داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہ (پھلت)
باپ بیٹے میں کافی عرصہ سے قضیہ چل رہا تھا‘ لوگوں نے اصرار کیا کہ براہ کرم آپ جاکر دونوں کو سمجھا کر صلح کروا دیں‘ مولانا عمران صاحب ان کے تعلق کا لحاظ کرتے ہوئے ان کے گھر چلےگئے‘ دیکھا تو ان کا بیٹا تہذیب جدید کا پروردہ خاندانی روایات کی پاسداری اور بڑے چھوٹوں کے آداب و حقوق سے نابلد کچھ زیادہ ہی بھاری نظر آرہا تھا‘ بیچارہ باپ سن رہا تھا اور بیٹا سنا رہا تھا باپ نے دیر تک سننے کے بعد بڑے جذبات میں بیٹے سے یہ پوچھا اچھا سب بات چھوڑ کر یہ بتا کہ تو میری اولاد اور میں تیرا باپ ہوں یا نہیں‘ بیٹے نے بڑے طیش میں آکر کہا ماں سے پوچھ کر بتاؤں گا‘ بیچارہ باپ جو اب تک بیٹے کی ہر کڑوی کسیلی کو ٹھنڈے دل سے سن رہا تھا بے قابو ہوگیا‘ غصہ سے آنکھیں سرخ ہوگئیں‘ منہ سےجھاگ آگیا اور کانپنے لگا‘ کمزور باپ ہٹے کٹے جوان بیٹے پر اپنا غصہ اتارنے کے حال میں تو نہیں تھا ناچار جلال سے بے قابو ہوگیا اور بیٹےسے بولا: زندگی میں تیری ہر بات برداشت ہوئی مگر تیری یہ کمینی حرکت میں برداشت نہیں کرسکتا‘ اس زخم کو نہ کبھی بھول سکتا ہوں اور نہ معاف کرسکتا ہوں‘ اگر اللہ تعالیٰ نے کل قیامت میں مجھ سے یہ بھی کہا کہ تو اس کو معاف کر ورنہ دوزخ میں ڈال دوں گا تو میں دوزخ میں جانا قبول کرلوں گا مگر تجھے معاف نہیں کروں گا‘ تجھے یہ بھی گمان ہے کہ میرے علاوہ تیرا کوئی اور باپ بھی ہوسکتا ہے صرف اتنا ہی نہیں بلکہ باپ کو بیٹے کی اس حرکت پر اتنا جلال اور غصہ تھا کہ جب اس سے کچھ بن نہیں پڑا تو اپنا سر سامنے کی دیوار میں جا مارا اور سر کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ مولانا نے جب سے یہ واقعہ سنایا اس حقیر کو مسلسل خیال آرہا ہے کہ باپ اصل میں کسی انسان کو پیدا کرنے والا نہیں ہوتا‘ اگر باپ کے بس میں اولاد کی پیدائش ہوتی تو کتنے لاولد والدین زندگی بھر ہرجتن اور علاج کرکے ہار جاتے ہیں اور مایوسی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے یہاں سے ان کے یہاں گود بھرنے کافیصلہ نہیں ہوتا۔
باپ بیٹے کے حصہ کی صرف وہ نعمتیں اور حقوق جو رب کائنات باپ کو دے کر بھیجتا ہے بس ان کو ادا کرنے والا ہوتا ہے‘ ورنہ باپ خود ہر طرح کمزور‘ بے بس‘ عاجز‘ ناپاک بوند سے پیدا کیا ہوا احکم الحاکمین کا ایک بندہ اور مخلوق ہے جب ایک باپ صرف اس بنا پر کہ بیٹے نے وقتی انفعال میں محض باپ کو چڑانے کیلئے کہہ دیا کہ ماں سے پوچھ کربتاؤں گا‘ صاف شرک کا الزام بھی نہیں لگایا‘ اتنا مشتعل ہوگیا تو کائنات کے خالق‘ مالک الملک کی ذات صفات اور اس کی عبادت میں شرک کرنا کس قدر کم ظرفی‘ گری ہوئی حرکت اور اللہ تعالیٰ کو غضب میں لانے والا عمل ہوگا‘ اسی لیے رب کائنات نے اپنے کلام میں شرک کی مذمت اور برائی بہت زور دار الفاظ میں ذکر کی ہے‘ کبھی ارشاد ہوا ’’جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ ایسا ہے گویا وہ آسمان سے گرا ہوا اور پرندہ اسے اچک لے اور ہوا اسے دور دراز جگہ پر اڑائے پھرتی ہو‘‘
کسی جگہ ارشاد فرمایا: ’’ قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائے اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں اس بات سے کہ وہ رحمٰن کیلئے اولاد کو پکارتے ہیں‘‘ (مریم90،91)
ساری نعمتیں اللہ رب العزت کی استعمال کرکے غیراللہ کیلئے کچھ کرنا اور اس کی ذات و صفات اور عبادات میں کسی دوسرے کو شریک کرنا خود فطرت انسانی کے خمیر اور مزاج کے خلاف ہے‘ پھر یہ انسان اللہ تعالیٰ کے مقابلہ غیر اللہ کی رضا اور خوشنودی کیلئے اپنی صلاحیتوں کو لگائے تو یہ کیسی ناانصافی اور ظلم ہے‘ خصوصاً غیراللہ کو راضی کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے کی راہ پر چلنا خود اس کے مطلبی سرشت اور مزاج کے بھی خلاف ہے جبکہ اس کو یہ معلوم ہے کہ انسان کو عزت، ذلت دینے والا‘ نفع و نقصان پہنچانے میں کسی کاذرا برابر بھی دخل نہیں ہے‘ اس لیے اگر انسان کو اپنے بھلے بُرے کا ذرا برابر بھی شعور ہے اور اپنی فطرت سلیمہ کا ذرا بھی پاس و لحاظ ہے تو اسے شرک کے شائبہ سے بھی دور رہنا چاہیے میرے حضرت والا حضرت مولانا علی میاں نور مرقدۂ فرمایا کرتے تھے اگر ایمان والے کو شرک سے پاخانہ سے زیادہ کراہیت اور گھن نہیں آتی تو ایمان کا بچنا مشکل ہے۔ کاش رب کریم ہمیں شرک سے کراہیت اور توحید خالص کا ذوق صحیح عطا فرمادیں!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں