حکیم فیروزالدین اجملی رحمۃ اللہ علیہ ایک حدیث قدسی مبارکہ کا مفہوم اکثر بیان فرماتے کہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں: ’’جو قوم غورو فکر چھوڑ دے ہم اس کو نیست نابود کردیتے ہیں اور ان پر ایسی قوم مسلط کردیتے ہیں جو غوروفکر کی عادی ہو‘ مزید فرمان ہے جو غوروفکر کرتے ہں میں ان کی راہیں کھول دیتا ہوں‘‘ آج ہمارا بھی یہی حال ہے‘ ہمیں دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے اللہ پاک نے چنا‘ اسی وسیلے سے ہمیں عزت اور روزی دینے کا اہتمام فرمایا اور ہم اپنی ’’میں‘‘ میں گم ہوگئے۔ اسی لیے ہمارے یہاں ایجادات کا سلسلہ بند ہوگیا ہے۔ لاقانونیت اور مہنگائی کے مارے مریض و لواحقین حیران و پریشان ہیں۔ ان کو کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ ان کو درد کی دواء زخم کی مرہم نہیں ملتی۔ اپنے ملکی حالات دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ کہانی یوں ہی چلتی رہے گی۔ ہماری ایسی آوازیں صدابہ صحرا ثابت ہوں گی۔ ہم نے اپنے پچھلوں بزرگوں سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ ان کی اچھی روایات کو آگے نہیں بڑھایا۔ اپنی ڈھائی اینٹ کی مسجد بنالی یا اپنے کنوئیں تک محدود ہوگئے اور سمجھے کہ بس یہی ہمارا جہان ہے۔ میں اکثر علمی محفلوں میں دیکھتا ہوں کہ شرکاء میں سے اکثر کے پاس قلم کاغذ نہیں ہوتا۔ علمی باتوں کو اپنے اوپر سے گزارتے رہتے ہیں۔ نیند صرف ایک لفظ پر اُکھڑتی ہے ’’نسخہ‘‘ ان کو جسمانی اعضاء کی بناوٹ و افعال سے غرض کم تشخیص سے غرض کم‘ نسخے کی طلب و اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ ایسا معالج علاج کیا خاک کرے گا۔ مجھے تو یہ احساس ہونے لگا ہے اور اس کے شواہد بھی موجود ہیں کہ دیکھنے میں تو میں انسان ہوں لیکن بے رس‘ بے ذائقہ‘ بے فائدہ‘ نہ خالق کی پہچان نہ مخلوق کی‘ میں ایمان و یقین سے خالی ہوں اسی لیے نئی جہتیں مجھے نہیں سُوجھتی۔ بس میرا کاروبار چلے‘ پیسہ آنا چاہیے یہی میری زندگی کا مقصد ہے۔ دعائیں قبول کیوں نہیں ہورہیں‘ اللہ کی مدد کیوں نہیں اتر رہی۔ بہادری‘ مردانگی‘ احساس ذمہ داری‘ بھائی چارہ انسانیت کیا ہوتی ہے؟ اس کے لیے پاکستان بننے سے پہلے کی کتابیں اٹھا کر دیکھئے۔ جب سواری اور زندگی کی اتنی سہولتیں میسر نہ تھیں معالج حضرات کیا کیا مشقتیں اٹھاتے تھے؟ اور کیا ورثہ چھوڑ گئے ہیں؟ پاکستان بنے چھیاسٹھ سال ہوگئے ہیں۔ کسی مرض پر آج تک ایسی ایک کاوش سامنے نہیں آسکی جس سے انسانیت کو نفع پہنچے۔ ہماری نظر(باقی صفحہ نمبر31 پر)
( صرف اپنے نفع تک محدود ہے‘ تن آسانی و ہڈحرامی‘ علم سے دوری نے معاشرے اور خود ہمیں سفلاسافلین تک پہنچا دیا ہے۔ جب تک ایک دوسرے کی صلاحیتوں کو تسلیم نہ کیا جائے تو فائدہ لینا دینا ایک خواب ہی رہے گا بالفرض میں حکیم ہوں‘ میں مریض کو ڈاکٹر و فیزیو تھراپسٹ‘ ہومیو ڈاکٹر کے پاس جانا ضروری سمجھتا ہوں یا مشورہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس میں میری اور مریض کی بھلائی ہے۔ یہ جب ہی ہوگا جب تہہ دل سے میں ان کی صلاحیتوں کا تہہ دل سے اعتراف کرتا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کام وہ مجھ سے زیادہ بہتر کرسکتے ہیں اس بات کا ہمارے یہاں فقدان ہے اور یہ آپس کی ملاقاتوں کے ذریعے ہی ہوگا۔ رزق کا وعدہ اللہ کی عطا سے جڑا ہوا ہے۔ میرے رزق میں کمی نہ ہوگی جب صمیم قلب سے یہ آواز آئے گی تو علم و حکمت برکت کے دروازے کھلتے جائیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں