ذکر کی برکت اور دعا کے فوائد: ایک صاحب میرے پاس آئے کہنے لگے:’’میرا یہ جبڑا موٹرسائیکل ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ٹوٹ گیاہے ۔ کہنے لگے :’’میں بہت دیر بے ہوش رہا اوردورانِ بے ہوشی میںنے خواب دیکھاکہ دو آدمی ہیں جنہوں نے آہنی لباس پہنے ہوئے ہیں، جیسے زمانہ قدیم میںپوراجنگی لباس ہو اکرتا تھا۔ایک شخص نے مجھے زور سے ڈھال ماری، جبڑے کے دانت ٹوٹ گئے اور میرا خون بہنے لگا ۔وہ شخص اپنے بڑے سے کہتاہے کہ ’’میںنے آج تک جس کو بھی ڈھال ماری ہے وہ تڑپا ہے، اوریہ تڑپاہی نہیں۔وہ شخص مجھے مزید ڈھال مارنے لگا تو دوسرے نے روک دیا،کہ نہ مار یہ تو اللہ کا ذکر کرتاہے۔‘‘ وہ صاحب کہنے لگے :’’جب میں ہوش میں آیا جس جگہ اس نے ڈھال ماری تھی اسی جگہ مجھے موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ میں چوٹ لگی تھی۔‘‘ تیرہ چودہ ٹانکے لگے۔ اب بھی میراجبڑاٹھیک سے کام نہیں کرتا۔ تومعلوم ہوا یہ ذکر، یہ مسنون اعمال، یہ صدقہ یا کسی اللہ والے کی دعابڑی اہمیت کی حامل ہیں۔دعا میں بڑی طاقت ہے، دعا میں بڑی تاثیر ہے۔ جس طرح بددعا کے اندرطاقت ہے اسی طرح دعاکے اندربھی طاقت ہے۔ جس طرح بری نظر لگتی ہے اسی طرح اچھی نظر بھی لگتی ہے۔۔ایسی چیزیں بڑی بڑی مصیبتوں سے بچا دیتی ہیں اور بعض اوقات جوچھوٹی مصیبتیں آتی ہیں وہ بڑی مصیبتوں کا ازالہ کر جاتی ہیں۔بظاہر وہ مصیبت بڑی لگتی ہے لیکن جو مصیبت آنی ہوتی ہے وہ اس سے بھی بڑی ہو تی ہے ۔
ایک بزرگ کی منکسرالمزاجی:ایک بزرگ دعا کرتے تھے کہ’’ یا اللہ میرے جو معاملات تیرے ساتھ ہیں، یااللہ اگر وہ سارے کھل جائیں تومیں تواس قابل بھی نہیں کہ مجھے ایک گھونٹ پانی کا ملے، ایک نوالہ روٹی کاملے اور یا اللہ میں اس قابل بھی نہیں کہ مجھے رات کا چین ملے اور دن کا سایہ نصیب ہو، کہ کوئی مجھے اچھی نظر سے بھی دیکھے،یا اللہ میں تواس قابل ہوں کہ کتے مجھے نوچیںاور شہر میں مجھے ذلیل کیا جائے اور میری میت کو بغیر دفن کیے شہر کی گندی کوڑی جگہ پر پھینک دیا جائے ۔یا اللہ یہ تیری عافیت والا نظام ہی ہے جس نے میرے تن من کو ڈھانکا ہواہے اور میرے گوشت کی اس جلد نے میرے عیوب کو چھپایا ہوا ہے۔ الہٰی یہ توتیرا ہی کرم ہے ورنہ میں تو اس قابل تھا کہ میرے ساتھ برا حال ہوتا، یہ تو محض تیری عافیت والا نظام ہے جس نے مجھے پناہ دی ہوئی ہے ۔شکر بھی عافیت کو محفوظ رکھتاہے :جو شکر کرتاہے اس کو بھی بڑی عافیت ملتی ہے جو میسر ہوتاہے اسی کو مؤثر سمجھتاہے ۔ کہتا ہے یااللہ مجھ سے نیچے والے ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس تو یہ بھی نہیں ہے یا اللہ یہ تیرا شکر ہے تو نے مجھے اتنا عطا فرمادیا۔میرے اللہ اگرتو مجھ سے یہ سب چھین بھی لے میں کیا کرسکتاہوں۔نعمتوں کا گھٹنااور بڑھنا شکر پر منحصر: موسیٰ علیہ السلام اللہ رب العزت سے ملاقات کرنے جارہے تھے۔ راستے میںایک بندہ ملا۔ اس نے کہا میری یہ التجاء اللہ کے حضور پیش کرناکہ اس نے اپنے ننگے بدن کے ستر کو ریت میں چھپایاہوا تھا، اس کے پاس ڈھاپنے کیلئے کپڑا بھی نہیں تھا۔تو وہ کہنے لگے کہ: درخواست کرنا کہ اللہ مجھے بھی کچھ عطا فرمادے ۔آگے ایک اور صاحب تھے وہ کہنے لگے کہ: اللہ پاک سے میرے لیے دعاکیجئے گا کہ میرے پاس مال اتنازیادہ ہے کہ میں اپنے مال کو سنبھال نہیں سکتا توآپ اللہ پاک سے عرض کریں کہ وہ میرے مال کو تھوڑاکم کردے۔
اب موسیٰ علیہ السلام نے ان دونوں کے مسائل اللہ کی خدمت میں عرض کیے تو اللہ پاک نے فرمایا !موسیٰ!جو پہلا تھا جس کے پاس کچھ نہیں تھا اسے کہیں کہ وہ میرا شکر ادا کرے۔ہر پل میرا شکر اداکرے اورجو دوسرا شخص ہے جو کہتا ہے میرے پاس بہت کچھ ہے اسے کہیںکہ وہ میری ناشکری کرے ۔اب موسیٰ علیہ السلام ان دونوں کے پاس واپس پلٹے پہلے وہ ملا جس کے پاس زیادہ مال تھا وہ اپنے انار کے درخت سے انار کھارہا تھاتو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایاکہ تو اللہ پاک کی ناشکری کر ، تو حیران کے ساتھ اس کے ہاتھ سے انارگِر گیا اور اس کا ہر ہر دانا موتی و لعل بن گیا۔ اور کہنے لگاکہ مجھے اتنامیرا کریم عطا کرے اور میںاسکی ناشکری کروں؟ اےموسیٰ علیہ السلام میں ایسا نہیں کرسکتا ۔تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا توپھر تم فقیر بھی نہیں ہوسکتے۔جو دوسراشخص تھاجس نے اپنا ستر ریت میں چھپایا ہوا تھا ، جب موسیٰ علیہ السلام اس کے پاس آئے اور اللہ کا پیغام سنایا کہ شکر کرتو اس نے کہا کہ اللہ نے دیا ہی کیا ہے جو میں شکر کروں؟ یکا یک ہوا چلی اور جو ریت اس پر تھی وہ بھی اُڑا لے گئی۔
توعافیت کے نظام کے میسر ہونے نہ ہونے کے اسباب جومیں عرض کررہاہوںان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کیا کریں۔ بعض اوقات اللہ بہت نعمتیں دے دیتاہے، بہت کرم فرمادیتا ہے،لیکن بندے کے اندر شکر کا نظام نہیں چلتاوہ ناشکری کرتا رہتاہے ،اور جب مکافات عمل ہوتاہے پھر کہتا ہے کہ میں پریشان ہوں ،میری طبیعت گھٹی گھٹی سی ہے، بس فلاں چیز ہے، معلوم ہوا کہ اس کو شکرکی توفیق اورنعمت کی قدر نصیب نہیں ہوئی ۔ اگر شکر کی توفیق اورنعمت کی قدردانی اس کو میسر ہو جاتی تویہ جھک جاتا تویہ کہتاکہ یااللہ تیرا اتنا شکر ہے، تونے مجھے اتنا عطا فرمادیا، اللہ میں تو اس قابل تھاجو وہ بزرگ کہتے تھے کہ میری میت کو کوڑی پر پھینک دیا جائے۔
شیطان کی مکاریاں،اور نفس کی ہوشیاریاں: شیطان بندے کو اس کی سیاہ کاریاں نہیں دکھاتا، اس کی خطائیں نہیں دکھاتا، کہ اس نے دن رات میں میرے رب کو کتنا راضی کیا ہے یا کتنا ناراض کیا یہ نہیں دکھاتا بلکہ اسے اس کی پریشانیاں،مصیبیتں دکھاتاہے ۔(نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) بے شمار لوگ میرے سامنے بیان کرتے ہیں’’کہ ہم کیا کوئی دنیا کے سب سے بڑے مجرم ہیںجوہم پرہی ساری مصیبتیں ٹوٹیں ‘‘ ارے وہ کیا جانے؟ کہ ہم تواس قابل تھے کہ ہمیں کتے نوچتے ،وہ تو کریم نے پھر بھی بھرم رکھاہوا ہے۔ کریم نے پھر بھی عزت رکھی ہوئی ہے، اس کریم نے پھر بھی روٹی، لقمہ اور سانس جیسی نعمتیںدے دی ہے۔ اس طرف نظر نہیں ڈالوکہ ہماری زندگی کے دن رات کیسے گزر رہے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں