محترم حضرت حکیم صاحب السلام و علیکم ! میں تقریبا ً سات سال سے عبقری کی قاری ہوں ٹھیک سے لکھنا نہیں آتا اس لئے کبھی کچھ لکھ نہیں سکی اللہ تعالیٰ آپ کو صحت اور زندگی عطا فرمائے آمین ۔بہت سے لوگوں کی زندگیاں آپ کے درس سے بدل گئی ہیں آپ کو ہر وقت دل سے دُعا دے رہے ہیں۔
پاک بھارت جنگ میں قدرت ہمارے ساتھ تھی:1965 ء کی پاک بھارت جنگ کا واقعہ لانس نائیک حق نواز نمبر 2217121 کے زبانی ۔ میں اپنے گائوں پھتی تحصیل حضرو ضلع اٹک میں دو ماہ کی چھٹی پر آیا ہوا تھا ۔ بارڈر پر پاک انڈیا کی لڑائی شروع ہو گئی تھی ۔ مجھے 27 اگست 1965 ء کو ٹیلی گرام میں کہا گیا کہ جتنا جلدی ہو سکتا ہے یونٹ میں رپورٹ کریں‘ میں نے اس ہی وقت تقریبا ً دن 1 بجے کے قریب اپنا سامان لیا اور اپنے والدین کی اجازت سے اپنے یونٹ میں جانے کے لئے چل پڑا ۔ اس وقت میری یونٹ نمبر 3 کمانڈو بٹالین چراٹ میں تھی اور میں تقریبا ً 6 بجے پبی ریلوے سٹیشن پہنچ گیا ۔ جہاں سے میں کمپنی کے لوگوں کے ساتھ چراٹ رات تقریبا ً 12 بجے پہنچ گیا ۔ رات کو آرام کیا اور صبح کو کمپنی کمانڈر نے بولا کہ آپ تیار ہو جائیں صرف ایک جوڑا کپڑوں کالے لو اور یونیفارم پہن لو‘ باقی سامان آپ کو پشاور میں مل جائے گا‘ ساتھیوں کا جذبہ یہ تھا کہ لڑائی لاہور اور سیالکوٹ میں ہو رہی ہے اور ہم لوگ پشاور کیا کریں گے مگر فوج میں آرڈر ہوتا ہے‘ ہم لوگ گاڑیوں میں بیٹھ گئے اور پشاور کے لئے روانہ ہو گئے ۔ ہماری کمپنی ابراہیم کی اس وقت نفری 70 کے قریب تھی ہم تقریبا ً ڈیڑھ بجے پشاور پہنچ گئے ۔ ہر آدمی کی خواہش تھی کہ کب ہم لوگ بارڈر پر جائیں گے اور دشمن کو سبق سکھائیں گے‘ ہم کو پشاور سے لڑائی میں استعمال ہونے والا سامان مل گیا جس میں ایک ایمنیشن اسلحہ اور بارود شامل تھا ۔ خبریں آ رہی تھیں کہ انڈیا نے لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کر دیا ہے اس وقت پوری کمپنی کا جذبہ حیران کن تھا ہر آدمی کمپنی کمانڈر سے پوچھ رہا تھا کہ سر آپ ہم کو کب لے جا رہے ہیں ۔ کمپنی کمانڈر نے کہا کہ ہر آدمی کے پاس 28 عدد ٹی این ٹی ہونا چاہیے جس کے بعد ہم بم بنانے لگے جب یہ کام مکمل ہوا تو ہم کو آرڈروں کے لئے بلایاگیا ہم کو بتایا گیا کہ آپ انڈیا کے اندر جانے کے لئے تیار ہو جائیں جس کے لئے ہم کو نقشہ دیا گیا ہم کو بتایا گیا کہ آپ لوگ انڈیا میں ہلواڑہ ایئر پورٹ پر ڈراپ ہوں گے اس وقت کمپنی کے لوگوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور اسی وقت رات تقریبا ً 10 بجے ہم کو گاڑیوں میں بیٹھا کر پشاور ایئر پورٹ پہنچایا گیا ۔ ایئر پورٹ پہنچنے کے بعد ہم کو پیرا شوٹ پہن کر تیار ہو جانے کو کہا گیا جس کے بعد ہماری پوری کمپنی کو سامان کے ساتھ 130 ۔ C طیارے میں بٹھایا گیا اس وقت بھی نعرہ تکبیر کے ساتھ فضا گونج اٹھی جس کے بعد طیارے کے دروازے کو بند کر دیا گیا ۔ طیارے میں موجود پائلٹ نے ہم تمام لوگوں کو السلام و علیکم کہا اور ساتھ ہی بتایا کہ ہم لوگ ان شا ء اللہ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد اپنی پاک سر زمین کو چھوڑ کر انڈیا کی حدود میں داخل ہو جائیں گے ۔ اس کے بعد یہ ترانہ شروع کر دیا کہ ’’اے مرد مجاہد جاگ زرہ ہے اب وقت شہادت ہے آیا ‘‘ اس وقت جہاز کے اندر بھی نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند ہوتی رہیں ۔ اس کے بعد پائلٹ کی طرف سے آواز آئی کہ میرا جہاز انڈیا کی حدود میں داخل ہو چکا ہے اور ساتھ ہی طیارے کی تمام لائٹیں آف کر دی اور تمام دروازے کھول دیئے اور جہاز کو نیچے لے جایا گیا ہم لوگوں کو جہاز کے اندر سے باہر درخت نظر آتے تھے جب جہاز ہلواڑہ ایئر پورٹ کے قریب آیا تو اس وقت پائلٹ نے گرین لائٹ آن کر دی اور کمپنی کمانڈر کو کہا کہ کتنی بلندی سے وار جمپ کرتے ہو انہوں نے کہا کہ 1300 فٹ کی بلندی سے اور پوری کمپنی نے جہاز سے باری باری چھلانگ کر جہاز سے باہر آ گئے اور ہمارے کچھ لوگ ہلواڑہ گائوں کے اوپر بھی گرے اور وہاں پر شور مچ گیا کہ پاکستان کے کمانڈو آ گئے اور وہاں پر بھی ہمارے لوگ گائوں والوں کے ساتھ لڑے اور کچھ جوان مکانوں پر گرنے سے شہید ہو گئے اور وہاں پر بھی ہلواڑہ گائوں کا کافی نقصان کیا اور اس کے بعد ہم اکٹھے ہو کر ہلواڑہ ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہو گئے ۔
کیپٹن غلام احمد کے ساتھ اس وقت ہم 20 لوگ اللہ تعالٰی کی مدد سے ہلواڑہ ایئر پورٹ کے اندر داخل ہوگئے اور وہاں پر ایک بڑے درخت کے نیچے کیپٹن غلام احمد نے بتایا کہ بیٹا یہ جہاز جو وہاں پر کھڑے ہیں کچھ دیر بعد یہ جہاز پاکستان میں بمباری کے لئے جائیں گے ان میں سے کوئی بھی جہاز سلامت نہیں رہنا چاہیے۔ اس کے بعد ہم لوگ ان جہازوں کی طرف روانہ ہو گئے اور ٹی این ٹی ایکسپلوزر کے چارج اور بارود کے ساتھ ان جہازوں پر حملہ کر دیا جس سے 24 کے قریب جہازوں کو آگ لگا دی اور جہازوں کو تباہ کردیا۔ اس وقت فائر بھی ہو رہے تھے لیکن اللہ تعالٰی نے ہماری مدد کی ۔ ہمارے کافی لوگ شہید ہوگئے تھے کچھ ہی دیر بعد ہماری ایئر فورس کے جہازوں نے وہاں پر بمباری کی اور جو جہاز باقی تھے ان کو بھی تباہ کردیا ہم لوگ ایئرپورٹ سے نکل کر قریب ہی فصلوں میں چھپ گئے اس وقت ہم چار آدمی تھے جو خود حق نواز ‘ ماما خان افضل ‘ فضل ودود ‘ حوالدار پیر بادشاہ پورا دن وہاں پر گزارا ۔ رات کو باہر نکل آئے اور نہر سے پانی پیا اور چل پڑے وہاں سے ہم لوگ انڈیا کے گائوں شجاع آباد گئے وہاں پر ایک گاڑی کھڑی تھی پیر بادشاہ نے مجھے کہا کہ جائو دیکھو گاڑی اسٹارٹ ہوسکتی ہے کہ نہیں میں نے اس کو اسٹارٹ کیا تو وہ ہو گئی ہم چار آدمی اس میں سوار ہو گئے وہاں سے مغرب کی طرف روانہ ہوئے لیکن جب ہم انڈیا کے گائوں کوٹ کاپورہ آئے تو اس گاڑی میں پٹرول ختم ہو گیا اور اس کو اسی جگہ چھوڑ کر پیدل چلنا شروع کردیا جب ہم ایک میل گئے تو راستے میں ہمیں اپنے لوگ مل گئے جن میں چن پیرشاہ‘ مختیار پہلوان اور دوست علی شاہ شامل تھے ان میں چن پیر شاہ اور مختیار زخمی تھے۔ ان کے ملنے سے ہماری تعداد سات ہو گئی۔ صبح ہونے والی تھی ہم لوگ وہاں جنگل میں چھپ گئے مگر ہم لوگوں کو کسی آدمی نے دیکھ لیا اور جا کر گائوں والوں کو بول دیا۔ گائوں والوں نے جا کر فوج کو بتایا فوج نے ہم کو گھیرے میں لے لیا اور لائوڈ سپیکر سے اعلان کیا کہ آپ ہتھیار پھینک دیں اور ساتھ ہی فائرنگ شروع ہو گئی۔ ہمارے ساتھ اللہ تعالٰی کی مدد تھی۔ چن پیر شاہ اور مختیار نے ہم کو بولا کہ آپ نکل جائو ہم زخمی ہیں چل نہیں سکتے ہم ان کا مقابلہ کرتے ہیں کافی دیر بعد فیصلہ کیا کہ ہم ادھر سے نکل جائیں انہوں نے دشمن کا بھرپور مقابلہ کیا اور شہید ہو گئے۔ ہم پانچ آدمی وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے راستے میں بند گوبھی اور چھلیاں کھا کر گزارہ کرتے رہے مگر بدنصیبی کہ رات کو ہم لوگوں نے بھوک کی وجہ سے تمبے کھالئے اور رات کو اندھیرے کی وجہ سے ہم کو معلوم نہ ہوسکا جس کی وجہ سے ہم کو جنگل میں خونی پیچس لگ گئے جس کی وجہ سے دوست علی شاہ شہید ہوگئے اور ہم بھی چلنے کے قابل نہ رہے ۔
وہاں پر موجود مال چرانے والے نے ہم لوگوں کو دیکھ لیا اور ساتھ ہی فیروز پور چھائونی کو اطلاع دی وہاں سے سکھ رجمنٹ کے سپاہیوں نے ہم کو پکڑلیا اور ہم لوگوں کو فیروزپور چھائونی میں لے آئے پہلے تو خوب مارہ پیٹا۔ وہاں پر موجود سکھ میجر نے ہمارا علاج کروایا۔ لڑائی بند ہوچکی تھی ‘ سات دن کے بعد جس مکان میں ہم لوگ قید تھے اس کی پچھلی دیوار گر گئی جس کی وجہ سے ہم چار آدمی وہاں سے بھاگ گئے وہاں سے پاکستان کو داخل ہونے کے لئے تقریباً 10 میل کا فاصلہ تھا اور ایک دریا عبور کرنا تھا۔ ہم لوگ دریا کے ساتھ جنگل میں چھپ گئے ہمارے ساتھ کمانڈو پیر بادشاہ تیرانا نہیں جانتے تھے مگر ہم لوگوں نے جنگل میں ایک سوکھی لکڑی تلاش کی اور اس پر بیٹھا کر پیر بادشاہ کو دریا عبور کروایا اور پاکستان میں داخل ہو گئے ۔
پاکستان میں داخل ہونے کے بعد پاکستان کی رینجرز نے ہم کو پکڑ لیا ہم نے ان کو کہا کہ ہم پاکستانی ہیں لیکن انہوں نے ہماری باتوں کا یقین نہ کیا اور ہم کو مارا پیٹا کیونکہ ہماری حالت سکھوں والی تھی۔ مگر ہماری خوش قسمتی تھی کہ وہاں پر موجود جو کیپٹن تھا اس کا نام شمس تھا اور وہ میرا شاگرد تھا میں نے اس کو پہچان لیا۔ میں نے اس کو اپنا تعارف کروایا تو وہ مجھے پہچان گیا اور ہم 1 ماہ 10 دن کے بعد پاکستان واپس آگئے ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں