ایک صاحب مجھے چبھتے چبھتے الجھتے الجھتے اور اکتائے اکتائے لہجے کے ساتھ کہنے لگے آپ اپنے درس میں سود کی باتیں کرتے ہیں‘ ساری دنیا کی معیشت سود پر چل رہی ہے آخر یہ سود کافروں کو نقصان کیوں نہیں دیتا؟ اور مسلمانوں کو کیوں دیتا ہے؟ اور پھر خود کہنے لگے واقعی مسلمانوں کو بھی نہیں دیتا‘ معذرت سے کہتا ہوں یہ آپ کا فوبیا ہے! (یعنی دوسرے لفظوں میں آپ خود بھی پاگل ہیں اور لوگوں کو بھی پاگل بنارہے ہیں۔) ان کی بات سن کر میں نے ٹھنڈی آہ بھری اور مؤدبانہ درخواست کی کہ شاید آپ عالمی میڈیا سے رابطہ کم رکھتے ہیں‘ اتنا زیادہ رابطہ میرا بھی نہیں لیکن جتنا رابطہ ہے اس رابطے نے انٹرنیشنل تاجروں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ سود کسی مذہب میں بھی جائز نہیں‘ وہ ہندو مذہب ہو‘ سکھ مذہب ہو‘ عیسائی مذہب ہو‘یہودی مذہب ہو یا اسلام ہو۔۔۔ تو سود سے اگر چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو تمام مذاہب کا مطالعہ کریں۔ ورنہ پھر ہماری بات مان جائیں۔ کچھ عرصہ پہلے ریڈر ڈائجسٹ جو کہ انٹرنیشنل لاکھوں میں چھپنے والا واحد میگزین ہے اور جس میں غیرمصدقہ تحریر چھپنا کسی نے آج تک گمان بھی نہیں کیا کہ اس میں کوئی ادھرا دھر کی بات چھپ سکتی ہے سب تحریریں اس میں تصدیق شدہ ہوتی ہیں۔ اس میں ایک تجزیہ تھا جو مجھے ایک معتبر آدمی نے رسالے سمیت بتایا کہ اگر نائن الیون کے بعد جو عالمی حالات پیدا ہوئے ہیں معاشی بحران‘ جنگیں‘ نفرتیں اور غربت اور مہنگائی کا بڑھتا ہوا ایک سیلاب۔ یعنی اگر اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو اپنی عالمی معیشت کو سود سے پاک کریں۔ جب میں نے ان کو یہ بات کہی انہیں میری بات کا یقین نہ آیا کہ یہ بات انگریز بھی کبھی کہہ سکتا ہے یا اس کے منہ سے کبھی نکل سکتی ہے۔ میں نے اسے کہا کہ وہ خود حوالہ تلاش کریں آخر وہ کھوجی حوالہ تلاش کرکے لے آیا اور حیران و پریشان بیٹھا تھا اس کے بعد نامعلوم اسے کیا ہوا نیٹ کی دنیا میں گھوما اور اس نے پھر جو سود کے بارے میں عالمی دنیا کے تاثرات تجریے تجربات اور منفی رویے تلاش کرکے مجھے دئیے وہ تو اتنے تھے کہ انسان سارے کام چھوڑ کر بس اسی کو پڑھنے بیٹھ جائے۔ سود کے بعد زندگی میں کیا ہنگامے بربادیاں طوفان مسائل اور مشکلات پیدا ہوتے ہیں اس کا چھوٹا سا عکس میں اس خط کی مختصر تحریر سے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں:۔میرا گھر پرانے دھوبی گھاٹ کے قریب ہے‘ میں اس راستے میں ذاتی تین مرلے کے مکان میں رہتی ہوں۔ میرے سامنے فلاں قوم کے لوگ رہتے ہیں سود پر پیسہ لینا دینا ان کا ایک خاندانی کام ہے۔ اس کی نحوست جہاں ان کے گھر میں پہنچی وہاں میرے گھر میں بھی پہنچ رہی ہے ان کےگھرمیں سارا دن لڑائی‘ جھگڑا‘ چھوٹی بڑی بات بہت بڑی اور گندی گالی دینا ان کیلئےکوئی حرج نہیں۔ ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھانا عام سا مشغلہ ہے مرد عورت کوئی ادب لحاظ شرم حیا ان کے قریب سے نہیں گزرا۔ ان کے گھر کا سربراہ گالی کے بغیر بات نہیں کرتا۔ اس نے سب گھر والوں کو تگنی کا ناچ نچایا ہوا ہے۔ سارا دن اونچی آواز میں بیٹا گانے لگاتا ہے جھومتا ہے گاتا ہے ناچتا ہے نیٹ کی دنیا میں سارا دن ڈوبا رہتا ہے نشے کی عادت اور لت پڑگئی ہے۔ اگر ہم ان کو آواز آہستہ کرنے کیلئے کہیں تو ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی‘ لڑنے مرنے اور مارنے پر آجاتےہیں۔ انہوں نے گلی کو گندگی کا ڈھیر بنایا ہوا ہے۔ یہ تو ان کے گھر کا مختصر سا حال ہے اور جو میرا حال ہے وہ یہ ہے کہ ان کی نحوست سے میری اولاد کی تربیت میں کمی پیدا ہورہی اور میری نسلیں متاثر ہورہی ہیں‘ ہروقت میرے بچے ان کےبچوں کو دیکھتے ہیں اور ان کے بچے جو کرتے ہیں وہی میرے بچے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے جب سے میں نے یہاں تین مرلےکا گھر بنایا ہے میرے گھر میں رزق آتا ہے نامعلوم کہاں جاتا ہے جسے میں بے برکتی کہوں۔ ہروقت فتنہ فساد‘ جھگڑے‘ پریشانیاں‘ بیماریاں‘ دکھ‘ تکلیفیں مسائل اور مشکلات یہ ساری چیزیں میرے گھر میں اتنی ہوگئی ہیں کہ میں نے زندگی بھر کبھی سوچا نہیں تھا کہ ایسے کبھی ہو بھی سکتا ہے میں سمجھتی ہوں یہ برے پڑوسی کی نحوست اور ان کےبرے رزق‘ بری سوچیں‘ برے خیال اور برے کردار کی ظلمت ہے جو میرے گھر میں آرہی ہے۔ آپ دعا فرمائیں میں یہ گھر فروخت کرکے کسی اور جگہ چلی جاؤں‘ میں تھک گئی ہوں اکتا گئی ہوں‘ پریشان ہوں‘ میں کیا کروں؟ سچ ہے بڑوں سے سنا تھا کہ گھر ڈھونڈنے سے پہلے اچھا پڑوسی ڈھونڈیں‘ برا پڑوسی جہاں ہو اور کوڑیوں کے بھاؤ تمہیں تاج محل بھی مل رہا ہو کبھی نہ لینا‘ کبھی نہ لینا، کبھی نہ لینا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں