آج کل کا دور سرمایہ دارانہ نظام کہلاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ علامہ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ غریب اقوام کا اپنا کوئی کلچر یا نظام نہیں ہوتا وہ ہر چیز میں امیر اور سرمایہ دارانہ اقوام کی اتباع کرتی ہیں اس سرمایہ دارانہ نظام میں ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ حلال حرام کی پرواہ کیے بغیر ہر ایک کے سر پر امیر ہونے کا بھوت سوار ہے جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے اور انسانیت تباہی و بربادی کی دہلیز پر جا پہنچی ہے۔ یہی سوچ انسان کی دنیا و آخرت کو تباہ کررہی ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث طیبہ میں جابجا حلال مال اور جائز کسب حلال اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور حرام سے اجتناب نہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے اور ’’ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے مت کھاؤ‘‘ (البقرہ)
’’اور جو لوگ یتیموں کا مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھررہے ہیں اور عنقریب یہ لوگ آگ میں داخل ہوں گے۔‘‘ (النساء)۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ اس شخص کا ذکر فرمایا جو لمبے سفر کے دوران غبار آلود اور پراگندہ بال ہونے کی حالت میں اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا مانگتا ہے اور کہتا ہے اے میرے رب‘ اے میرے رب لیکن اس کا کھانا پینا اور لباس حرام مال کا ہو یا اس کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہو تو اس کی دعا کہاں قبول ہوسکتی ہے۔ (مسلم)۔
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دعا بھی عبادت ہے جب دعا قبول نہیں تو حرام کھانے والے کی عبادت بھی قبول نہیں۔ نبی آخر الزماں ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد (ﷺ) کی جان ہے‘ آدمی اپنے پیٹ میں حرام لقمہ ڈالتا ہے جس کی وجہ سے چالیس روز تک اس کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہوتا۔‘‘ خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا: ایسا بدن جنت میں نہیں جائے گا جس کی پرورش حرام مال سے ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے متنبہ فرمایا تم حرام مال جمع کرنے پر رشک مت کرو اس لیے کہ اگر وہ حرام مال سے صدقہ کرے تو قبول نہ ہوگا اور بقیہ مال بھی اس کو جہنم تک لے جائے گا۔‘‘ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ آج کل جو شہر برباد ہورہے ہیں اس کے دو بڑے سبب ہیں1۔ ناحق مال بٹورنا۔ 2۔ ناجائز ٹیکس۔
اول لوگ سرکاری خزانے کے گرد جمع ہوتے ہیں اور مختلف حیلوں بہانوں سے مال حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ وہ بیت المال سے مشاہرہ تو حاصل کرتےہیں مگر اس کے عوض اتنا کام نہیں کرتے اور حرام آمدنی اپنے پیٹ میں ڈال دیتے ہیں۔ (حجۃ اللہ البالغہ)
آج کے اس دور میں ہماری تنزلی کا سب سے بڑا سبب بھی یہی کرپشن ہے حکمرانوں سے لے کر ادنیٰ ملازم تک ہر ایک اس میں ملوث ہے جس کی مختلف صورتیں ہیں: 1۔ سرکاری دفاتر سے مختلف اشیاء کی چوری مثلاً کاغذ قلم وغیرہ۔ 2۔ ڈیوٹی ٹائم میں کام چوری مثلاً لیٹ آنا اور وقت سے پہلے چلے جانا مگر تنخواہ مکمل وصول کرنا۔ 3۔ بجلی اور گیس کی چوری کرنا اور ملازمین کا رشوت لے کر ایسے چوروں پر ہاتھ نہ ڈالنا حرام در حرام تنخواہ بھی حرام اور رشوت بھی حرام۔ رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے واقعات ہمارے لیے سبق ہیں۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ جنت البقیع سے گزرے تو ارشاد فرمایا کہ اس قبر میں مدفون شخص کو میں نے دیکھا کہ وہ عذاب میں مبتلا ہے جس کا سبب یہ تھا کہ اس نے سرکاری مال میں سے ایک قمیص چھپالی تھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا: میں نے دیکھا ہے کہ اس شخص کو جہنم کا کرتہ پہنا دیا گیا ہے۔ ان تمام چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں حرام مال سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ ہمارے اکابر میں سے ایک مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک پولیس آفیسر آیا اور کہنے لگا حضرت جی بہت پریشان ہوں‘ آپ میرے لیے دعا بھی کریں اور مجھے کوئی بھی تعویذ دیں۔ مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کیا پریشانی ہے تو وہ شخص کہنے لگاگھر میں سکون نہیں جبکہ گھر بھی اپنا ہے اور مال و دولت کی بھی کمی نہیں ہے۔ اللہ والے نے فرمایا: سچ سچ بتا کہ جو مال و دولت تمہارے پاس ہے اس میں سب حلال کا مال ہے یا حرام کی بھی ملاوٹ ہے۔
وہ شخص کہنے لگا: حضرت جی میرا سارا کا سارا مال ہی حرام ہے۔ مولانا صاحب نے فرمایا: اگر تم اپنی زندگی میں سکون چاہتے ہو تو میرے اس تعویذ پر عمل کرو جو میں دینا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے جن جن لوگوں سے ناجائز مال لیا ہے انہیں واپس کرو‘ چنانچہ اس شخص نے ایسا ہی کیا حتیٰ کہ اپنے دو گھر بیچ دئیے اور خود کرائے کے گھر میں رہنے لگا۔ ایک دن پھر وہ شخص حضرت مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ حضرت ایک تو میں ریٹائر ہوچکا ہوں اور دوسرا یہ کہ میں لوگوں کا مال واپس کرتے کرتے ہر چیز سے ہاتھ دھو بیٹھا ہوں اورکرائے کے گھر میں زندگی بسر کررہا ہوں۔ مولانا نے اس شخص کے حق میں دعا کی اور کسی جاننے والے سے اسے دو لاکھ روپے بطور قرض لے کر دئیے اور کہا کہ ان پیسوں سے کہیں چھوٹا سا کھوکھا بنالو چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا‘ پانچ وقت کا نمازی‘ چہرے پر ڈاڑھی اور استغفار کی کثرت نے اس کی کایا ہی پلٹ دی۔ کچھ ہی عرصہ بعد اس کی مولانا صاحب سے ہوئی تو مولانا نے پوچھا زندگی کے کیسے حالات ہیں؟ تو وہ شخص کہنے لگا: حضرت والا اللہ پاک نے ہر چیز میں برکت ڈال دی اور مجھے سکون مل گیا ہے اور آپ کے بتائے تعویذ سے میری ساری بے سکونی دور ہوگئی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں