آج گھروں، دفاتر‘ سڑکوں‘ ہر جگہ ذرا سی غفلت سے بچنا ضروری ہے۔ آج کے دور میں خیریت سے زندہ رہنا ہے تو آگ سے بچاؤ کے طریقے سیکھنا لازم ہے کہ یہ ناگہانی آفت کہیں بھی کسی بھی وقت آسکتی ہے چنانچہ کچھ بنیادی تکنیکس سیکھنا زندہ رہنے اور دوسروں کو بچانے کیلئے ضروری ہیں۔
انسانی المیہ یہ ہے کہ جو کچھ اس کی زندگی کیلئے ضرورت اور ناگزیر ہے وہی اس کیلئے زندگی ختم کرنے کاذریعہ بھی بن جاتا ہے آگ ہی کو لیجئے سورج آگ‘ چولہا آگ‘ بجلی آگ‘ گاڑی آگ‘ اے سی آگ‘ جنریٹر آگ‘ کمرے میں لگا یو پی ایس آگ‘ لیپ ٹاپ آگ حتیٰ کہ آپ کی جیب میں پڑا آئی فون آگ تو صورتحال یہ ہے کہ جیسے انسان آگ میں کھڑا ہوا ہے۔ گویا آج آگ سے آگہی ناگزیر ہے کہ زندگی کی یہ بنیادی ضرورت موت کا پیغام نہ بن جائے۔ آگ اتفاقیہ یا حادثاتی طور پر لگ جائے یعنی آتشزدگی ہو یا مجرمانہ مقاصد کے تحت لگائی جائے یعنی آتش زنی ہو یکساں تباہی لاتی ہے۔ بھڑکتے شعلوں کی دہشت‘ حدت اور تباہی دور تک محسوس کی جاتی ہے۔ فلمی رسالوں یا ڈائجسٹوں تک تو ٹھیک ہے کہ ہیرو دھکتی آگ میں کود کر بچے کو بچا کر باہر لے آتا ہے لیکن حقیقی زندگی میں شعلوں کے بہت قریب جانا بھی جان لیوا ہوسکتا ہے نہ صرف حدت سے ڈی ہائیڈریشن ہوجاتی ہے بلکہ زہریلی گیسوں سے سانس بند ہوسکتا ہے چنانچہ فائر بریگیڈ کا تربیت یافتہ عملہ ہی مخصوص لباس اور انتظام کے ساتھ آگ میں راستہ بنا کر جان بچا سکتا ہے۔ آج گھروں، دفاتر‘ سڑکوں‘ ہر جگہ ذرا سی غفلت سے بچنا ضروری ہے۔ آج کے دور میں خیریت سے زندہ رہنا ہے تو آگ سے بچاؤ کے طریقے سیکھنا لازم ہے کہ یہ ناگہانی آفت کہیں بھی کسی بھی وقت آسکتی ہے چنانچہ کچھ بنیادی تکنیکس سیکھنا زندہ رہنے اور دوسروں کو بچانے کیلئے ضروری ہیں۔
آگ لگ جائے تو کیا کریں: جس جگہ آگ لگی ہو وہاں سے باہر نکلنے کی ہر ممکن کوشش کریں‘ لاشعوری طور پر سب سے پہلے یہی کوشش کی جائے گی مگر آپ اس کوشش میں اس وقت کامیاب ہوسکیں گے جب آپ کے گھر‘ دفتر یاہوٹل میں باہر نکلنے کا متبادل راستہ موجود ہوگا۔ یہ طریقہ اس وقت اختیار کیا جائے گا جب خدانخواستہ آگ شدید یا قابو سے باہر ہوجائے اور جان بچانے کا واحد راستہ بند ہوگیا ہو اس کے علاوہ کچھ اور حفاظتی اقدامات بھی کیے جاتے ہیں۔ لیکن کیا آگ سے بچنے کے حفاظتی اقدامات یقینی بنائے جارہے ہیں‘ خصوصاً ہمارے پیارے ملک میں اس شعبے کے حالات انتہائی خراب ہیں یہی وجہ ہے روزانہ میڈیا پر آگ لگنے کے واقعات شائع ہوتے رہتے ہیں۔
آگ لگنے کے محرکات: اس ضمن میں سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آگ لگنے کے محرکات کیا ہوسکتے ہیں؟ اس طرح بہتر طور پر احتیاطی تدابیر کی جاسکیں گی۔ بجلی سے متعلق مسائل جیسے شارٹ سرکٹ‘ پرانی وائرنگ‘ آتش گیر مواد کی گھر میں موجودگی اور آلات کے استعمال میں عدم احتیاط‘ غفلت اورلاعلمی سب خوفناک آگ کا سبب بننے والے عوامل ہیں۔1۔جب بھی گھر تبدیل کریں‘ خود اپنا گھر خریدیں یا کرائے پر لیں اس میں بجلی کے تاروں کی وائرنگ کا بخود جائزہ لیں۔ 2۔ اگرگھر میں کسی بھی قسم کا آتش گیر مواد رکھا ہے تو اسے گھر سے نکال باہر کیجئے۔ 3۔ بجلی کے علاوہ سوئی گیس کی رسد جن پائپوں سے ہوتی ہے ان کا بھی معائنہ کرلیں۔ 4۔ بار بار بجلی جانے کی صورت میں اکثر وولٹیج کم یا زیادہ ہوجاتا ہے لہٰذا یہ یقین کرلیں کہ آپ نے گھر کے تمام الیکٹرانکس آئٹمز کو سٹیپلائزر کی شکل میں محفوظ بنالیا ہے۔ 5۔ اپنے گھر‘ دفتر یا ہر اس مقام کا جہاں آپ وقت گزارتے ہیں جائزہ لیجئے۔ 6۔ استری‘ ٹیلی ویژن‘ فریج یا دیگر بجلی سے چلنے والی مشینوں کے مرکزی پلگ خراب ہونے کی صورت میں بھی شارٹ سرکٹ سے آگ لگنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ان کو خراب ہوتے ہی تبدیل کروالیں۔ یادرکھیں! پلگ خراب ہوجائے تو سوئچ بورڈ میں ننگی تاروں کو ماچس کی تیلیوں کی مدد سے نہ لگائیں ان تیلیوں میں آتش گیر مادے کی موجودگی کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ کیا احتیاط کی جائے؟ بالغ افراد کے علاوہ بچوں اور گھر کے ملازمین کو بھی آگ لگنے کی صورت میں اپنا دفاع کرنے کی بنیادی احتیاطی تدابیر معلوم ہونی چاہئیں۔ اس طرح کم از کم آگ جیسی ناگہانی مصیبت کو ابتدائی مرحلے پر ہی قابو میں کیا جاسکتا ہے۔ مندرجہ ذیل تدابیر بھی اختیار کی جاسکتی ہیں۔ فائر بریگیڈ یا آگ بجھانے کے عملے اور سول ڈیفنس آرگنائزیشن کے تحت علاقوں کی سطح پر آگ سے بچاؤ اور اس سے نمٹنے کے ابتدائی مرحلوں کے متعلق لیکچرز اور سیمینار منعقد کیے جائیں تاکہ شعور پیدا ہو۔ لیکچررز کے ساتھ کمیونٹی سنٹرز‘ سکول‘ کالج اور یونیورسٹیوں میں بھی اس ضمن میں بنیادی معلومات کے ساتھ عملی طور پر بھی تربیت کی ضرورت ہے۔ گھر، دفتر، سکول یا ہوٹل میں اسموک ڈی ٹیکٹر (دھواں سونگھنے کی صلاحیت رکھنے والا آلہ) واٹر اسپرنکل یا پانی کے فوارے اور آگ بجھانے کیلئے مخصوص سلنڈر میں محفوظ فوم نما مرکب کی موجودگی یقینی بنائی جائے۔ خاتون خانہ کا زیادہ تر وقت گھر اور خاص کر کچن میں گزرتا ہے لہٰذا انہیں خصوصی طور پر یہ سمجھنا چاہیے کہ گھر میں کیا چیز کہاں رکھی ہے اور کس جگہ آگ لگنے کا اندیشہ ہے؟ آگ بجھانے کے مخصوص سلنڈر کے استعمال کی میعاد بھی دیکھنے رہنا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں تعمیرات کے کے فن میں ابھی بہت سے بنیادی نکات پر غور نہیں کیا جاتا۔ متوسط طبقات میں گھر کی تعمیر چند گھسے پٹے اصولوں پر ہی کی جارہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں گھر‘ دفتر‘ سکول یا بعض ہوٹلوں میں بھی Fire Exits یا گھر سے باہر نکلنے کا متبادل راستہ نہیں رکھا جاتا۔ اگر کھانا پکانے کے دوران آگ لگ جائے تو اسے پانی سے بجھانے کے بجائے موٹے سوتی کمبل سے بجھایا جائے۔ ایسی آگ پر پانی ڈالنے سے جسم کے متاثرہ حصوں پر آبلے پڑنے کا اندیشہ رہتاہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ آکسیجن آگ کو مزید بھڑکاتی ہے جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اس کی شدت کو کم کرتی ہے۔ گھر، دفتر، سکول یا ہوٹل کے مخصوص کمروں جیسے بیڈروم‘ کاریڈور‘ کچن اور گیراج میں آگ بجھانے کے آلات ضرور رکھنے چاہئیں۔ گھر کے مرکزی اور متبادل دروازوں کی دو سے زائد چابیاں بنوا کر گھر کے تمام افراد کو دی جائیں۔ اگر رہائش کسی کثیرمنزلہ عمارت میں ہو تو یہ بھی یقین کرلیں کہ آگ لگنے کی صورت میں باہر نکلنے کیلئے سیڑھی موجود ہے۔ کھڑکیوں کے آگے حفاظتی لوہے کی جالی کا ڈیزائن بھی یوں ہو کہ سیڑھی لگا کر چڑھا اور اترا جاسکے۔
غیرمناسب پلاننگ کی وجہ سے ایسے حالات اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ گھروں میں آگ لگنے کے واقعات کی روک تھام کیلئے مناسب پلاننگ اور آگ سے بچاؤ کے طریقوںسے متعلق آگہی ہر سطح پر نہایت ضروری ہے۔ مگر خاص طور پر ہمارے معاشرے میں ایسی کسی پلاننگ کو ضروری ہی نہیں سمجھا جاتا گھر کے ہر فرد کو ایسی ناگہانی سے نمٹنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ آگ سے بچنے اور آگ بجھانے کے آلات کی معلومات کے ساتھ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ آگ بجھانے کے عملے کو اطلاع کس نمبر پر اور کیسے کی جائے؟ گھر، دفتر سکول یا کسی بھی عمارت کی تعمیر کے دوران ایسے ہنگامی حالات میں باہر نکلنے کا متبادل راستہ ضرور بنانا چاہیے اور یہ صرف ایک ہی لیکچر یا تربیتی پروگرام یا ایک تحریر سے سمجھنے والے اصول نہیں بلکہ اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کیلئے باقاعدگی سے پلاننگ اور تربیتی پروگراموں کی اشد ضرورت ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں