ بات یہ ہے کہ اگرچہ میں ذہنی طور پر پرسکون ہوگیا تھا مگر پھر بھی میری خواہش تھی کہ جو پروٹین آرہی ہے خواہ اس کی مقدار 24 گھنٹے کے جمع شدہ یورین کے حوالے سے قابل توجہ نہیں پھر بھی یہ بدبخت یورین میں نظر نہیں آنا چاہئے۔ پہلےڈاکٹر جو کہ میرے دیرینہ دوست ہیں میڈیکل ڈاکٹر بھی ہیں۔ کلکٹر کسٹم بھی ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ پاکستان کا کوئی بھی علاقہ کسی آفت کی زد میں آئے موصوف وہاں اپنی ٹیم کے ساتھ امدادی کاموں کے لئے پہنچ جاتے ہیں۔ میں نے ان سے یونہی سرسری سے انداز میں اپنی بپتا سنائی، کہنے لگے آپ یوں کریں دار چینی پیس کر اس کا ایک بڑا چمچ اور اس میںایک چمچ شہد مکس کر کے نہار منہ اس کا قہوہ پئیں۔ پندرہ دنوں کے اندر پروٹین کا نام و نشان نہیں رہے گا۔ مجھے اسی وقت ڈاکٹرصاحب جو ’’دادی اماں‘‘ لگے مگر میں نے سوچا کہ اس نسخے میں مضر صحت تو کوئی چیز نہیں لہٰذا آزمانے میں کیا حرج ہے۔ چنانچہ میں نے نہار منہ یہ قہوہ پینا شروع کردیا‘ سات دنوں کے بعد میں نے سوچا کہ ایک ٹیسٹ کروا کر دیکھا تو جائے کہ کچھ فرق پڑا بھی ہے کہ نہیں چنانچہ جب یورین ٹیسٹ کی رپورٹ میرے سامنے آئی تو حیرت سے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ اس میں پروٹین تھری پلس کی بجائےصرف "Trace" کی سطح پر آگئی تھی اور ابھی ڈاکٹر صاحب کی دی ہوئی ’’ڈیڈ لائن‘‘ میں ایک ہفتہ باقی ہے۔یہ کالم میں نے خلق خدا کے افادہ کے لئے لکھا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں