یوں تو ہم اپنے دل میں طرح طرح کے دشمنوں کی فہرست بنائے رکھتے ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا سب سے بڑا دشمن کون ہے؟یاد رکھئے آپ کا پہلا اور سب سے بڑا دشمن ’’خوف‘‘ ہے اور دوسرا ’’مایوسی‘‘۔ آپ اندازہ بھی نہیں کرسکتے کہ یہ دونوں مل کر آپ کو زندگی اور اس کے دوسرے لطیف پہلوئوں سے کتنا دور لے جاتے ہیں۔نفسیاتی طور پر ہم سب لوگ اندر سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی شے سے خوفزدہ ہے، بس ذرا وجوہات مختلف ہیں۔ کہیں کوئی ہمارے ماضی کو نہ چھیڑدے، کوئی ہمارا ان باتوں کو نہ جان لے جو ہم نے سب سے پوشیدہ رکھی ہیں، کوئی ہماری ہنسی کے پیچھے چھپی اداسی نہ دیکھ لے۔ یہ اور اس طرح کی ساری علامات خوفزدہ شخص کی ہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ یہ سب کیا ہے؟۔ماضی کی باتوں کو اپنے سر پر اتنا سوار کرلینا کسی طور بھی مناسب نہیں ہے۔ کیا آپ کے پاس اتنا فارغ وقت ہے کہ آپ ایک ناخوشگوار واقعے کو پکڑ کر رکھیں اور ساری زندگی اسی کے پیچھے روتے رہیں؟ نہیںہرگز نہیں۔ آپ کو اپنی منفی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کچھ ہے اس کے ساتھ گزارا کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے اندر کے خوف کو باہر نکال کر اس کا سرکچل دیں۔ یاد رکھیں! کسی کے پاس اتنا فارغ وقت ہے اور نہ ہی دماغ کہ وہ آپ کی ان سوچوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرے جن کو آپ آج تک دوسروں سے چھپاتے چلے آئے ہیں۔اگر آپ اپنی زندگی کے کسی ’’خاص وقت‘‘ کو روک کر رکھ لیں گے تو آپ کبھی بھی نارمل اور فریش سوچ نہیں رکھ سکیں گے بلکہ ساری زندگی اسی چکر میں چکراتے رہیں گے۔ماہرین کے مطابق یہ سارا چکر ہمارے ’’احساس‘‘ کا ہے۔یاد رکھیں!آپ کے ماضی کا کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ اس وقت تک آپ پر قابو نہیں پاسکتا جب تک کہ آپ اسے لاشعوری طور پر اپنے اوپر خود سوار نہ کرلیں۔ دوسرے الفاظ میں آپ خود ہی تو نہیں چاہیں گے کہ ایک عام سا ناخوشگوار واقعہ (محبت میں ناکامی، لوگوں کے رویوں کا دکھ وغیرہ وغیرہ) آپ کی نظر کے سامنے ایک بڑا بت بن کر سامنے آجائے اور آپ کی پوری زندگی کو اپنے شکنجے میں کس لے۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوا کہ احساس تو قدرتی شے ہے۔ خدا نے ہمیں حساس دل دیا، سوچنے والا دماغ بھی دیا تو بھئی آپ کس طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے خود کو اپنی سوچ میں قید کرلیا ہے۔ آخر ہم انسان ہیں روبوٹ نہیں تو آپ کو میں یہ بتاتی چلوں کہ سب سے پہلی کمزوری آپ کے اندر یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اگر ہمارے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو جائے تو ہم بار بار اپنے آپ کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بہت ہی برا ہوا‘ آخر یہ ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوا؟ دوسرے الفاظ میں اس طرح سوچ سوچ کر ہم اس واقعے کی ’’شدت‘‘ کو بڑھاتے ہیں۔ اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس واقعے کے بارے میں سوچنا فوراً بند کردیں۔ ہر اس قسم کے لٹریچر سے خود کو دور رکھیں جو مایوسی کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ منفی سوچوں کو اپنے قریب بھی مت پھٹکنے دیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہم ہر واقعے کو صرف اپنے حوالے سے دیکھنے کے عادی ہیں، ایسا کرنا فوراً بند کردیں۔ ایک دفعہ آپ اپنی خود ساختہ دنیا کے خول سے باہر آکر دیکھیں، دنیا حسین دکھائی دے گی۔یہ بات تو قدرتی ہے کہ خوشی اور غم دونوں انسان کی زندگی میں آتےرہتے ہیں۔ ہاں ان کی ’’تراکیب‘‘ ضرور تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ جو لمحہ خوشی کا ہوتا ہے وہ ہم منصوبہ کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔ یہ ایک غلط رحجان ہے۔ زندگی میں خوشیاں چھوٹی چھوٹی اور سانحے بڑے بڑے ہوتے ہیں، لیکن چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہماری زندگی کے بڑے بڑے دکھوں کے اثرات کو زائل کردیتی ہیں۔ ہمیں خوشی کے ان چھوٹے چھوٹے لمحوں کو منصوبہ بندی کی نذر نہیں کرنا چاہیے۔خود ترسی کا شکار مت ہوں۔ اس طرح آپ ناخوشگوار واقعات کی سوچ ‘سوچ کر خود اپنی ’’موت‘‘ کو دعوت دیتے ہیں۔ یہاں موت سے میری مراد جذباتی موت یعنی زندگی سے لاتعلق ہونا، مایوس ہوجانا ہے۔مایوسی کی ایک بڑی وجہ آج کے زمانے میں محبت کی ناکامی بھی ہے۔ 80فیصد لوگ خصوصاً نوجوان جو یہ مضمون پڑھیں گے، اس جذبے کے ہاتھوں کبھی نہ کبھی شکار ضرور ہوئے ہوں گے۔ ہم لوگوں نیز ذرائع ابلاغ سے متاثر ہو کر بھی یہ سوچنا شروع کردیا ہے کہ بھئی محبت تو ایک بہت اعلیٰ مقام ہے۔ اس تک تو ضرور پہنچنا چاہئے، تو بھئی ایک آدھ محبت تو ضرور کرنی چاہیے۔ اب ہم ادھر ادھر نظر دوڑاتے ہیں کہ محبوب کو تلاش کریں۔ یہ تلاش بھی ایک اہم ترین مرحلہ ہوتا ہے۔نفسیاتی طور پر ہوتا یہ ہے کہ کسی کی کوئی بات ہم لوگوں کو وقتی طور پر متاثر کر جاتی ہے اور ہم اس نکتے کو پکڑ کر ساری زندگی کا روگ بنالیتے ہیں۔ اگر کسی کی کوئی بات اچھی لگ گئی تو ہم اپنے آپ کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ اسی کی ہی ہمیں تلاش تھی۔ ہمارا دل گلی کے ہر موڑ پر، ہر چوک پر اپنا خود ساختہ محبوب ڈھونڈتا ہے اور ایک وجہ اس کی یہ بھی ہے کہ انسانی فطرت میں بے چینی کا عنصر ہے جو اسے کبھی ایک مقام پر ٹک کر نہیں بیٹھنے دیتاہے اور نامعلوم کے بارے میں ہمیشہ جاننے پر اکساتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محبت کی شادیاں اکثر ناکام ہو جاتی ہیں کیونکہ یہ محبت نہیں ہے، یہ Forced Attraction ہے جو آپ سمجھتے ہیں کہ دوسرے کو پالینے سے مل جاتی ہے۔بات پھر وہیں جانکلتی ہے کہ آپ نے محبوب کی چھوٹی سی ادا پر اپنی زندگی کا سارا منصوبہ سیٹ کرلیا۔ اس کی اس ادا کے گرد دائرہ بناکر ساری زندگی خیالی دنیا میں گزاری اور اصل حقیقت کو سمجھنے کی کبھی کوشش بھی نہیں کی۔دوسرے الفاظ میں آپ نے اپنے چھوٹے سے احساس کو اتنی ’’شدت‘‘ دے دی کہ وہ آپ پر حاوی ہوگیا۔
مایوسی کی انتہا کچھ لوگوں کو خودکشی کرنے پر بھی آمادہ کرتی ہے۔ آپ یہ سمجھنا شروع کردیں گے کہ آپ کی موت سے سب پرواضح ہو جائے گا کہ وہ غلطی پر تھے۔ لوگ آپ کے بارے میں سوچتے رہیں گے۔ اس واقعے کے محرکات کا جائزہ لیں تو آپ اپنی یہ عادت خود ختم کردیں گے۔ کیونکہ کسی کے پاس اتنا فارغ وقت نہیں ہوتا کہ وہ ان چیزوں کے اثر کو سالوں تک قبول کرلے۔ وقت بڑا بے رحم ہے اور ہر دکھ اور زخم کو مندمل کردینے پر قادر ہے۔ زندگی کی دوڑ میں لوگ اپنے ماں باپ اور اپنے آپ کو بھی بھول جاتے ہیں تو آپ کیا چیز ہیں؟ مرنے والا اپنے ساتھ اپنا نام، شناخت سب کچھ لے کر جاتا ہے اور آپ نے کوئی خاص کارنامہ تو انجام دیانہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر آپ کو کسی تمغے سے نوازا جائے گا۔ آخرت میں جب حساب ہوگا تب آپ کہاں جائیں گے؟خلاصہ مضمون یہ ہے کہ خود پسندی اور خوف و مایوسی کا شکار مت ہوں۔ جو ہوا اسے بھلا کر زندگی کی طرف آئیں۔ یقیناً آپ تبدیلی محسوس کریں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں