ایک چھوٹے سے سوراخ میں ایک آباد دنیا کی سیر کرواتے جس میں سکول‘ بچے اور ویرانے میں آباد گھر‘ جہاں گھر کے سارے رشتے ہوتے میں نے اپنے ہوش و حواس میں سب دیکھے ہیں۔میٹرک کے بعد میں جب کالج میں گئی تو وہاں بھی یہی حال تھا
بچپن سے جنات کا شکار بنی رہی!
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! تقریباً پانچ مرتبہ آپ کو خط لکھنے کی کوشش کی اور پھر جلا دیتی‘ نجانے میری بات کا کوئی یقین کرے نہ کرے۔بات سیدھی سی ہے جنات نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا‘ میں خودکشی کا سوچ رہی ہوں‘ میں بچپن سے ہی نجانے کیوں جنات کا شکار بنتی رہی ہوں‘ مسجد کے مولوی صاحب دم وغیرہ کرتے تو چند دن سکون رہتا ‘ پھر بعد میں سلسلہ شروع ہوجاتا۔ غرض مجھے جنات نے کبھی اکیلا نہیں چھوڑا۔ایک چھوٹے سے سوراخ میں ایک آباد دنیا کی سیر کرواتے جس میں سکول‘ بچے اور ویرانے میں آباد گھر‘ جہاں گھر کے سارے رشتے ہوتے میں نے اپنے ہوش و حواس میں سب دیکھے ہیں۔میٹرک کے بعد میں جب کالج میں گئی تو وہاں بھی یہی حال تھا‘ نیم خوابی کی حالت میں میں نے جنات کو دیکھا‘ جب بھی کسی اور پر جنات کا حملہ ہوتا‘ باقیوں سے لڑتے جھگڑتے‘ لیکن مجھے کچھ نہ کہتے اور میں بھی جنات کو بہت اچھا اور مخلص مخلوق کہتی ۔
یااللہ! جلدازجلد میری شادی ہوجائے
پھر مختصر یہ کہ میری تعلیم مکمل ہوئی اور میں گھرداری میں مصروف ہوگئی‘ میرے رشتے آنا شروع ہوگئے‘ مجھے عجیب عجیب سے خواب آتے‘ کوئی شخص مجھے چھوتا‘جب میں گھبرا کر اٹھ بیٹھتی تو دیر تک اسی حالت میں رہتی‘ میں رو رو کر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتی‘ یااللہ! جیسے بھی ہو میری بس جلد ازجلد شادی ہوجائے‘ اس گناہ سے بچالے۔مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ سب جنات میرے ساتھ کررہے ہیں‘ پھر خدا خدا کرکے میری منگنی ہوئی‘ نکاح بھی ہوگیا‘ اب میرے ساتھ مسئلہ یہ ہوا کہ میرے ذہن میں اپنے خاوند کے لیے نفرت اور عیب ہی عیب نظر آنے لگے‘ بس جیسے بھی ہو یہ رشتہ توڑنے کا سوچتی اور کیوں سوچتی یہ بھی معلوم نہ تھا۔ دوسری طرف میں سوچ کر خود کو سمجھاتی کہ ایسا ہرگز نہیں سوچنا‘ منگنی کے بعد میری نفرت بڑھتی رہی اور غیرمعلوم طریقے سے اندر ایک آگ تھی جو بڑھ رہی تھی۔ بعض اوقات ایسا لگتا کہ کوئی میرا گلا دبا رہا ہو اور منگنی توڑنے کا کہہ رہا ہو۔ یہاں تک کہ میری سانس تک بند ہوجاتی تو چھوڑ دیتا۔ میں اپنے اندر کی اس جنگ سے تھک گئی‘ ایک طرف خود کو سمجھاتی اور شرم کی وجہ سے کسی کو کچھ نہ کہہ سکتی تھی۔ میں اکیلی ایک مولانا صاحب کے پاس گئی‘ ان سےکچھ باتیں جو شرم کی وجہ سے نہ کہہ سکی مگر یہ کہا کہ جب سے منگنی ہوئی ہے مجھے اپنے منگیتر سے شدید بے وجہ نفرت ہونے لگی ہے‘ میری حالت کہ میری سانس بند ہوجاتی ہے اور جسم ٹوٹ رہا ہے۔ مولانا صاحب نے حساب لگا کہ کہا کہ جنات کا تمہارے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے‘وہ تمہیں اپنی بیوی بنا کر رکھنا چاہتے ہیں‘اور جنات ہرگز نہیں چاہیں گے کہ تمہاری شادی کسی انسان کے ساتھ ہو۔ یہ وہ بات تھی جو قیامت کی طرح میرے کانوں میں گونج رہی ہے اور میں اب جینا نہیں چاہتی۔
یہ تو اچھی بات ہے ہم تمہیں پسند کرتے ہیں!
میں اپنی بڑی بہن کے ساتھ عبقری کے روحانی اجتماع میں شرکت کی تیاری کررہی تھی‘ تیاری کرنے کے بعد میں سوگئی کہ صبح اٹھ کر روانگی ہوگی۔ رات کو خواب میں دیکھا کہ میں اور میری بڑی باجی کسی سرنگ جو کہ شاید کوئلے کی تھی‘ نامعلوم ہم کس کو ملنے جارہے ہیں لیکن وہ سب جنات کی مخلوق ہے‘ اب میں خود کو اکیلا دیکھتی ہوں ان سب کےبیچ میں سےایک شخص کہتا ہے کہ دیکھو ہم تو تمہیں کچھ بُرا نہیں کہتے یہ تو اچھی بات ہے کہ ہم سب تمہیں پسند کرتے ہیں یہ تو بڑی بزرگی کی بات ہے‘ اور ساتھ ہی دو تعویذ دیتے ہیں اورایک کالےرنگ کے جن کو ڈانٹتا ہے کہ تم نے کبھی ٹھیک کام نہیں کیا‘ جاؤ میرے سامنے مت آنا۔ میں خاموشی سےوہاں سےا ٹھتی ہوں وہ اس سرنگ میں سے باہر نکلنے کیلئے مجھے ایک ساتھی دیتا ہے راستے میں ایک بوڑھی جننی بیٹھی تھی اور کہہ رہی تھی کہ میرا شوہر مزدوری کرتا ہے اور ان پیسوں کو غریبوں میں بانٹتا ہے تو میں نے کہا کہ اچھا تو میری مدد کیوں نہیں کرتا؟ اس عورت نے کہا وہ صرف غیرملکیوں کی مدد کرتا ہے‘ پھر وہ جننی مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے میرا ہاتھ اتنی زور
سے دباتی ہے کہ جیسے میرا ہاتھ ٹوٹ جائے ۔ میں اس سرنگ سے باہر آئی تو پہاڑ دیکھتی ہوں‘ وادیاں ہیں‘ ایک جگہ جنات کی دو قومیں آپس میں لڑرہی ہیں‘ میری آنکھ کھل گئی۔ ان جنات کی کارستانیوں کی وجہ سے مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں کیا کروں؟ خودکشی کرلوں؟ مرجاؤں؟ کہیں بھاگ جاؤں؟ پھر خیال آتا ہے کہ میرا شوہر مجھ سے بہت محبت کرتا ہے۔ میرےخاندان کی عزت کے بارے میں لوگ کیا کہیں گے۔ اے کاش! میں جنات کے چنگل میں نہ پھنستی۔ اے کاش میں انہیں پسند نہ آتی۔ میں بھی عام لوگوں کی طرح زندگی گزارتی‘ ہنستی کھیلتی‘ سہیلیوں سے گپیں لگاتی‘ اپنی منگیتر (شوہر) سے ڈھیروں باتیں کرتیں‘ اس کی سنتی اپنی سناتی مگر میں کچھ بھی نہ پاسکی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں