یہ وہ دور ہوتا ہے جب آپ اپنے سراپے پر بہت زیادہ توجہ دینے لگتے ہیں اور اپنے چہرہ کا دوسرے افراد کے چہروں سے موازنہ کرتےہیں۔ اسی طرح آپ کے لباس میں فیشن کے انداز اور رنگ ڈھنگ بھی بدلتے ہیں۔
لڑکپن میں غذا کے معاملہ میں دو باتیں اہم ہوتی ہیں۔ معیار اور مقدار۔ لڑکپن اور بلوغت کا دور انسانی جسم میں نہایت اہم تبدیلیوں کا دور ہوتا ہے۔ نو سے اٹھارہ سال کے لڑکے اور لڑکیاں اس عمر میں ہی تبدیلیوں کے اثرات سے گزرتے ہیں۔ اسی دور میں ہارمونز کی سطح میں تبدیلی سے جسم کی نشوونما بہتر انداز میں ہوتی ہے تاہم ہارمونز کی تبدیلی سے کبھی کبھار مسائل بھی کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مثلاً اس دوران اکثر نوجوانوں کے چہرے پر کیل دانے اور مہاسے ابھرآتے ہیں اور مزاج میں تبدیلی آجاتی ہے۔ ایسے میں کبھی کبھی تو آپ بہت اچھا محسوس کرتے ہیں اور خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور کبھی کبھی آپ پر غمگین کیفیت طاری ہوجاتی ہے آپ کو ایسے لگتا ہے جیسے آپ کا چہرہ پرکشش نہیں رہا۔ یہ وہ دور ہوتا ہے جب آپ اپنے سراپے پر بہت زیادہ توجہ دینے لگتے ہیں اور اپنے چہرہ کا دوسرے افراد کے چہروں سے موازنہ کرتےہیں۔ اسی طرح آپ کے لباس میں فیشن کے انداز اور رنگ ڈھنگ بھی بدلتے ہیں۔ یہی عمر ہوتی ہے جب آپ مختلف کتابیں اور رسائل دیکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں اس عمر میں سب سے زیادہ جس چیز کی آپ کو ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ متوازن خوراک ہے۔ جتنا ممکن ہوسکے مختلف اجزا پر مشتمل غذاؤں کا استعمال کریں جب ہی آپ اپنے جسم میں ہونے والی ہارمونز کی تبدیلیوں کے مضراثرات سے بچ سکیں گے۔
اکثر نوجوانوں کی غذائی عادات والدین کو پریشانی میں مبتلا کردیتی ہیں۔ مثلاً ناشتہ نہ کرنا‘ وزن کم کرنے والی غذا کھانا یا اس کے برعکس زیادہ حرارے دار مرغن و شیریں یا فوری تیار ہونے والی غذائیں‘ فاسٹ فوڈز کا شوق و رغبت سے استعمال۔ نوجوانوں کی ضرورت غذا زیادہ اور اشتہا بڑھ جاتی ہے کیونکہ لڑکپن میں حرکت و فعالیت عروج پر ہوتی ہے۔ آئندہ زندگی کی تیاری اور تندرستی کا دارومدار بھی اسی دور کی غذا پر ہے۔ مناسب غذا سے لڑکپن کی نشوونما بھی مناسب رہتی ہے۔ یہ نشوونما اس قدر زیادہ ہوتی ہے جو ماسوا زمانہ شیرخوارگی کے کسی اور زمانے میں نہیں ہوتی۔
لڑکپن میں جسمانی نشوونما یا بلوغت کی تکمیل ہوتی ہے۔ اس دوران جسم کو خوب غذائیت چاہیے۔ اس عمر کے لڑکوں میں عضلات پٹھوں اور ہڈیوں کی نشوونما میں اضافہ ہوتا ہے۔ لڑکیوں کو 2100 سے 2200 اور لڑکوں 2800 تک حراروں کی ضرورت روزانہ ہوتی ہے۔ بالعموم یہ کہا جاسکتا ہے کہ لڑکپن میں اسی قدر غذا کی ضرورت ہے جس قدر سخت جسمانی محنت کرنے والےمحنت کش کی یعنی 2500 سے 3000 حرارے روزانہ بھی ہوسکتےہیں۔ بہرحال اس کا انحصار جسمانی فعالیت پر ہے۔ فٹ بال کھیلنے والے لڑکوں کو چارہزار حرارے روزانہ کی ضرورت پڑسکتی ہے یعنی لڑکپن میں صحت کی بحالی اور بڑھوتری اور نشوونما گروتھ کیلئے ان اجزا کا خیال رکھنا چاہیے۔ پروٹین: پروٹین سے آپ کے جسم کو توانائی ملتی ہے‘ یہ گوشت‘ مچھلی‘ بادام‘ اخروٹ‘ دالوں‘ دودھ‘ دہی اور پنیر میں ہوتےہیں۔ کاربوہائیڈریٹس: اس میں شکر اور نشاستہ یہ دونوں شامل ہیں۔ شکر: اس سے جسم میں قوت و بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ سفید چینی‘ راب‘ شہد‘ مٹھائیاں‘ فرنی کھیر‘ پڈنگ اور حلوہ ان کے علاوہ گنا اور دوسرے شیریں پھل‘ جام جیلی اور مربہ جات بھی شکر کے زمرے میں ہی آتے ہیں‘ خشک میوہ جات میں کشمش‘ کھجور اور انجیر کا شمار بھی شکر ہی کی قسم میں ہوتا ہے۔نشاستہ: اس سے جسم میں حرارت اور انرجی پیدا ہوتی ہے۔ دال‘ چاول اور مختلف اناجوں میں نشاستہ اچھا خاصا موجود ہوتا ہے۔ سوئیاں‘میدہ‘ بیسن کے پکوان‘ آلو‘ اروی‘ شکرقند وغیرہ بھی نشاستہ کے زمرے میں آتے ہیں۔ بعض غذاؤں میں نشاستہ و شکر مشترک طور پر پائے جاتے ہیں جیسے میٹھے چاول‘ فرنی‘ کھیر‘ پڈنگ اور حلوہ وغیرہ۔ ریشہ دار غذائیں: اچھی صحت کیلئے غذائی ریشے کی بڑی اہمیت ہے خاص طور پر لڑکپن میں غذائی ریشہ پر مشتمل غذاؤں کے استعمال سے ہضم کا نظام چست رہتا ہے۔ غذائی ریشے کے استعمال سے خون میں کولیسٹرول کی سطح بھی کم رہتی ہے کیونکہ یہ غذا میں شامل رہنے والی فاضل چکنائیوں کو خوب جذب کرکے انہیں خون میں شامل ہونے سے روکتا ہے۔ سبزیاں، اناج، پنیر، بادام، اخروٹ، پھل غذائی ریشہ کے اچھے ذرائع ہیں۔ معالجین روزانہ دن میں تین سبزیاں اور دو پھلوں کے علاوہ بے چھنے آٹے کی روٹی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ پھلوں میں عام طور پر آڑو، کینو، موسمی، مالٹے، سیب، بہی اور کیلے زیادہ کھائے جاتے ہیں۔ چکنائی والی غذائیں: آپ کے جسم کو تھوڑی چکنائی کی بھی ضرورت پڑی ہے۔ اس لیے چکنائی والی غذاؤں کا استعمال بھی ضروری ہے مگر اس کی مقدار زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ورنہ یہ نہ صرف آپ کی چربی بڑھا کر موٹا کریں گی بلکہ دل پر بھی اس کے مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ چکنائی والی غذاؤں میں مکھن، پنیر، دودھ، گوشت، کچھ ساس اور فرائیڈ فوڈز شامل ہیں۔ وٹامن: وٹامن ایسے کیمیائی مادے ہوتے ہیں جن کا غذا میں مناسب مقدار میں ہونا بہت ضروری ہے ورنہ صحت میں فرق آجاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وٹامن جسم کے اندر بہت کم مقدار میں پیدا ہوتے ہیں چنانچہ غذا میں ان کی اتنی مقدار ہونی چاہیے جس سے صحت قائم رکھی جاسکے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں