بلاشبہ وہ اہم ترین بات جس کی طرف ایک ذہین طالب علم کو اپنی چڑھتی جوانی میں سبقت کرنی چاہیے اور نفس کو اس کے حصول میں تھکا دینا چاہیے وہ حسن ادب ہے۔ چنانچہ فرمایا: ”حسن ادب ایک ہنر مند طالب علم کا زیور ہے جس کے ذریعے وہ پروان چڑھتا ہے اور بلندی کے مقامات طے کرتا ہے اور اسی حسن ادب کی بنا پر علم میں نور پیدا ہوتا ہے، پختگی اور وسعت پیدا ہوتی ہے۔“ جب حضرت امام قاضی ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ سے ان کے درجہ قضاءتک پہنچنے کی بابت سوال کیا گیا تو حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے جواب میں ارشاد فرمایا۔
مَا بَلَغَ مَن بَلَغَ اِلاَّ بِالحُرمَہِ
وَمَا سَقَطَ مِن سَقَطَ اِلاَّ بِتَرکِ الحُرمَہِ
فرمایا: ”کوئی بھی بلندیوں پر حسن ادب حاصل کیے بغیر نہیں پہنچا اور کوئی بھی بلندیوں سے نہیں گرا مگر حسن ادب کے ترک کرنے کی وجہ سے“۔
معلوم ہوا حسن ادب ہی اصل چیز ہے جس کی وجہ سے طالب علم کے علم میں نور پیدا ہوتا ہے۔ اسی بنا پر وہ بلندیوں کا سفر طے کرتا ہے جہاں ہر کس و ناکس کی رسائی ممکن نہیں اور فرمایا محض پڑھنے پڑھانے سے علم تو حاصل ہو جاتا ہے مگر علم کا نور حاصل نہیں ہوتا۔ علم کا نور تو اساتذہ اور کتابوں کے ادب سے حاصل ہوتا ہے۔
مشقت برداشت کرنا
اسی طرح حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کا واقعہ جو قرآن مجید میں مذکور ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حصول علم کیلئے مثالی کردار ادا کیا۔ جب سفر کا آغاز فرمایا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ”اَو اَمضِیَ حُقُبًا“ یعنی یونہی سالہا سال تک چلتا رہوں گا باوجود یہ کہ یہ سفر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر لازم و واجب نہیں تھا مگر حصول فضائل کیلئے آپ نے اس پر مشقت سفر کو برداشت کیا۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا: لَقَد لَقِینَا مِن سَفَرِناَ ہَذَا نَصَبًا (سورئہ کھف: آیت نمبر 62)”ہمیں تو اس سفر میں بہت تکلیف پہنچی ہے۔“
فرمایا جب موسیٰ علیہ السلام کی حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو بات چیت کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے سفر کا قصدان الفاظ میں ظاہر فرمایا ہَل اَتَّبِعُکَ عَلٰی اَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمتَ رُشدًا (سورئہ کھف: آیت نمبر 66)”کیا میں آپ کے ساتھ اس شرط پر رہ سکتا ہوں کہ جو مفید اور بھلی چیز آپ کو سکھائی گئی ہے اس میں سے تو کچھ مجھ کو بھی سکھا دیں۔“ یہ در حقیقت ایک درخواست تھی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام کے سامنے پیش فرمائی۔
حصول ادب کے طریقے
اسی طرح حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے ادب کیسے حاصل کیا؟ جواب میںارشاد فرمایا کہ جیسے ماں اپنے گم شدہ اکلوتے بیٹے کو بے صبری اور بے چینی کی حالت میں تلاش کرتی ہے، اسی طرح میں نے بھی ادب حاصل کیا اور جستجو میں لگا رہا۔ اسی طرح جب حضرت لقمان حکیم سے پوچھا گیا کہ آپ نے ادب کیسے حاصل کیا، فرمایا بے اَدبوں سے۔ اللہ اکبر!
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنی جلالت شان کے باوجود حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی باگ تھام کر ان کے آگے آگے چلتے تھے۔ ان سے کہا گیا کہ آپ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور آپ ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کی باگ تھامے ہوئے ہیں؟ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب ارشاد فرمایا ”اِنَّہ یَنبَغِی لِلحِبرِ اَن یُّعَظَّمَ وَیُشَرَّفَ“ بڑے عالم کیلئے مناسب ہے کہ اس کی تعظیم و تکریم کی جائے“۔
مزید ارشاد فرمایا کہ میں نے طالب علم بن کر ذلت اختیار کی تو مجھے مطلوب بن کر عزت دی گئی۔ اب عزت چاہنے والے کیلئے یہی طریقہ ہے کہ عاجزی اور خدمت استاد اختیار کریں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس قرآن کریم سیکھنے کیلئے جایا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ ان کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے مگر دستک نہ دیتے اس بات کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے برا جانا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد میرے دروازے پر اس طرح تکلیف اٹھائیں تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آپ نے دروازے پر دستک کیوں نہ دی، تو جواب میں فرمایا کہ عالم شخص ہماری قوم میں ایسے ہیں جیسے نبی اپنی اُمت میں ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے نبی کے بارے میں ”وَلَو اَنَّہُم صَبَرُوا حَتّٰی تَخرُجَ اِلَیہِم لَکَانَ خَیراً لَّہُم۔(سورہ الحجرات: آیت نمبر 5) اور یہ لوگ ذرا صبر سے کام لیتے یہاں تک کہ آپ خود ان کے پاس تشریف لے آتے تو یہ ان کیلئے بہتر ہوتا۔ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت کرنے والا نہایت مہربان ہے۔“
حضرت علامہ آلوسی رحمتہ اللہ علیہ ، صاحب روح المعانی نے فرمایا: ”یہ واقعہ میں نے بچپن میں سنا تھا بڑے ہو کر اس پر عمل کیا اور اپنے اساتذہ کے ساتھ یہی معاملہ کیا۔“
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں