یہ واقعہ ہمیں گوجرانوالہ کے مولانا اجمل دہلوی نے سنایا ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے دادا مولانا اکمل دہلی کے رہنے والے تھے۔ وہ باقاعدہ مسجد کے خطیب نہ تھے بلکہ کبھی کبھار امام مسجد اور لوگوں کے اصرار پر خطبہ دیا کرتے تھے۔ وہ کپڑے کے تاجر ہونے کے باعث آسودہ حال تھے۔ انہیں خدمت خلق کا بھی بہت شوق تھا، چپ چاپ بہت سے لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ انہیں عملیات کا بھی بہت شوق تھا اس لیے دور دراز سے لوگ اپنے مسائل کے حل کیلئے ان کے پاس آیا کرتے تھے۔ دادا حضور اپنی نیکی، پاکبازی اور سخاوت کی وجہ سے علاقے بھر میں مشہور تھے۔ ان کے پاس عملیات سیکھنے کے شوقین بہت سے نوجوان آتے مگر وہ مصروفیت اور بڑھاپے کا بہانہ بنا کر انہیں ٹال دیتے۔ دادا حضور کا کہنا تھا کہ یہ لوگ پیسہ کمانے کی لالچ میں آتے ہیں، انہیں خدمت خلق سے کوئی غرض نہیں لہٰذا وہ ایسے لالچی لوگوں کو عملیات سکھا کر خلق خدا کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگوں کو عملیات نہیں سکھاتے۔
ایک دن میرے والد صاحب مسجد کے ساتھ ملحقہ باغ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ اس وقت میرے والد کی عمر دس بارہ سال تھی۔ دادا حضور کا ادھر سے گزر ہوا تو وہ وہاں کھڑے ہو گئے اور ایک لڑکے کو بڑے غور سے دیکھنے لگے۔ اس لڑکے کا نام وحید تھا اور یہ کسی دوسرے علاقے کا رہنے والا تھا۔ یہ کافی صحت مند اور پھرتیلا تھا، سب لڑکے اس سے ڈرتے، اگر کوئی لڑکا اس سے الجھتا تو وہ اس کی اچھی خاصی پٹائی کر دیتا تھا۔ دادا حضور نے وحید کو اشارے سے اپنے پاس بلایا، وحید پہلے تو رک گیا مگر دادا کے بار بار بلانے پر ان کے پاس چلا گیا۔ دادا نے اسے کہا کہ میں تمہیں پہچان گیا ہوں، میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔ ایک بات یاد رکھنا کہ کسی لڑکے کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا اور نہ کسی کی پٹائی کرنا ورنہ میں تمہیں اس کی سزا دوں گا۔ وحید نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کسی لڑکے کو کچھ نہیں کہے گا مگر اس نے بھی دادا سے وعدہ لیا کہ جب تک وہ یہاں ہے اس کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتائیں گے۔ گھر آکر والد صاحب نے دادا حضور سے بہت پوچھا کہ وحید کون ہے اور اس نے آپ سے ایسا وعدہ کیوں لیا ہے۔ دادا حضور نے بتانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ بیٹا، اب وحید کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور نہ کسی لڑکے کی پٹائی کرے گا۔ واقعی اس کے بعد وحید نے کسی کو کچھ نہ کہا اور اگر کوئی لڑکا اسے کچھ کہتا تو وہ صرف غصے سے دیکھتا اور لڑائی سے گریز کرتا۔ چند دن بعد وحید قاری صاحب سے کہنے لگا کہ اس کے والد نے اسے بلایا ہے اس لیے وہ اپنے گاﺅں جارہا ہے اور دوبارہ واپس نہیں آئے گا۔ سب دوستوں کو وحید کے اچانک چلے جانے کا دکھ ہوا۔ وہ غصے کا تیز ضرور تھا مگر دل کا بہت اچھا تھا، اپنے دوستوں کا خیال بھی بہت رکھتا اور ان کے کام کر دیتا تھا۔ وحید کے جانے کے بعد میرے والد نے دادا حضور سے کہا کہ اب تو آپ بتا دیں کہ وحید کون تھا کیونکہ وہ یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چلا گیا ہے۔ دادا حضور نے کہا کہ وہ ایک جن تھا جو انسان کے روپ میں قرآن پاک حفظ کرنے آیا، وہ آسام کا رہنے والا تھا۔ میں نے پہلے اس لیے نہیں بتایا تھا کہ تمام لڑکے خوفزدہ ہو جائیں گے۔ جب میں نے مسجد میں اپنے دوستوں کو بتایا تو وہ سب بھی بہت حیران ہوئے، قاری صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے پہلے حیرت کا اظہار کیا اور پھر ناراض ہوئے کہ مجھے آپ کے دادا نے کیوں نہیں بتایا۔ وہ میرے دادا کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ مولانا صاحب آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا تھا کہ وحید ایک جن ہے۔ دادا حضور نے کہا کہ قاری صاحب آپ نے معلوم کرکے کیا کرنا تھا۔ قاری صاحب کہنے لگے کہ وہ جن تھا میں اس سے بہت سے کام لے سکتا تھا، اس سے بہت سی دولت منگوا لیتا اور امیر ہو جاتا۔ قاری صاحب میرے دادا کے پیچھے پڑ گئے کہ مجھے جن قابو کرنے کا عمل سکھائیں۔ دادا نے انکار کر دیا مگر قاری صاحب روز آجاتے اور بار بار یہی تقاضا کرتے مگر دادا ہر بار انکار کر دیتے۔ قاری صاحب نے کہیں سے جن قابو کرنے کی کتاب حاصل کر لی اور اس سے عملیات کرنے شروع کر دیئے۔ ایک دن نماز فجر کے وقت قاری صاحب حجرے سے باہر نہ آئے تو سب کو خاصی تشویش ہوئی۔ دادا حضور اور دیگر نمازیوں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔ ایک لڑکے کو روشن دان پر چڑھایا تو وہ کہنے لگا کہ قاری صاحب الٹے لٹکے ہوئے ہیں اور ان کے منہ پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ سب نے دروازہ توڑا اور قاری صاحب کو نیچے اتارا۔ ان سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ یہ کیا ماجرا ہوا، آپ کو کس نے الٹا لٹکایا؟ قاری صاحب تھے کہ سر نیچا کیے بیٹھے رہے اور کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ نماز کے بعد سب پھر پوچھنے لگے مگر قاری صاحب یہ کہہ کر ٹال گئے کہ مجھے تو کچھ معلوم نہیں، میں تو سو رہا تھا کہ کسی نے مجھے باندھ دیا۔ سب نمازی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو دادا حضور جو معاملہ سمجھ چکے تھے، کہنے لگے کہ قاری صاحب بغیر استاد کے جن قابو کرنے میں جان کا خطرہ رہتا ہے۔ اب آپ کو جو سزا ملی ہے امید ہے کہ آپ کا شوق اتر گیا ہو گا۔ قاری صاحب کہنے لگے کہ مجھے معاف کر دیں، آئندہ اس کام سے توبہ کرتا ہوں۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 875
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں