Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

قاتلانِ امام حسین رضی اللہ عنہٗ کابھیانک انجام

ماہنامہ عبقری - اکتوبر 2016ء

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت یعلی بن مرہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسین میرے ہیں اور میں حسین کا، جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے، حسین میرے ایک نواسے ہیں۔

حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے نواسے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ و حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے چھوٹے صاحبزادے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت شعبان 4 ہجری میں ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی ان کا نام حسین رکھا، آپ رضی اللہ عنہ کو شہد چٹایا، آپ رضی اللہ عنہ کے منہ میں اپنی زبان مبارک داخل کرکے لعاب مبارک عطا فرمایا اور ان کا عقیقہ کرنے اور بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا نے ان کے عقیقہ کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی۔ اپنے بڑے بھائی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ رضی اللہ عنہ سے بھی غیر معمولی محبت اور تعلق تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ کی عمر چھ یا 7 سال تھی لیکن یہ چھ ، سات سال آپ ﷺ کی صحبت اور شفقت و محبت میں گزرے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خاص لطف و کرم اور محبت کا برتائو کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے آخری زمانہ خلافت میں آپ رضی اللہ عنہ نے جہاد میں شرکت کی اور پھر بہت سے معرکوں میں شریک رہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب باغیوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں بیٹوں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو آپ رضی اللہ عنہ کے گھر کی حفاظت کیلئے مقرر کردیا تھا ۔ حضرت امام حسن اور امیر معاویہ کی وفات کے بعد کوفہ والوں کے اصرار پر ان کی بیعت لینے کیلئے کوفہ کے لئے اپنے گھرانے کے ساتھ تشریف لے چلے، ابھی مقام کربلا ہی تک پہنچے تھے کہ یزید کے لشکر نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے خاندان کو گھیرلیا اور واقعہ کربلا پیش آیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ یزیدی لشکر کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔ تاریخ 10 محرم 61 ہجری ہے، اس وقت عمر شریف تقریباً 55 سال تھی۔ 

رسول اللہ ﷺ کی نسل مبارک حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا سے چلی ہے اور ان کی اولاد میں حضرات حسنین اور ان کی دو بہنیں حضرت زینب اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہم اجمعین ہی آپ ﷺ کی بقاء نسل کا ذریعہ بنے ہیں۔
قاتلان امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا انجام:حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنۂ کے قاتلوں کاانجام بڑا عبرتناک ہوا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے مقام اورمرتبے سے کون سا مسلمان ہے جو ناواقف ہوگا۔ وہ صحابیت کے شرف کے حامل تھے‘ وہ نواسہ رسول ﷺ تھے‘ وہ ابن بتول رضی اللہ عنہا تھے‘ وہ حیدر کرار رضی اللہ عنہٗ کے فرزند تھے‘ ان کا زہد و تقویٰ مثالی تھا‘ وہ صورت و سیرت میں اپنے نانا سے بڑی مشابہت رکھتے تھے مگر ظالموں کو نہ جانے کیا ہوگیا تھا کہ انہوں نے سب کچھ فراموش کردیا‘ خونی اور مذہبی رشتوں کا بھی پاس نہ رکھا اور خاندان نبوت کے گل و لالہ کو ظلم کی چکی میں پیس کر رکھ دیا لیکن ان میں سے کوئی بھی ظلم کے انجام بد سے نہ بچ سکا۔ امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے قاتلوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ بچا جو کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا نہ ہوا ہو۔ بعض اندھے ہوگئے‘ بعض خوفناک بیماریوں میں مبتلا ہوگئے‘ بعض پاگل اور دیوانے ہوگئے‘ بعض کو اذیتیں دے کر قتل کردیا گیا۔ جب عبدالمالک بن مروان کے زمانے میں مختار بن ابی عبید ثقفی نے کوفہ پر قبضہ کرلیا تو اس نے اپنا مشن ہی یہ بنالیا تھا کہ وہ کربلا میں ستم ڈھانے والوں کی ٹوہ میں لگا رہتا تھا اور انہیں چن چن کر اپنی خونی تلوار کا نشانہ بناتا تھا، اس کے سامنے جب ایسے لوگوں کو لایا جاتا تو وہ ان میں سے کسی کے ہاتھ کٹوا دیتا، کسی کو تیروں سے مروا دیتا اور کسی زندہ جلا دیتا۔ (اقتباس: ندائے منبر و محراب از مولانا محمداسلم شیخوپوری شہید)
حضرات حسنین رضی اللہ عنہم اجمعین کے فضائل و مناقب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نواسے اور آپ رضی اللہ عنہ کے صحابی ہونے کا شرف کیا کم ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرات حسنین رضی اللہ عنہم سے بہت محبت تھی۔ شفقت و محبت کا یہ عالم تھا کہ یہ دونوں بھائی بچپن میں حالت نماز میں آپ ﷺ کی کمر مبارک پر چڑھ جاتے کبھی دونوں ٹانگوں مبارک کے بیچ میں سے گزرتے رہتے اور آپ ﷺ نماز میں بھی ان کا خیال کرتے، جب تک وہ کمر پر چڑھے رہتے، آپﷺ سجدہ سے سر مبارک نہ اٹھاتے۔ آپ ﷺ اکثر آپ رضوان اللہ علہم اجمعین کو گود میں لیتے، کبھی کندھے مبارک پر سوار کرتے آپ رضی اللہ عنہ کا بوسہ لیتے آپ رضی اللہ عنہ کو سونگھتے اور فرماتے: انکم لمن ریحان اللہ‘‘ تم اللہ کی عطا کردہ خوشبو ہو۔ ایسے ہی ایک موقع پر حضرت اقرع ابن حابس رضی اللہ عنہ نے عرض کردیا:  اے اللہ کے رسول ﷺ! میرے تو دس بیٹے ہیں لیکن میں نے آج تک کسی کا بوسہ نہیں لیا۔ آپ ﷺ نے انہیں فرمایا: جو رحم نہیں کرتا، اس پر بھی منجانب اللہ رحم نہیں کیا جاتا۔ آیت تطہیر کے نزول کے بعد آپﷺنے حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا اور حضرات حسنین کریمین کو اپنی ردائے مبارک (چادر مبارک) میں داخل فرماکر اللہ سے عرض کیا:ترجمہ: اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے گندگی کو دور فرمادیجئے اور پاک و صاف کردیجئے۔ (ترمذی شریف) صحیح بخاری میں حضرت عدی بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھے پر سوار کئے ہوئے تھے اور یوں دعا کررہے تھے: اے اللہ! یہ مجھے محبوب ہے، آپ بھی اسے اپنا محبوب بنالیجئے۔(بخاری و مسلم)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ہی حضرات حسنین کریمین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مناقب میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ ان سے کسی عراقی نے مسئلہ دریافت کیا کہ محرم اگر مکھی مار دے تو کیا کفارہ ہے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بڑی ناگواری سے جواب دیا کہ اہل عراق مکھی کے قتل کا مسئلہ پوچھنے آتے ہیں اور نواسۂ رسول ﷺ (حضرت حسین رضی اللہ عنہ) کو قتل کردیا، حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں نواسوں کے بارے میں فرمایا تھا: یہ دونوں میرے لئے دنیا کی خوشبو ہیں۔ (صحیح بخاری)امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی ہے کہ میں کسی ضرورت سے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپﷺ گھر کے باہر اس حال میں تشریف لائے کہ آپﷺ دونوں کوکھوں پر (یعنی گود میں) کچھ رکھا ہوا تھا اور چادر مبارک اوڑھے ہوئے تھے، میں جب اپنے کام سے فارغ ہوگیا تو عرض کیا یہ کیا ہے؟ آپﷺ نے چادرمبارک ہٹادی، میں نے دیکھا کہ ایک جانب حسن رضی اللہ عنہ اور دوسری جانب حسین رضی اللہ عنہ ہیں اور فرمایا:ترجمہ: اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، آپ بھی ان سے محبت فرمائیے اور جو ان سے 
محبت کرے اس کو بھی اپنا محبوب بنالیجئے۔ (ترمذی)دعائیہ کلمات صحیح سندوں سے حدیث کی متعدد کتابوں میں مروی ہیں اور اس میں کیا شک ہے کہ آپ ﷺ کے دونوں نواسے اللہ کے بھی محبوب اور اللہ کے رسول ﷺ کے بھی محبوب اور ان دونوں سے محبت رکھنے والے بھی اللہ اور اس کے رسول کے محبوب ہیں، ایک بار ایسا ہوا کہ آپ ﷺخطبہ ارشاد فرمارہے تھے، دونوں نواسے تشریف لے آئے‘ آپ ﷺ نے خطبہ روک کر ان دونوں کو اٹھالیا اور اپنے پاس بٹھایا پھر باقی خطبہ پورا کیا۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت یعلی بن مرہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: حسین میرے ہیں اور میں حسین کا، جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے، حسین میرے ایک نواسے ہیں۔ (جامع ترمذی)حسین منی انامن حسین کے کلمات انتہائی محبت، اپنائیت اور قلبی تعلق کے اظہار کیلئے ہیں، اس کے بعد وہی دعائیہ کلمات ہیں، جن کے متعلق عرض کیا کہ یہ الفاظ متعدد روایات میں مذکور ہیں، اس مضمون کی کئی روایات امام ترمذی نے مناقب الحسن والحسین رضی اللہ عنہم کے عنوان کے تحت ذکر کی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی والدہ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو سیدۃ نساء اھل الجنۃ (جامع ترمذی) اور دونوں بھائیوں رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سید اشباب امل الجنۃ (جامع ترمذی) فرمایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خصوصاً حضرات شیخین (حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما) کا معاملہ بھی آپ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ بہت ہی لطف و کرم کا رہا، ابھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں گزرا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو گود میں اٹھالیا تھا بلکہ بعض روایات میں تو کندھے مبارک پر بٹھانے کا ذکر ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں دونوں بھائیوں کاوظیفہ اہل بدر کے وظائف کے بقدر پانچ پانچ ہزار درہم مقرر کیا اور اس کی وجہ رسول اللہ ﷺ کی قرابت بیان کی، حالانکہ حسنین کریمین رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے آخر میں بالکل نوجوان ہی تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت کا واقعہ ہے کہ وہ مسجد نبوی ﷺ میں رسول اللہﷺ کے منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا: میرے باپ (نانا جان) کے منبر سے اترو اور اپنے والد کے منبر پر جاکر خطبہ دو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے باپ کا تو کوئی منبر نہیں ہے یہ فرمایا اور آپ رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس منبر پر بٹھالیا اور بہت اکرام و لطف و محبت کا معاملہ فرمایا۔ آپ رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں یمن سے کچھ حلے (چادروں کے جوڑے)  آئے، آپ رضی اللہ عنہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بیٹوں میں تقسیم کردیئے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کیلئے ان سے بہتر حلے منگوائے اور حسنین کریمین رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دئیے اور فرمایا اب میرا دل خوا ہوا ہے۔ (سیراعلام النبلاء)۔حسنین کریمین رضوان اللہ علیہم اگرچہ کثیرالروایت نہیں لیکن پھر بھی براہ راست رسول اللہﷺ اور اپنے والدین سے احادیث رسول اللہ ﷺ نقل کرتے ہیں۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ بہت ہی عبادت گزار تھے، آپ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بار بار مدینہ سے پیدل سفر کرکے حج کئے ہیں۔ اللہ کے راستہ میں کثرت سے مال خرچ کرتے تھے، جودوسخا، ماں باپ اور نانا جان سے وراثت میں ملی تھی۔ رضی اللہ عنہما و ارضاھما‘‘۔ (بشکریہ! ختم نبوۃ)

 

Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 151 reviews.