اپنی ولادت سے رسول ﷺ کی رحلت تک آزمائش کے ہر گھڑی جنگ کے ہر میدان اور امور مملکت میں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ خیرالبشر محمد مصطفیٰ والمرتضیٰ ﷺ کے ساتھ رہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ پاک و پاکیزہ پیدا ہوئے‘ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی پیشانی کبھی کسی بت کے سامنے نہیں جھکی
سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے فضائل و مناقب اور کردار و کارناموں سے تاریخ اسلام کے اوراق روشن ہیں جس سے قیامت تک آنے والے لوگ ہدایت و رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔ حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی زندگی اس بہترین زندگی کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے جس کا تجربہ دنیائے بشریت آغاز حیات سے اب تک کرتی رہی ہے۔ یہ حیات طیبہ اس انسان کامل کی حیات ہے جو دنیائے انسانیت میں عبدیت و بندگی کا حقیقی آئیڈیل ہے اور ان نایاب انسانوں میں سے ہیں جسے صفحہ ارضی پر خلیفۃ اللہ کا خطاب زیب دیا ہے۔ یہ زندگی کس قدر جاذب پرکشش ہے جو دوستوں کو محبت کی بالا ترین حد اور دشمنوں کو ان سے دشمنی کی منتہیٰ تک پہنچا دیتی ہے۔ علی وہ ذات ہے جن کے بارے میں پیغمبر اسلام ﷺ کا فرمان ذی شان ہے کہ اے علیؓ! تمہارے سلسلے میں دو طرح کے گروہ ہلاک ہوں گے ایک وہ جو تم سے دوستی میں افراط و تفریط و زیادتی سے کام لے گا اور دوسرا گروہ وہ ہے جو تم سے بے انتہا دشمنی رکھے گا۔ اپنی ولادت سے رسول ﷺ کی رحلت تک آزمائش کی ہر گھڑی‘ جنگ کے ہر میدان اور امور مملکت میں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ خیرالبشر محمد مصطفیٰ والمرتضیٰ ﷺ کے ساتھ رہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ پاک و پاکیزہ پیدا ہوئے‘ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی پیشانی کبھی کسی بت کے سامنے نہیں جھکی‘ اسی لیے آپ کے نام کے ساتھ ’’کرم اللہ وجہ‘‘ لکھا جاتا ہے۔ حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے فضائل و کمالات کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ اسی لیےعلامہ ابن حجرمکی نے تحریر فرمایا کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے مناقب و فضائل حد احصار سے باہر ہیں۔ ایک مقام پر فرمایا کہ تین سو سے زاید آیات علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی شان میں نازل ہوئیں۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کیلئے جتنے فضائل و مناقب ہیں اور کسی کیلئے نہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے سب سے پہلے امت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عبادت کا شرف حاصل کیا(سیرت حلبیہ) دعوت ذی العشیرۃ میں رسول ﷺ کی تائیدو نصرت کا اعلان کیا۔ شب ہجرت کفار مکہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کمال جرأت مندی کے ساتھ رسول ﷺ کے بستر پر سوئے۔ مواخات میں رسول ﷺ نے انہیں اپنا بھائی قرار دیا۔ اسلامی ریاست قائم ہونے کے بعد اس کے تحفظ میں بھی سب سے آگے رہے۔ بدر کے میدان میں کفار کے سرداروں کے غرور کو خاک میں ملایا۔ جنگ احد میں رسول ﷺ کے لیے سینہ سپر ہوگئے۔ رسول ﷺ کے زخموں کا علاج کیا‘ جنگ خندق میں عمر ابن عبدو جیسے جری کو پچھاڑا۔ خیبر کے ناقابل تسخیر قلعہ کو تسخیر کرکے مرحب جیسے عرب بہادر کو جہنم کی راہ دکھائی۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ہی نے فتح مکہ کے روز رسول ﷺ کے کندھوں پر سوار ہوکر خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرکے بت شکن کا اعزاز حاصل کیا۔ سخی ایسے کہ رات بھر باغ میں مزدوری کرکے حاصل ہونے والی جَو سے پکنے والی روٹیوں کو عین افطار کے وقت سوالی کو دے دیا اور تین دن ایسا ہی ہوتا رہا۔ رسول اکرم ﷺ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ‘ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا‘ حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین تین دن بھوکے رہے جس پر سورۂ الدھرنازل ہوئی۔ (ریاض النصرۃ) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی زندگی کے اہم ترین نمونوں میں سے ایک آپ کا علم ہے۔ چنانچہ یہ بات زبان زدخاص عام ہے کہ قرآن مجید اور فرمودات نبیﷺ کے بعد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے کلام سے بہتر کوئی کلام نہیں اور کیوں نہ ہو‘ رسول ﷺ نے فرمایا: میں شہر علم ہوں‘ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اس کا دروازہ ہے اورنبی ﷺ کو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ پر اس قدر انحصار تھا کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو حکم دیا‘ اے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ تم لوگوں کو وضو اور سنت کی تعلیم دو۔ (طبقات البریٰ)۔
خاتم الانبیاء ﷺ نے ایک مقام پر ارشاد فرمایا: قضا کو دس حصوں میں تقسیم کیا گیا نو حصے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو اور ایک حصہ پوری دنیا میں تقسیم کیا گیا۔ (حلیۃ الاولیاء جلد ایک صفحہ 66) یہی وجہ تھی کہ خلیفہ دوم حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنی خلافت کے دوران حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ کو مرجع و منبع علم سمجھتے ہوئے مشکل ترین امور میں ان سے مشاورت حاصل کرتے اسی لیے کہا کہ خدا عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ) کو اس مشکل سے روبرو ہونے کیلئے باقی نہ رکھے جسے حل کرنے کیلئے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ موجود نہ ہوں۔ (طبقات جلد2 صفحہ339، انساب الاشراف جلد1 صفحہ 100)۔خود علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا فرمان ہے کہ ہم اہل بیت اللہ رسول ﷺ کے پیغام سے سب سے زیادہ آگاہ ہیں۔ (طبقات الکبریٰ جلد6 صفحہ 240)
ایک موقع پر فرمایا کہ جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا‘ چاہے حدیث ہو یا کچھ اور‘ اسے فراموش نہیں کیا۔ (انساب الاشرف)۔ نیز یہ بھی فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم کوئی آیت ایسی نازل نہیںہوئی جس کے بارے میں مجھے علم نہ ہو کہ کہاں نازل ہوئی اور کس سلسلے میں نازل ہوئی۔ (انساب الاشراف جلد 1 صفحہ 99)۔ نیز فرمایا کہ میں اگر سورۂ فاتحہ کی تفسیر لکھنا چاہوں تو 70 اونٹوں کے برابر ہوجائے۔ (التراتیب الاداریہ جلد 3 صفحہ 183) علماء کے درمیان عہد قدیم سے یہ بات مشہور کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے علاوہ کسی اور میں سلونی قبل ان تفکدونی کہنے کے جرأت نہ ہوئی۔ (جامع بیان العلم جلد1 صفحہ 173)۔ علی ابن طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا فرمان ہے کہ خدا کی قسم یہ پیوند دار جوتیاں میرے نزدیک تم جیسے لوگوں پر حکومت کرنے سے زیادہ بلند ہیں مگر یہ کہ اس حکومت کے ذریعے کسی حق کو اس کی جگہ قائم کروں یا کسی امرباطل کو اکھاڑ پھینکوں‘‘ اسلام کی یہ عظیم ونمایاں شخصیت جہان علم و فکر اور تاریخ بشریٰ میں ہمیشہ باقی رہنے والی شجاعت‘ عفت‘ طہارت اور جرأت و عدالت کی تاب ناک روشنی کا یہ آفتاب و ماہ تاب 21 رمضان کو کوفہ میں غروب ہوگیا۔ مگر اس کے نظریات و فرمودات و ارشادات آغاز شہادت سے لے کر جب تک دنیا ہے‘ تب تک حیات انسانی کے مراحل اور راہوں میں جاری و ساری رہیں گے۔ آج بھی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی طرز زندگی ظلم و بربریت اور کفرو نفاق کیلئے موت ہے۔ مسلم دنیا جو اس وقت مصائب و آلام میں گرفتار ہے‘ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی زندگی اختیار کرکے مصائب و آلام پر قابو پاسکتی ہے اور دنیائے شیطانی کو شکست سے دوچار کرسکتی ہے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ امت مسلمہ سیرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ پر چلتے ہوئے استعماری قوتوں کے مقابل خیبر شکن جرأت کا مظاہرہ کرے۔ عدل و انصاف کی راہ اپنائے اور علم وحکمت کے ساتھ ٹوٹا ہوا رشتہ مضبوطی کے ساتھ جوڑنے کیلئے مدینۃ العلم محمد مصطفیٰ ﷺ کے در پر اپنا سر جھکالے تو کوئی طاقت کلمہ توحید کے پرستاروں کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں