جو لوگ مزاجاََ بہت زیادہ غصیلے،آگ بگولہ ہونے والے اور ذہنی دبائو کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں ان میں دل کی بیماریاں،دمہ اور دیگر خطرناک عارضے بھی ہوتے ہیں
عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ پھیپھڑے کی طاقت عام طور پر کمزور ہو جاتی ہے،لیکن اگر کسی کے مزاج میں غصہ اور جارحیت زیادہ ہو تو پھر پھیپھڑے کی طاقت تیزی سے گھٹنی شروع ہو جاتی ہے،اس بات کا انکشاف امریکہ میں کی گئی ایک تصدیق میں کیا گیا ہے جس میں 45 سے 86 سال کی عمر کے 670 مردوں کو شامل کیا گیاتھا۔ یہ آٹھ سالہ تحقیقی منصوبہ تھا ،جس میں یہ دیکھا گیا کہ ریسرچ کے آغاز میں جن مردوں میں غصہ کا عنصر زیادہ تھا،اس تحقیق کے اختتام تک ان کے پھیپھڑے نمایاں طور پر کم تر کار گردگی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ یہ پہلی تحقیق ہے جس سے بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ غصہ اور مشتعل مزاجی سے پھیپھڑے کی نالیوں کی کارگردگی کمزور ہو جاتی ہے،معمر افراد کا غصہ کرنا زیادہ نقصان ہوتا ہے،اور اس طرح ان کی سانس بھی اُکھڑ سکتی ہے،اس سلسلے میں دیگر عوامل کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا گیا مثلاًسگریٹ نوشی سے بھی پھیپھڑے کی طاقت متاثر ہوتی ہے،تاہم دیکھا گیا کہ غصہ اور جارحیت سے سب سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔یہ بھی نوٹ کیا گیا جو لوگ مزاجاََ بہت زیادہ غصیلے،آگ بگولہ ہونے والے اور ذہنی دبائو کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں ان میں دل کی بیماریاں،دمہ اور دیگر خطرناک عارضے بھی ہوتے ہیں،دیگر جائزوں میں یہ بھی دیکھا گیا کہ جن لوگوں کے پھیپھڑے کمزور ہوتے ہیںوہ سانس کی نالیوں میں رکاوٹ کی بیماریوں کا بھی شکار ہو سکتے ہیں۔ منفی جذبات سے جسم کا حیاتاتی عمل تبدیل ہو جاتا ہے،اور اس کی وجہ سے بیماریوں سے حفاظت کا قدرتی جسمانی نظام اتھل پتھل کا شکار ہو جاتا ہے،اعصابی اور ہارمونی عمل متاثر ہوتا ہے،جس سے اعضاء بالخصوص پھیپھڑوں میں خطرناک حد تک سوزش پیدا ہوتی جاتی ہے، اسٹریس کے متعلق عوامل جسم کے مامو نی نظام کو سست کر دیتے ہیں جس سے بیماریوں اور جسمانی خرابیوں کا دروازہ کُھل جاتا ہے،اگرچہ انہوں نے کہا کہ فی الحال یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ شدید غصے کی کیفیت سے جسم کے کن کن اعضاء پر منفی اثرات پڑتے ہیں لیکن بہت زیادہ گرم مزاجی اور عمر کے ساتھ پھیپھڑے کی کمزور کارگردگی کے درمیان تعلق کو حالیہ تحقیق سے ثابت کیا جا چکا ہے۔
آپے سے باہر ہونا کڑھنا چھوڑئیے
بہت سے لوگ یونہی ذرا سی بات پر بھڑک جاتے ہیں،ان کی یہ عادت زندگی مشکل کر دیتی ہے،قرآن شریف میں ایک جگہ آیا ہے’’اپنے آپ کو مشتعل ہونے سے باز رکھو‘‘جدید دور کے لوگوں کے لئے یہ بڑی جامع نصیحت ہے۔جب ہمارہ ذہن ایک مسئلے سے دوسرے مسئلےتک بڑی تیز رفتاری سے کام کرتا ہے ،تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ذہن میں گڑبڑ پیدا ہونی شروع ہوتی ہے،اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے جذبات مشتعل نہ ہوں اور ہم آپے سے باہر ہونا چھوڑ دیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ جدید زندگی کی رفتار کو مدھم کر دیا جائے۔روح کا سکون اس وقت تک ممکن ہے کہ جب تک زندگی کی تیزرفتاری کو مدھم نہ کر دیا جائے،خدائی ذات کو زندگی کی اتنی تیز گامی پسند نہیں یہاں وہ آپ کا ساتھ نہیں دے گا،وہ صاف کہتا ہے کہ اگر تمہیں اس قدر احمقانہ رفتار سے چلنا ہے تو خود ہی چلو،جب تم تھک جائو گے تو میں تمہارے زخموں پر مرہم رکھوں گا،لیکن اگر تم زندگی کی اس وحشیانہ رفتار کو آہستہ کر کے میری ساتھ چلو تو میں تمہاری زندگیوں کو مالا مال کر دوں گا، پرُامن زندگی بسر کرنے کی رفتار وہی ہے ہمیں بھی اس رفتار سے زندہ رہنا چاہیے،قرآن پاک میں ایک جگہ لکھا ہے، ’’ہر روز کسی تنہا اور خاموش جگہ پر بیٹھ کر تھوڑی دیر آرام کیا کرو‘‘۔ اگر آپ کسی دبائو یا جلد بازی کی بجائے آرام اور تحمل سے کام کریں،تو آپ منزلِ مقصود پر جلدی پہنچیںگے،اللہ کی ذات کی نگرانی کے تحت اور اس کی رفتار پر چلنے سے آپ کبھی نقصان نہیں اُٹھاسکتے،اگر آپ اس کو ایک مرتبہ کھو دیںگےتو شاید آپ کی تمام عمر اندھیرے میں بھٹکتے گزر جائے،پس آپ ذہنی سکون رکھنے کی مشق کریں ۔
اپنے آپ سے کہتے رہا کریں ’’جلد بازی کی کیا ضرورت ہے،تحمل مزاجی سے انسان کا ہر کام خودبخود ختم ہو جاتا ہے‘‘
دن میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور دس یا پندرہ منٹ اپنا کام چھوڑ دیں ،اور کسی خاموش جگہ بیٹھ کر ان خیالات کو اپنے ذہن سے گزرنے دیں اسی سے آپ کے ذہن کو سکون ملے گا،آپ خود کو تازہ دم محسوس کریں گے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بہت سی جسمانی تکالیف کا علاج اس امر میں پوشیدہ ہے کہ لوگ کُڑھنا اور غصے میں آنا چھوڑ دیں،اس سلسلے میں آپ کے سامنے چند تجاویز ہیں،مثلاََ پائوں کو زمین پر زور سے مار کر نہ چلیں،اپنے ہاتھوں کو مت مسلیں،اونچی آواز میں بات نہ کریں،کوئی کام جلدی نہ کریں کیونکہ جذباتی ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی جسمانی حرکت بھی تیز ہو جاتی ہے،بیٹھتے وقت آرام سے بیٹھیں، بات دھیمے لہجے میں کریں،اپنے آپ پر قابو پانے کیلئے ضروری ہے کہ آپ بڑے ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کی عادت ڈالیں،کیونکہ آپ کی سوچ کا آپ کی جسمانی حرکت کا بڑا گہرا تعلق ہے ،اگر آپ کے ذہن میں غم و غصہ کے خیالات ہیں تو اس کے ساتھ ہی آپ کی جسمانی حرکت بھی تیز ہو جائے گی،آپ کے خون کا دورہ بڑھنے لگے گا،یہ بھی صحیح ہی کہ اگر آپ کو آپ کے جسم پر قابو ہے توآپ کا ذہن بھی قابو میں آسکتا ہے،ذہنی سکون حاصل کرنے کے معاملے میں پہلا قدم یہ ہے کہ آپ اپنے جسمانی ردعمل کو تنظیم میں لائیں،آپ حیران ہوں گے کہ یہ عمل آپ کی طبیعت کی تلخی کو کس درجہ کم کر دیتا ہے اور جب طبیعت کی تلخی جاتی رہتی ہے،تو پھر جھنجھلاہٹ یا آپے سے باہر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،اس سے آپ کی تعمیری قوتیں زائل ہونے سے بچ جائیں گی،آپ اپنے آپ کو تھکا تھکا محسوس کرنے کی بجائے تازہ دم پانے لگیں گے ۔
ذیل میں ایسی تجاویز ہیں جو انسان کے غصے کے رجحان کو کم کر سکتی ہیں۔1:کسی آرام کرسی پر بڑے اطمینان سے بیٹھ جائیں،اپنے جسم کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دیجئے،یوں محسوس کریں کہ آپ کے جسم کا ہر حصہ آرام کر رہا ہے،اپنے آپ کو یقین دلائیں کے آپ کا سارا جسم بالکل آرام کر رہا ہے۔2:اپنے ذہن کو ایک ایسی جھیل تصور کریں،جس کی سطح پر ہوا کے تیز جھونکوں نے ہلچل پیدا کر رکھی ہو،پھر یوں سمجھیں کہ ہوا تھم گئی ہے اور جھیل کی سطح بالکل پرسکون ہو گئی ہے۔3:تین سے چار منٹ تک ایسےپُرسکون مناظر کے متعلق سوچیں جن سے آپ کبھی لطف اندوز ہو چکے ہوں،مثلاً کوئی پہاڑی مقام ،پھولوں سے بھری ہوئی کوئی وادی۔امید ہے کہ ان تجاویز پر عمل کر کے آپ جلنا کڑُھنا چھوڑ کر اچھی زندگی گزاریں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں