پاکستان میں جسمانی امراض میں گرفتار مریضوں کی تعداد اتنی نہیں جتنی خوف‘ تفکرات‘ حسد‘ رقابت اور بدلہ لینے کی کوشش رکھنے والے لوگوں کی ہوتی ہے۔ یہ مریض اگر چاہیں تو اپنی ایسی بیماریوں کو نفسیاتی طریقہ علاج کے تحت اپنے جسم سے ہمیشہ کیلئے باہر نکال سکتے ہیں
اللہ رب العالمین نے انسان کو کائنات کی تمام نعمتوں سے سرفراز کیا ہے جن میں سے سب سے افضل علم ہے‘ یعنی ایسا فہم و شعور عطا کیا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے اور اس کائنات کے خالق و مالک کی شناخت کرتا ہے‘ وہ دانائی اور ہوش مندی جس کے ذریعے وہ اچھے اور بُرے کی تمیز کرتا ہے اور یہی وہ نعمت ہے جو تمام جانداروں میں صرف انسان کو عطا ہوئی اور اسی نے انسان کو تمام مخلوقات میں اشرف بنایا۔ اتنا اشرف کہ فرشتوں نے بھی سجدہ کیا۔ اس فضیلت کو عطا کرنے کا یقیناً ایک مقصد بھی ہے اور وہی مقصد۔ ہر انسان کا حقیقی مقصد حیات ہے جس نے اس مقصد کو پہچان لیا وہ انسان اپنے وجود سے ہمیشہ محبت کرتا ہے‘ وہ انسان دیگر انسانوں کی قدر کرتا ہے‘ وہ انسان ہمیشہ خوش اور مطمئن رہتا ہے۔ وہ انسان کبھی محرومی اور مایوسی کے اندھیروں میں نہیں کھوتا‘ وہ انسان کبھی بھی اپنے وجود کی ناقدری نہیں کرتا وہ انسان کبھی بھی زندگی میں ناامید نہیں ہوتا۔ انسان ہونے کے ناطے اللہ رب کریم سے یہ دعا نہیں کرنی چاہیے کہ زندگی کو دکھوں اور آزمائشوں سے نجات مل جائے بلکہ یہ دعا کرنی چاہیے کہ اے اللہ انہیں برداشت کرنے کی ہمت و حوصلہ دے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل عطا کی‘ سمجھ بوجھ دی‘ اچھے بُرے کا فرق سکھایا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے خالق کی پہچان کرائی اس کے بعد صرف اور صرف یہی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی بیش بہا نعمتوں کے صدقے ہمیں پُرسکون اور متقی بنا دے‘ ذہنی خلفشار اور انتشار سے نجات دے دے۔ یاد رکھیں کہ زندگی کے مسائل ہمیں زندہ رہنے کا حوصلہ دیتے ہیں کیونکہ ان سے نبرد آزما ہوکر ہی یقینی کامیابی ممکن ہوتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسائل ہی زندگی کو بامقصد اور دلچسپ بناتے ہیں۔ مشہور مصنف نارمن ونسٹنٹ نے لکھتا ہے کہ اس کی ملاقات نیویارک کے انتہائی مسائل میں گھرے شخص سے ہوئی‘ اس نے نارمن سے پوچھا کہ میری مدد کرو‘ میں مسائل کا شکار ہوں‘ مجھے کوئی جگہ بتاؤ جہاں مسائل نہ ہوں میں وہاں چلا جاؤں؟ نارمن نے جواب دیا: میں ایک ایسی جگہ سے واقف ہوں جہاں کی آبادی پندرہ ہزار سے زائد ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی کسی مسئلہ کا شکار نہیں ہے۔ ‘ خدارا! مجھے بتاؤ وہ جگہ کہاں ہے؟ میں وہاں جاکر رہنا پسند کروں گا‘ اس نے بے اختیار کہا۔ نارمن بولا: وہ جگہ نزدیکی قبرستان ہے جہاں کے لوگوں کو کوئی الجھن کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ انسان مرنے کے بعد ہی دنیا کے ہنگاموں اور مسائل سے بچ سکتا ہے۔ یہاں اگر وہ زندہ ہے تو اسے بدلتے موسموں‘ دکھ سکھ اور مختلف مسائل کا سامنا کرنا ہے کیونکہ یہی زندگی ہے اور انہی باتوں سے دنیا میں نت نئی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں کیونکہ جب انسان اپنے مسائل سے نمٹنے کیلئے جدوجہد کرتا ہے تو اس کےاثرات دوسروں پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس جب انسان اپنے مسائل کے سامنے ہارمان لیتا ہے تو اس کا ذہن بیمار ہونے لگتا ہے جس کی وجہ سے اس میں کئی قسم کی ذہنی ونفسیاتی بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں اور ذہنی امراض کے مریضوں کی علامات ایسی ہوتی ہیں کہ عموماً ان کے گھر والے ان پر جنات کا سایہ سمجھ لیتے ہیںاور فقط جھاڑ پھونک کو ہی علاج قرار دیتے ہیں یا پھر کسی نام نہاد پیر کے پاس لے جاکر اس کے جن نکلوانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں لیکن جن باہر نہیں نکلتا کیونکہ وہ اندر ہو تو باہر نکلے لیکن نام نہاد پیرصاحب کی جیب میں بہت کچھ چلا جاتا ہے۔ آج کے دور کا انسان تذبذب‘ بے چینی اور انتشار کا شکار ہے اس کا سبب ہی یہ ہے کہ ہمارا ایمان ذات خداوندی پر سے کمزور ہوچکا۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہوں اور اسے رحمن رحیم غفار جبار قدوس رزاق طبیب اور منصف اعظم سمجھیں تو کیسے ممکن ہے کہ بڑے امراض مثلاً کینسر‘ ہارٹ اٹیک‘ ذیابیطس‘ ایڈز‘ ہیپاٹائٹس اور ڈیپریشن و فوبیاز کا شکار ہوجائیں۔ آج کے اس سائنسی دور میں جہاں میڈیکل سائنس ناکام ہورہی ہے وہاں پر دعائیں ایسے معجزانہ اثرات دکھا رہی ہیں کہ اسلام کے دشمن بھی اس کے قائل ہوچکے ہیں لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ کا ایمان و اعتقاد مضبوط ہو اور مشکلات و مسائل آپ کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ آنے دیں لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے۔ اگر ہم اپنے ہسپتالوں میں داخل مریضوں کا جائزہ لیں تو یہ بات ہمارے سامنے کھل کر واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان میں جسمانی امراض میں گرفتار مریضوں کی تعداد اتنی نہیں جتنی خوف‘ تفکرات‘ حسد‘ رقابت اور بدلہ لینے کی کوشش رکھنے والے لوگوں کی ہوتی ہے۔ یہ مریض اگر چاہیں تو اپنی ایسی بیماریوں کو نفسیاتی طریقہ علاج کے تحت اپنے جسم سے ہمیشہ کیلئے باہر نکال سکتے ہیں یعنی ایسے مریض اگر ان امراض (خوف، تفکرات وغیرہ) کا علاج کرلیں تو ان کی جسمانی تکالیف خودبخود رفع ہوجائیں گی۔آج پاکستان ہی نہیں پوری دنیا ذہنی امراض کی لپیٹ میں ہے۔ ذہنی صحت زوال پذیر ہے کشمکش اور تناؤ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انسانی رشتوں کی مطابقت ختم ہوتی جارہی ہے اور مادیت کے لوازمات بڑھ چکے ہیں۔ مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی اور انسانی اقدار میں زوال‘ سماجی زندگی سے روابط کی کمی اور تنہائی ذہنی صحت کو تیزی سے تباہ کررہے ہیں‘ بالخصوص بڑے شہروں میں نیند کی کمی‘ جھنجھلاہٹ‘ غصہ‘ ڈیپریشن‘ عضلاتی تناؤ اور ان جیسے دیگر کئی عوارض عام ہوتے جارہے ہیں۔ حرص و ہوس نے انسان کو اتنا مشغول کردیا ہے کہ اس کے سماجی رشتے روز بروز کمزور ہوتے جارہے ہیں‘ خوشیاں مفقود ہورہی ہیں اور برکات اٹھ رہی ہیں۔ اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ جذبات اور ہیجانات انسانی جسم پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ شرم و حیا اور احساس ندامت کی وجہ سے انسان کے چہرے پر سرخی دوڑ جاتی ہے جبکہ کسی خوف کے سبب چہرے کا رنگ فق ہوجاتا ہے‘ اسی طرح بہت سے ذہنی و جذباتی عوامل انسانی جسم کو متاثر کرتے ہیں۔ انسانی ذہنی و جسمانی عوامل جسم پر اثر انداز ہوکر بہت سے پیچیدہ امراض پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے افراد جو تھوڑی سی بیماری سے بہت زیادہ پریشان ہوکر اس بیماری کو ذہن پر مسلط کرلیتے ہیں وہ دیر سے صحت مند ہوتے ہیں جبکہ ایسے افراد جو بیماری کو اپنے اوپر سوار نہیں ہونے دیتے وہ بہت جلد یا کئی بار بـغیر کسی دوا کے ہی ٹھیک ہوجاتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ بیماری کو سوار کرنے سے قوت مدافعت کمزور ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے انسانی جسم صحت مندی کی طرف راغب ہونے میں دیر لگا دیتا ہے جبکہ بیماری کو مسلط نہ کیا جائے تو قوتِ مدافعت مستحکم رہتی ہے جس کی وجہ سے بیماری اس کے زیرِ تسلط آجاتی ہے اور بیمار جسم ٹھیک ہوجاتا ہے۔ ایک صحت مند جسم کیلئے صحت مند ذہن کا ہونا ضروری ہے۔یاد رکھیں! زندگی گزارنے کیلئے ہمیشہ پراُمید اور مثبت انداز اختیار کریں۔ واہمے اور نااُمیدی انسان کو کمزور کردیتی ہے اور کمزور انسان بیماریوں کا گڑھ بن جاتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں