صحت عطیہ خداوندی ہے ہر شخص کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ اس کی صحت کو برقرار رکھنے والی ہستی نے اس پر اپنی رحمت کا سایہ کیا ہوا ہے اور اسے اپنے خصوصی فضل سے نواز رکھا ہے لیکن یہ کس قدرشرمناک بات ہے کہ اس احساس کے باوجود انسان اپنی صحت کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ اپنی صحت برباد کرنے میں لگا رہتا ہے۔انسان ہمیشہ اس گمان میں رہتا ہے کہ وہ جو کھاتا پیتا ہے وہی جزوبدن بن کر اس میں توانائی پیدا کرتا ہے۔ اگرچہ یہ بات سچ ہے مگر طبی اعتبار سے غذا کو جزوبدن بننے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے انسان اس شاذونادر ہی اس جانب غور کرتا ہے۔ معدہ تندرست ہو تو غیر معمولی غذا بھی ہضم ہو جاتی ہے مگر غیر معمولی غذا کے ہضم ہونے کا معاملہ سدا ایک جیسا نہیں رہتا۔ غذا کو جزو بنانے کے لئے انسان کا حرکت کرتے رہنا بہت ضروری ہے۔ ۔اس سلسلے میں مختلف ادوار کے انسان کی مثال دی جاسکتی ہے۔ مثلاً بیس تیس سال پہلے تک ہمارے ہاں ہر شخص غذا استعمال کرنے کے بعد اسے مکمل طور پر ہضم کرلیتا تھا یعنی جب پوری محنت و مشقت کے بعد بھوک لگنے پر غذا کھاتا تو اس کے بعد بھی اپنی محنت جاری رکھتا تھا جس سے اس کی غذا مکمل طور پر جزوبدن بنتی تھی جس کی وجہ سے اس کا معدہ بیماریوں سے پاک رہتا۔ نہ اسے تبخیر معدہ کی شکایت ہوتی، نہ خون میںکولیسٹرول بڑھتا، نہ اسے بلڈپریشر ہوتا اور نہ ہی شوگر جیسے مہلک امراض لاحق ہوتے۔ اگرچہ یہ بیماریوں بیس تیس سال پہلے بھی تھیں مگر ان کی شرح بہت کم تھی لیکن جب آج کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو بے تحاشا امراض دیکھ کر روح فنا ہو جاتی ہے۔ جدید طب اور بڑے بڑے ڈاکٹروں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ موجودہ دور کا انسان سہل پسند ہوچکا ہے۔ وہ غذائیت سے بھرپور اور چٹ پٹی مرغن غذائیں کھانے کا شوقین ہے مگر اسے ہضم نہیں کرسکتا۔ کیونکہ وہ بہت کم جسمانی مشقت کرتا ہے۔ نئے دور کا انسان دماغی کام کرکے بہت تھک جاتا ہے۔ حرکت و نقل کے لئے سواری کا سہارا لیتا ہے۔ چاہے ایک ہی دفتر کی ایک فلور اوپر والی یا پھر نیچے والی منزل پر کام ہو وہ جلد بازی یا افراتفری کی وجہ سے لفٹ کے ذریعے اوپر نیچے جاتا ہے یا پھر خود حرکت کرنے کی زحمت سے بچنے کے لئے چپڑاسیوں کے ذریعے کام کرواتا ہے۔ اس طرح دفتر سے باہر کوئی کام ہو تو چند سوگز تک پیدل چلنے کی بجائے رکشہ، سکوٹر، ویگن یا کار پر سفر کرتا ہے۔موجودہ دور کے انسان کی یہ سہل پسندی ہی دراصل سے بہت سے امراض کا سبب ہے جس سے آج ہر کوئی دو چار ہے۔ البتہ ایسے لوگ جو اپنے دفتری امور انجام دیتے وقت کرسی سے چپٹے نہیں رہتے اور صرف خود کو جسمانی طور پر فعال بنانے کی غرض سے سارا دن ذہنی اور جسمانی کام کرتے ہیں ان کی صحت خاصی بہتر رہتی ہے۔ ایسے لوگ ڈپریشن، بلڈپریشر، ہارٹ اٹیک اور شوگر کے علاوہ معدہ کے متعدد امراض سے خاصی دیر تک محفوظ رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں جسمانی مشقت کے عادی لوگ نزلہ، فلو اور زکام جیسے مرض سے بہت حد تک بچے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں غذا مکمل توانائی پیدا کرتی ہے اور ان کے جسم میں بیماریوں کے خلاف مدافعت بڑھ جاتی ہے۔
آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ نوجوانی میں کھیل کود کرنے والے اکثر نوجوان صحت مند رہتے ہیں۔ لیکن جونہی وہ پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھتے ہیں یا پھر بے روزگاری کے باعث ہاتھ پائوں ہلانا چھوڑ دیتے ہیں تو انہیں بیماریاں دیمک کی طرح لگ جاتی ہیں۔ اسی طرح امراء اور بڑے بڑے صنعتکار، بیوروکریٹس، سیاست دان، ادیب اور ایسے شعبوں سے وابستہ حضرات جو اپنی گوناگوں مصروفیات کے باعث جسمانی مشقت نہیں کرسکتے وہ ہر طرح کے امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان کی بیماریاں دوا سے بھی ختم نہیں ہو پاتیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر انہیں ادویات کے ساتھ سیر کی نصیحت کرتے ہیں۔ آپ نے شہروں کے بڑے بڑے پارکوں یا پوش علاقوں میں صبح اور شام کے وقت ایسے ہی لوگوں کو دیکھا ہوگا جو ڈاکٹروں کی ہدایت پر اپنی صحت کی خاطر سیر کرتے ہیں۔ حالانکہ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو سیر کے نام سے چڑتے تھے اور اپنی مصروفیات کے باعث صحت کے ازلی راز ’’سیر‘‘ کو خاطر میں نہیں لاتے تھے مگر بیماریوں کی شدت سے مجبور ہوکر بالاخر سیر کرنے پر مجبور ہوگئے۔جدید طب نے سیر کو صحت کے لئے انتہائی ضروری قرار دیا ہے اور اس بارے میں واضح کیا ہے کہ سیر کے ذریعے آج کے دور کے تمام نفسیاتی اور جسمانی امراض کے خلاف مدافعت پیدا کی جاسکتی ہے۔ زندگی کی گہما گہمی کے باعث بہت سے ایسے لوگ جو دفتروں سے گھروں میں آنے کے باعث کوئی کھیل نہیں کھیل سکتے وہ رات کے وقت اکیلے یا دوستوں کے ساتھ یا پھر اپنے بیوی بچوں یا پھر والدین کے ساتھ سیر کرنے کو معمول بنا لیں تو ان کی راتیں پر سکون ہو جائیں گی اور صبح اجلی اجلی سی نظر آئیں گی۔ مجھے متعدد طبی کانفرنسوں میں شرکت کے لئے یورپی اور ایشیائی ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ میں نے ان تمام ملکوں کے عوام میں اچھی صحت کا رحجان پایا ہے۔ یورپ کے تمام ملک جہاں کی پیشہ ورانہ زندگی نے ایک انسان کو دوسرے سے دور کردیا ہے سائنس کی ترقی نے بظاہر انہیں سہل پسند بنا دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یورپ انتہائی چاک چوبند اور افعال لوگوں کی سرزمین ہے۔ جاپان، چین، کوریا، تھائی لینڈ اور ہانگ کانگ کے عوام بھی ایسی ہی خصوصیات کے حامل ہیں۔ وہ لوگ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوجود سیرکرتے ہیں۔ انگلینڈ میں صبح سویرے اور رات کے وقت سیر کرنے کا رواج ہے۔ وہاں تقریباً 99 فیصد لوگ روزانہ سیر کرتے ہیں۔ وہ لوگ انتہائی معیاری غذا اور دیگر نشہ آور اشیاء کے استعمال کے باوجود سیر کو زندگی کا لازمی حصہ تصور کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی صحت، خوشحالی کی وجہ سے نہیں بلکہ کھیلوں اور سیر کے رحجان کے باعث ہے۔
ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دن بھر کی مصروفیت کے باعث سیر کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ ایک فرسودہ خیال ہے۔ سیر چاہے پانچ دس منٹ کے لئے ہی کیوں نہ کی جائے یہ جسم و ذہن پر خوشگوار اثر ڈالتی ہے۔ سیر کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ ترو تازہ ہونے کے لئے فارغ الذہن ہوکر بغیر کسی کام کے چہل قدمی کریں۔ پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں راتوں کو دیر سے سونے اور صبح دیر سے جاگنے کا رواج ہے۔ اگر ہم اسلامی طرز زندگی کو اختیار کرلیں اور نماز عشاء کے بعد جلد سونے اور صبح فجر کے وقت بیدار ہونے کی عادت ڈال لیں تو یقیناً ہماری صحت بحال ہو جائے گی اور موجودہ دور کی تمام نفسیاتی بیماریاں دور ہو جائیں گی۔ فجر کی نماز کے بعد کھلی فضا میں سیر کرنے سے تازہ آکسیجن حاصل کرنے کے بعد سارا دن انتہائی خوشگوار گزر سکتا ہے۔ ویسے بھی بڑے شہروں کے رہنے والوں کو متعفن اور آلودہ فضا کا مقابلہ کرنے کے لئے صبح کی سیر کرنی چاہیے کیونکہ صبح سویرے گاڑیوں کا دھواں ہوتا ہے نہ گردوغبار اور نہ ہی قیامت خیز شور شرابہ۔ صبح کی سیر اعصاب کو پرسکون، ذہن کو تازہ، دل کو توانا، آنکھوں میں تازگی اور ارادوں کو جلا بخشتی ہے۔ اگر ہم سیر کو قومی فریضہ سمجھ کر اختیار کرلیں تو ہماری صحت ایک صحتمند قوم کو جنم دے سکتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں