بس بس بس ! اب مزید ہمت طاقت نہیں مجھ میں گناہ کرنے کی! آخر کب تک گناہ کرتے رہو گے۔ 35سال کی زندگی میں گناہ زیادہ اور نیکیاں کم ہیں تمہارے جسم نے جو جو گناہ لذت حاصل کرنے کیلئے کئے ہیں وہ تم جانتے ہو اور تمہارا رب تم سے بھی اچھی طرح ان گناہوں کو جانتا ہے۔ میں نماز پڑھ رہا تھا اور میرے ذہن میں یہ سوالات گردش کر رہے تھے۔ اور بار بار ایک ہی خیال آرہا تھا کہ خدانخواستہ اگر توبہ کے آسرے میں اس جسم سے یہ روح پرواز کر جائے تو تمہارا کیا حال ہو گا اور یہ خیال کیوں آرہا تھا کیونکہ کل مورخہ 28اکتوبر بروز منگل 5:30 منٹ پر شدید قسم کا زلزلہ آیا۔ چونکہ میں کافی دیر سے سویا تھا اس لئے زلزلے کے پہلے جھٹکے پر میری آنکھ نہیں کھلی دوسرے جھٹکے پر بھی میری آنکھ اس طرح کھلی کہ مجھے اپنی بیوی کی کلمہ پڑھنے کی آواز سنائی دی۔ میں بھی اٹھتے ہی زور زور سے کلمہ پڑھنے لگا۔ پھر آہستہ آہستہ زلزلہ ختم ہوا۔ لوگ گھروں سے باہر نکل آئے، مسجدوں میں اذانیں ہونے لگیں خیر وہ رات جس طرح گزری بیان نہیں کر سکتا۔
صبح ہمارے شہر میں ہر ایک شخص کی زبان پر ایک ہی الفاظ تھے۔ جدھر دیکھو رات والے زلزلے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ خیر ہم لوگ سمجھے کہ جیسے ہر دفعہ زلزلہ آتا ہے پھر اس کے بعد امن ہو جاتا ہے اس دفعہ بھی اسی طرح ہو گا۔ خبروں میں تو ضلع زیارت کے بارے میں سن کر بہت دکھ ہوا جو کہ زلزلہ کی لپٹ میں سر فہرست تھا دن گزر گیا۔عصر کے وقت دکان کے ملازم نماز پڑھنے چلے گئے اور میں دوست سے موبائل فون کے بارے میں باتیں کرنے لگا کہ اچانک زمین ہلنے لگی اور دیواریں کانپنے لگیں۔ جب زلزلہ کی شدت کم نہیں ہوئی تو دوست نے کہا کہ دکان سے باہر آجاﺅ کیونکہ شدت کم ہونے کے بجائے اور بڑھ رہی تھی اور دکان میں جو اشیاءالماریوں میں رکھی تھیں وہ گرنا شروع ہو گئی تھیں تو ہم لوگ باہر روڈ پر نکل آئے۔ باہر کا منظر عجیب وغریب تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بجلی کے کھمبے زمین پر گر جائیں گے اور بلڈنگیں تو اس طرح سے جھول رہی تھیں کہ جیسے انسان جھولا جھولتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ لوگ اپنی دکانیں جو کہ قیمتی اشیاءسے بھری ہوئی تھیں اور جن میں زیادہ تر دکانیں جیولرز حضرات کی تھیں، چھوڑ کر باہر روڈ پر بھاگ رہے تھے کہ جیسے قیامت آگئی ہو۔ میرے ذہن میں ایک سوال اٹھنے لگا کہ کیا یہ وہی زر وجائیداد ہے جس کے پیچھے بھائی بھائی کو قتل کر دیتا ہے۔ باپ بیٹے کو، بیٹا باپ کو قتل کر دیتا ہے۔ جس کیلئے ہم صبح سے شام تک جھوٹ بول کر رزق کماتے ہیں؟ جس کی وجہ سے ہم اپنی آخرت بھول گئے ہیں۔ آج ہم انسان ان تمام چیزوں کو چھوڑ کر کیوں بھاگ رہے ہیں اور اس کے بعد ایک عالم کے یہ الفاظ کانوں میں گونجنے لگے۔ ”قیامت کی گھڑی ایسی سخت ہو گی کہ دکاندار اپنی دکانداری بھول جائے گا۔ تاجر اپنی تجارت بھول جائے گا صدر اپنی صدارت، وزیر اپنی وزارت، ناچنے والی ناچ، گانے والے گانا، دودھ پلانے والی مائیں دودھ پلانا بھول جائیں گی“۔ واقعی بالکل ویسا ہی تھا۔ بس جب زلزلہ رکا تو اس کے فوراً بعد دکانیں وغیرہ بند ہو گئیں۔
لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے اور لوگوں میں خوف وہراس اتنا بڑھ گیا کہ لوگ رات کے وقت کھلے آسمان کے نیچے ٹھہرے اور رات بھر نہیں سوئے کہ کہیں زلزلہ دوبارہ نہ آجائے۔ اس دن بھی رات کو کم از کم چار جھٹکے محسوس ہوئے۔ مساجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی۔ لوگوں نے سچے دل سے توبہ کی اور میں بھی مصلّے پر بیٹھ کر اپنے گناہوں کے بارے میں سوچتا رہا اور اللہ کا شکر اداکرتا رہا کہ اس نے توبہ کی مہلت عطا کر دی۔ اگر کہیں خدانخواستہ بغیر توبہ کے دنیا سے چلے جاتے تو ہمارا کیا بنتا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہر مسلمان کو سچی توبہ کی توفیق نصیب فرمائیں اور ہمیں اس توبہ پر استقامت عطا فرمائے-
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 815
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں