خواب کو نسلوں کیلئے سچا بنا: اے اللہ! اس مدد کو میرے لیے خیر کا ذریعہ بنا‘ اے اللہ جو خواب میں نےاور ایبک نے دیکھا اس کو سچ کردکھا اور اس سچے خواب کو میری نسلوں کیلئے سچا بنا۔ اس کے بعد محمود نے اپنے آنسو صاف کیے ایبک کہنے لگا :میں نے دیکھا کہ مصلے پر سجدے کی جگہ آنسوؤں سے تر تھی اور ایک ایک لمحہ‘ ایک ایک ساعت ‘ایک ایک گھڑی کی تاخیر اب ہم سے برداشت نہیں ہورہی تھی۔ محمود نے فوراً لشکر میں موجود مزدور منگوائے‘ اپنے وزیراعظم کو اٹھوایا جو کہ نیند میں تھا‘ محمود کا غلام ایازاور مزید دو خاص غلام اور مزدور کھدائی کررہے تھے۔محمود کی بے چینی: محمود کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ایک پل میں کھدائی مکمل ہوجائے حالانکہ مزدور بہت تیزی سے کھدائی کررہے تھے اور مٹی ہٹا رہے تھے لیکن ا س کے باوجود محمود خود مٹی ہٹانے میں شامل ہوگیا۔ وزیراعظم نے التجا بھی کی لیکن محمود نے سختی سے منع کردیا جب مطلوبہ کھدائی ہوگئی تو اس کے بعد شمال کی طرف کھدائی شروع کی جو کہ ایک غار کی شکل اختیار کرگئی تھی اور شمال کی طرف کھدائی کرنے کے بعد آخرکار کدال ایک سخت چیز سے ٹکرائی ‘محمود کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور زبان سے الحمدللہ نکلا اور تھوڑی ہی دیر میں ایک دم مٹی نیچے گری اور دروازے کا ایک حصہ بالکل واضح ہوگیا‘دروازہ بھی نظر آگیا اور تحریر بھی: اس کے بعد بہت احتیاط سے دروازہ پر لگی مٹی کو صاف کیا گیا‘ شمع دان ساتھ تھے‘ روشنی بالکل واضح تھی اور اس دروازہ کو اچھی طرح صاف کیا اور جب بالکل صاف کرلیا گیا تو اس کے اوپر ایک تحریر واضح نمایاں نظر آرہی تھی لیکن کوئی شخص اس تحریر کو پڑھ نہیں پارہا تھا‘ وہ نظر نہیں آرہی تھی کہ الفاظ کیا ہیں؟اب ایبک آگے بڑھا‘ شمع دان اور روشنی مزید واضح ہوئی تو ایبک نے عبرانی زبان کی تحریر کو فارسی زبان میں پڑھنا شروع کردیا جس کا ترجمہ مجھے اس جن نے بہت انوکھے انداز میں بتایا۔آپ سوچ نہیں سکتے وہ جن کیا تھا؟: قارئین! آپ سوچ نہیں سکتے وہ جن کیا تھا معلومات کا خزانہ، بلا کا علم اور قدرت کے انوکھے مظاہر اور مناظر اس کے سینے میں کیا دفن تھے اور کیا حیرت انگیز اس کے دل کی دنیا آباد تھی‘ کیا سوچوں کا سمندر تھا ‘اس کا دل وسیع اور گہرا ایسا کہ انسان گمان اور خیال میں بھی نہ پہنچ سکے۔ جن نے ایبک کی پڑھی تحریر پڑھنے سے پہلے ٹھنڈی سانس لی اور ٹھنڈی سانس لے کر آنکھیں بند کرکے خاموش ہوگیا جیسے کسی چیز میں کھوگیا تھوڑی دیر سناٹا رہا اس سناٹے کو توڑنے کیلئے میرے دوست جن نے اس کو بازو سے ہلایا اور کہا خیریت تو ہے کہاں کھوگئے؟ اتنا دلچسپ چشم دید واقعہ بتارہے اور آپ اتنی دیر میں کہاں کھوگئے تو کہنے لگا: کہ اصل بات یہ ہے کہ میں چاہ رہا ہوں کہ وہ تحریر میں آپ کو سناؤں جس تحریر کو میں نے پڑھا لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی اگر میں اس تحریر کو ویسے ہی پڑھتا ہوں آپ اس کو نہ سمجھ سکیں گے نہ پھر کہیں سمجھا سکیں گے لہٰذا میں اس تحریر کو آپ کی ہی زبان میں بتاتا ہوں۔ اس تحریر میں لکھا ہوا تھا:۔
خزانہ کے دروازہ پر لکھی تحریر کا ترجمہ:ابتدا اس کریم آقا کے نام سے جس کی کرسی بہت وسیع ہے‘ آسمانوں اور زمینوں کا رب ہے‘ اس کا اقتدار زمین و آسمان پر اتنا وسیع ہے کہ کوئی شخص اس کی وسعت کو پانہیں سکتا‘ ساری دنیا کے خزانے اس کی نظروں میں ہیں نہ کبھی پوشیدہ ہیں اور نہ کبھی اوجھل ہیں وہ علیم بھی ہے خبیر بھی ہے‘ ہر کائنات کے ذرے ذرے کا نظارہ کررہا‘ ہر چیز اس کی وسعت نظر میں ہے اور ہر چیز اس کی کمال طاقت میں ہے وہ بہت طاقتور ہے‘ اقتدار رکھتا ہے بہت قوت والا ہے‘ طاقت رکھتا ہے‘ وہ بہت سچا ہے جو کہتا ہے سو ہو جاتا ہے‘ اس کی وسعت‘ اس کی معلومات اسی کے علم میں ہیں‘ اس کے ہاتھوں میں بھی ہیں یہ ایک ذرہ جو اللہ نےاپنی قدرت اور طاقت سے اپنے ایک بندے کیلئے محفوظ رکھا کہ وہ بندہ آنے والے وقت میں اس ذرے کےذریعے اس رب کی قدرت اور طاقت کا اظہار کرے گا اور ایک آنے والے نبی ﷺ جس کو ہم نے ختم نبوت کی مہر دی اس کی رسالت کا پرچار کرے گا‘ یہ ذرہ جسے لوگ خزانہ کہتےہیں اتنا وسیع اور بغیر احاطہ کے ہے کہ محمود اور اس کی نسل در نسل‘ پچھلی تمام راج دہانی اور حکمرانی ‘اتنا بڑا خزانہ نہ پاسکی نہ پاسکے گی‘ خزانےکا مصرف:یاد رکھنا! خزانہ صرف اور صرف سات جگہوں پر خرچ کرنا ہے۔ پہلا حصہ: ایسے مجاہدین کے یتیم بچوں پر جن کے باپ محمود کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ دوسراحصہ: ایسے مساکین اور غرباء اور جو محمود کے لشکر کے راستوں میں آئیں۔ تیسراحصہ: ایسے معاشرہ کے گرے پرے لوگ جن کی جھونپڑیاں ٹپکتی ہیں جن کے گھر میں اسباب غذا نہیں۔ چوتھا حصہ: محمود کے لشکر میں ایسے سپاہی یا چھوٹے طبقے کے لوگ جن کو گھریلو طور پر تنگدستی کا سامنا ہوتا ہے۔ پانچواں حصہ: محمود اپنی فوج لشکر، تلوار، گھوڑے، ہاتھی اور اسلحے پر خرچ کرے۔ چھٹا حصہ: محمود اپنی ذات پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے۔ ساتواںحصہ : جہاں محمو د فاتح ہو وہاں قتل و غارت نہ کرے بلکہ اسی خزانے سے ان کو اتنا دے کہ وہ اپنا ملک‘ حکومت اور اقتدار چھننے کا غم بھول جائیں۔
خزانہ ملنے کے بول:یہ سات تحریریں اس دروازے پر موجود تھیں‘ پھر اس دروازہ پر اندر جانے کی پوری ترتیب لکھی ہوئی تھی کہ کس طرح اس دروازہ کے اندر جانا ہے ایبک سب کچھ پڑھ کر محمود اور اس کے ساتھ ایاز غلام اور دوسرا غلام مرزا اور وزیراعظم اور ایک صاحب اوربھی تھے ان سب کو پڑھ کر سنا رہا تھا پھرآخرکار ایبک نے کہا کہ میری تمام تحریر ختم ہوگئی ہے‘ اب آخر میں لکھا ہے کہ ہم نے محمود کو کچھ لفظ بتائے ہیں جو کے آخری نبیﷺ کی وحی کا بول ہے اور ایبک نے محمود کی طرف نظر اٹھائی اور نظر اٹھا کر دیکھا تو اس نے محمود کے ہونٹوں کو ہلتا ہوا پایا اور محمود مسلسل پڑھ رہا تھا وسع کرسیہ السموات والارض آخر کارمحمود نے اس کو پڑھتے پڑھتے بہت وقت لگایا‘ دروازہ نہیں کھل رہا تھا‘ بس محمود کےاندر وجدان کی کیفیت طاری ہوگئی‘ شاید وجدان کی کیفیت ہی مطلوب تھی‘ چاہے وہ ایک لمحہ‘ ایک دن ‘چند ہفتوں‘ چند مہینوں میں تھی آخر کار دروازہ کھلا اور خزانہ سامنے:بس وہ وجدان کی کیفیت تھی کہ اچانک ایسے آواز آئی جیسے کہ پہاڑ سے پتھر گرنے کی آواز ہو‘ یک دم سب سہم گئے اوپر دیکھا اوپر تو مٹی کا تودہ تھا پھر محسوس کیا کہ آہستہ آہستہ وہ دروازہ خودبخود کھل رہا اور دروازے کے کھلتے ہی حیرت کی انتہا اس بات کی ہوئی کہ شمع دان کی کوئی ضرورت نہیں‘ اندر شمع دان سے زیادہ روشنی اور اندر شمع دان سے زیادہ چمک اور طاقت ہے۔ بادشاہ نے سب سے پہلے ایبک کو آگے جانے کا اشارہ کیا‘ ایبک آگے گیا جونہی اس نے پہلا قدم رکھا روشنی اور بڑھ گئی ہر چیز ذرہ ذرہ واضح نظر آرہا تھا حالانکہ ایک رات‘ دوسرا غار‘ تیسرا غار کے اندر ایک پوشیدہ تہہ خانہ لیکن روشنی ایسی تھی جیسے چودھویں رات کے چاند کی روشنی بھی اس کے سامنے ماند پڑ جائے‘ سب اندر داخل ہوئے محمود کے ہاتھ میں مصلیٰ اور جائے نماز تھی جو اس نے خود اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے تھے‘ غلاموں نے اصرار کیا لیکن محمود نے انہیں نہ دیا۔ محمود کے رونے کا خلاصہ: اس نے جاکر اندر نفل پڑھے مناجات کیں اور بلک بلک کر رویا اور اس کے سارے رونے کا خلاصہ اور لب لباب یہی تھا کہ مولا تو نے مجھے اتنا بڑا خزانہ اپنے غیب کے خزانے سے عطا فرمایا ۔
یہ کیفیت قارئین اس دوست جن نے ایسے انداز میں بیان کی میں بھی رو رہا تھا‘ وہ خود بھی رو رہا تھا اور میرے ساتھ بیٹھے دوسرے تمام جنات رو رہے تھے حتیٰ کہ روتے روتے ہماری ہچکیاں اور سسکیاں بندھ گئیں اور ہمارا رونا اتنا زیادہ بڑھ گیا کہ ہم کچھ دیر تک تو بات کو آگے ہی نہ بڑھا سکے۔ وہ کیفیات شاید میں بیان نہ کرسکوں:دراصل اس دوست جن نے اپنی کیفیات اور حالات کو اس انداز سے بیان کیا کہ سننے والا میں تھا اور میرے دوست جنات تھے لیکن وہ کیفیت کچھ ایسی تھی کہ ہم جہاں حیران بھی تھے وہاں اللہ کی اس مدد پر اور محمود غزنوی کی اللہ کی بار بار مدد ملنے کے شکرانے پر یہ تمام ملی جلی کیفیات تھیں جو شاید میں بیان نہ کرسکوں اس پر ہم تمام رو رہے تھے اور روتے روتے ہماری کیفیات اور ہماری ہچکیاں بہت تسلسل سے اوربہت تسلسل سے بندھ گئی تھیں۔ دوست جن نے اپنا واقعہ آگے بڑھاتے ہوئے اپنے آنسو پوچھنتے ہوئے ہچکیوں کو سنبھالتے ہوئے اپنا بیان جاری کیا اور بولا کہ بہت دیر مناجات اور رونے کے بعد بادشاہ نے اپنا مصلی سمیٹا اور چاروں طرف نظر دوڑائی۔ خزانہ ہی خزانہ‘ دولت ہی دولت‘ ہیرے موتی: خزانہ ہی خزانہ تھا دولت ہی دولت تھی ایک دولت کا انوکھا انبار ایک کونے میں سونے کا ڈھیر‘ دوسرے کونے میں چاندی کا ڈھیر‘ تیسرے کونے میں ہیرے کا ڈھیر ‘چوتھے کونےمیں یاقوت کا ڈھیر ‘پھر درمیان میں زمرد‘ سچا عقیق‘ نایاب موتی‘ مروارید‘ اور سچے موتی اور عجیب و غریب قسم کی انوکھی چیزیں جس میں مشک، عنبر، لاجورد، یاقوت احمر، یاقوت اخغر اور کچھ ایسے قیمتی موتی تھے جو ہماری سمجھ میں نہ آئے۔ جوہری کو بلانے کا حکم: بادشاہ نے فوراً جوہری کو بلانے کا حکم دیا‘ جوہری کو بلایا گیا اور حکم یہ تھا کہ اس کو کہو جس حالت میں اس ہو‘ اسی حالت میں پہنچے‘ جوہری اسی حالت میں پہنچا‘ جوہری خزانہ کو دیکھ کر ہقا بقا رہ گیا‘ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں‘ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اتنا بڑا خزانہ‘ اس کا باپ دادا جوہری تھا اور اس کا باپ دادا محمود غزنوی اس کے والد اس کے دادا اس کے پرادادا نسل درنسل یہ
لوگ جوہری تھے اور جوہرات کو سمیٹتے ہوئے آرہے تھے‘میں حیران ہوں اور میری حیرت اور زیادہ حیران ہے: وہ حیران ہوا اس کی حیرت اور بڑھ گئی اس کی حیرت میں کیفیات، حیرت انگیز تھیں۔ وہ ایک ایک چیز کو اٹھا کر دیکھ رہا تھا‘ اور ایک لفظ بار بار کہہ رہا تھا کہ میں حیران ہوں اور میری حیرت اور زیادہ حیران ہے کہ آج تک اتنا بڑا خزانہ اور خزانے میں ایک ایسی چیز بھی نہیں کہ جو چیز کم قیمت ہو‘ گھٹیا ہو‘ ناقص ہو یا اس کا ایک کونہ تو قیمتی ہو دوسرا کونہ مجروح ہو‘ وہ بار بار پھٹی پھٹی آنکھوں سےا س خزانے کو دیکھ رہا تھا۔اچانک جوہری کی چیخ نکل گئی: اچانک اس کی چیخ نکلی‘ بادشاہ حیران ہوا‘ پوچھاکیا ہوا؟ اور وہ ایک طرف لپکا اور اس نے ایک ڈھیرایسا دیکھا جیسے گندم کا ڈھیر ہو اور کہا بادشاہ سلامت یہ دنیا کا وہ قیمتی لعل ہے جو اگر کوئی ایک بھی کسی بادشاہ کی نگری میں ہو تو وہ بادشاہ دنیا کا امیر ترین آخری بادشاہ سمجھا جاتا ہے اور سب سے بڑا تاجدار سمجھا جاتا ہے‘ یہ قیمتی لعل ایک نہیں‘ اتنا بڑا ڈھیر کہ جیسے آسمان سے اس ڈھیر کی بارش ہوئی ہو اور اتنی بڑی بارش کہ ایک اس جیسا موتی میں نے تو زندگی میں صرف چند بار اس دیکھا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا موتی:اپنے بڑوں سے سنا ضرور ہے کہ یہ دنیا کا سب سے آخری اور قیمتی موتی ہوتا ہے جو سب انسانوں کو کبھی نہیں مل سکتا اور نہ بادشاہوں کو مل سکتا ہے اگر کسی بادشاہ کی نگری میں یہ ایک موتی ہو یعنی یہ ایک لعل اور جواہر ہو تو وہ دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ ہوتا ہے۔ آقا آپ کی غریب پروری اور اللہ سے گڑگڑانا آج نظر آیا:جوہری محمود کے قدموں میں لپٹ گیا اور کہنے لگا کہ آقا آپ کی نیکی‘ غریب پروری‘ رحم دلی‘ ہمدردی اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ سے گڑگڑانا آج مجھے نظر آیا کہ اس کا صلہ اتنا بڑا اور اتنا زیادہ اور اتنا معتبر اس کے بعد بادشاہ نے حکم دیا کہ سب باہر چلیں اور حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ دروازہ صرف بادشاہ کے جانے پر ہی کھلتا تھا کوئی ایسا روحانی ریموٹ کنٹرول اس کے اندر لگا ہوا تھا کہ بادشاہ جب تک باہر نہیں نکلتا تھا ‘دروازہ بند نہیں ہوتا تھا اور بادشاہ جب تک داخل نہیں ہوتا تھا یا ساتھ نہیں ہوتا تھا وہ کھلتا نہیں تھا اوربادشاہ بھی جب تک یہی آیت نہیں پڑھتا تھا تو دروازہ بادشاہ کے ہوتےہوئے بھی نہیں کھلتا تھا بادشاہ بس یہ آیت پڑھتے ہوئے آتا تھا اور آیت پڑھتے ہی پہلا قدم رکھتا تھا تو دروازہ خودبخود کھلنا شروع ہوجاتا تھا۔ بادشاہ نے اس تمام علاقہ کے گرد فوراً ایک دیوار کھڑی کی یعنی اس کھنڈر کے گرد ایک دیوار کھڑی کی‘ چند ہی دنوں میں ایک بہت بڑی دیوار‘ ایک بہت بڑا مضبوط دروازہ اور وہاں محفوظ سپاہی کھڑے کردئیے گئے۔ یہ واقعہ سناتے ہوئے ہم ایسے حیرت اور شدت میں تھے ہمیں احساس ہی نہ ہوا کہ عصر کی نماز کا وقت نکلتا چلا جارہاتھا خیر جلدی جلدی اٹھے اذان دی اور جماعت کروائی‘ میرے جی میں تھا کہ اس حیرت انگیز جن سے میں مزید اور خزانوں کی باتیں پوچھ لوں لیکن چونکہ میرا گیارہ دن کا چلہ تھا لیکن وہ ایسا سخت چلہ تھا کہ جس میں بہت زیادہ سختی اور پابندی ہو بلکہ اس میں ہم گفتگو حال احوال خیرخبر لے سکتے تھے اور ایک دوسرے سے مسلسل باتیں کربھی سکتے تھے میں نے اس حیرت انگیز جن سے کہا کیا آپ مجھے یہ بتاسکتے ہیں کہ یہ آیت واسع کرسیہ والسموت والارض اس کی طاقت اور تاثیر کتنی زیادہ آپ نے بیان کی تو یہ طاقت اور تاثیر اتنا زیادہ اس کے اندر کیوں ہے؟ اس لفظ کی تاثیر کی قوت حد سے کہیں زیادہ ہے:کہنے لگے کہ دراصل اس کے اندر اتنی طاقت اورتاثیر ہونے کی جو اصل وجہ ہے ‘ وہ ہے اللہ کا نام واسع ‘ یہ اتنا عظیم لفظ ہے کہ اس کو قرآن نے جس انداز سے بھی بیان کیا چاہے اس کے درمیان سے الف ہٹا دیں یا لگادیں اس کی طاقت اور تاثیر بہت زیادہ ہے اور اس کی قوت حد سے کہیں زیادہ ہے اور اس تاثیر اور طاقت میں کوئی بھی گمان اور خیال نہیں کرسکتا اور پھر کہا یہ تو میرا اپنا ہی گمان اور خیال ہے ورنہ(جاری ہے)
کیونکہ آیۃ الکرسی قرآن پاک کا تاج ہے اور یہ آیت آیۃ الکرسی کا دل ہے اور اس آیت کے اندر ایک انوکھی تاثیر اور طاقت ہے۔ وہ جن کہنےلگا: میں نے خود اس آیت کو پڑھا اور کئی بار آزمایا پھر اپنا ایک واقعہ سنایا میں ایک جگہ گزر رہا تھا‘ درختوں کا ایک بہت بڑا جھنڈ دیکھا وہ دراصل کھجوروں کا پرانا جھنڈ تھا اتنا بڑا جھنڈ میں نے آج تک نہیں دیکھا بہت بڑے وسیع رقبے میں اور اراضی میں پھیلا ہوا تھا
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں