میرے دوستو !اپنی زندگی کو اعمال پر چلاتے چلے جائیں، چلتے جائیں، بناتے اور بنتے چلے جائیں۔میں نے عرض کیا تھا کہ:شیطانی طاقتیں اشیائے خوردو نوش بھی چوری کر لیتی ہیں، تو ایک دوست کہنے لگے :شعور کی بات کریں، تومیں نے انہیں ایک صحابی ر ضی اللہ عنہٗ کا واقعہ سنایا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ کو کریم آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :یہ غلہ پڑا ہے اِسکی حفاظت میں رات یہاں رہنا ہے۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ کورات کوشک ہوا کہ کوئی گڑبڑہورہی ہے۔دیکھا کہ ایک بندہ ہے بوریوں میں غلّہ ڈال رہا ہے۔چوری کر رہاہے انھوں نے جا کر پکڑ لیااور کہا کہ صبح تجھے اپنے آقا کملی والےﷺ کی خدمت میں پیش کروں گا ۔وہ منتیں کرنے لگا، زاریاں کرنے لگا، واسطے دینے لگا کہ چھوڑ دے تیری مہربانی ہے۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ کا دل نرم ہوگیا اور چور کوچھوڑدیا۔ اس وعدے کے ساتھ کہ آئندہ چوری نہیں کروں گا۔صبح ہوئی تو رسول ﷺ نے پوچھا:ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ رات چورکاکیا بنا؟ عرض کی کریم آقا علیہ الصلوۃ والسلام میں نے اُسے پکڑ لیا تھااُس نے بڑی منّت سماجت کی میں نے چھوڑ دیا۔ آپﷺ نے فرمایا:وہ پھر آئے گا۔ دوسری رات پھر آیا،ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ نے پکڑا اس نے پھر منّت سماجت کی، دل نرم پڑگیا، پھر چھوڑ دیا۔ دوسرے دن حضور ﷺ نے پھر پوچھا:عرض کی: حضورﷺ میں نے اُس کو پکڑ تو لیا تھا لیکن بڑی منّت سماجت کے سبب میں نے پھر چھوڑ دیا۔ آپﷺ نے فرمایا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ وہ چور پھر آئے گا۔اب آپ نے پختہ ارادہ کرلیا کہ اب اس کو پکڑ کر بارگاہِ رسالت مآب ﷺمیں ضرور پیش کروں گا۔تیسری رات پھر غلّے کی چوری کے لیے آیا۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ نے اسے پکڑا، اُس چور نے کہا اچھاایک بات سن میں تجھے ایک تحفہ دیتا ہوں اگر اُس کو کر لے تو آئندہ کیلئے مجھ جیسا چور یا کوئی اور تیری چیزوں کو چرا کر لے جاہی نہیں سکتا،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ نے کہا کیا۔۔۔؟اُس نے کہا تو آئندہ کیلئے اپنے مال پر آیۃ لکرسی پڑھ کر سویا کر۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ نے کہا بڑی لاجواب چیز ہے۔میں نے ایک صاحب کو بتایا کہ اعمال اختیار کرو کیونکہ جناتی شیطانی چیزیں ہمارا راشن چوری کرتی ہیں، وہ ہنس پڑا مجھے کہنے لگے کہ حکیم صاحب ٹھیک ہے، آپ پڑھے لکھے ہیں مگرکچھ شعورکی باتیں کریں، کیا دیوانے ہو گئے ہیں، میں نے کہا چلو میں تجھے ایک شعور کی بات بتاتا ہوں اُس نے کہا ہاں بتائیں پھر میں نے یہ صحابی رضی اللہ عنہٗ والا واقعہ سنایا۔ ہیجڑے کی استقامت:فقیر کو کتنے بندے دھتکارتے ہیں کیا وہ مانگنا چھوڑ دیتا ہے؟میںدو بندوں سے متاثر ہوں،ایک فقیر سے،دوسرے ہیجڑے سے۔ہیجڑہ مخنث ہے۔آپ سوچیں گے کہ یہ کیسا دیوانہ ہے،کن سے متاثر ہے،یہ بھی ایک دیوانہ بندہ ہے یقین جانیے، ہیجڑے نے اپنی شکل بدلی،اُسکو سارے جہان نے طنزیہ نظر سے دیکھا، لوگوں نے اعتراض کیا، تنقید کی، مذاق کیا، لیکن وہ اپنی شکل بدلنے میں عار محسوس نہیں کرتا، ہم نے بھی کملی والےﷺ کی ادائوں کو اپنایا ہے، لیکن استقامت نہیں، ایسا طرزِ عمل ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ میں ہیجڑوں کو خیرات ضرور دیتا ہوں۔اُن کوکچھ اعمال بھی بتاتا ہوں، وہ اپنی شکل بدلنے کو تیار نہیں انہوں نے اپنی فطری شکل کو بدل دیااور ہم کملی والےﷺ کی غلامی اختیار کرکے فطری شکل پر آگئے، الفاظ کی حقیقت کو سمجھیں، اُس نے اپنی فطری شکل کو بدل دیا، رب نے اُسے مرد بنایا وہ عور ت بن گیا۔حقیقت سے انحراف کیا اور اپنی فطری شکل کو بدل دیااور ہم نے کملی والےﷺ کی ادائوں کو اختیار کرکے اپنی فطری شکل کوہی بدل دیاہے۔اور ہم کملی والےﷺ کی ادائوںکو اختیار کرکے اپنی فطری شکل پر آگئے اور ہمیں شرم آتی ہے، اُسے تو شکل بدل کے شرم نہیں آتی۔ہیجڑہ گلیوں میں ‘بازاروں میں‘ چوراہوں میں‘ اشاروں پر دندناتا پھرتا ہے کسی کی طنز اسے متاثر نہیں کرتی۔اُس نے کوئی بُلٹ پروف جیکٹ نہیں پہنی ہوتی، کوئی گولی کسی کی بات کسی کا طعنہ اُس پراثر ہی نہیں کرتا اور ہم فطری زندگی پر لوٹے، ذرا سی طنزیہ بات برداشت نہیں۔کسی بہن نے حضرتِ فاطمہ رضی اللہ عنہاکا پیرہن اوڑھ لیا۔امّاں عائشہ رضی اللہ عنہاکی زندگی اختیار کر لی اور کسی بھائی نے کملی والےﷺ کی ادائوں کو اختیار کرلیا، کسی نے اس انداز پر طنزاً کچھ کہہ دیا تو لوٹ پوٹ ہوکر رہ گئےاور یہی حال فقیر کا ہے۔میں تو ہیجڑے کو دیکھ کر سوچتا رہتا ہوںکہ بڑا پکابندہ ہے، مضبوط اعصاب کا مالک ہے۔جو اپنی غیر فطری زندگی پہ ڈٹا ہوا ہے ، جما ہوا ہے۔ ایک دن میں اپنے گھر سے نکلا ہیجڑہ سامنے کھڑا تھا ۔میں نے کہا سامنے دفتر میں جائیں۔میں نے اُسے بڑا نوٹ دیا تو میں نے کہا، سہیلی کہاں ہوتے ہو۔۔۔؟اُسکو میں نے یہ Typical لفظ کہا۔ایک دم چونکا۔میں نے کہا :گرو کہاں ہے۔۔۔؟انکا گرو بھی ہوتا ہے۔ہیجڑے گرو کے بغیر نہیں رہتے ، ہیجڑے کا مرشد بھی ہوتا ہے، کہنے لگا گرو جی بڑا سخت ہے جوتیاں پالش کرواتا ہے، سختی کرتاہے، گالیاںدیتا ہے۔میں نے کہا تجھے ایک لفظ بتاتا ہوں تیرا گرو رام ہو جائیگا۔ یَا ھَادِیُ یَارَحِیْمُ کے کمالات:میں نے کہا پڑھ ’’یَاھَادِیُ یَا رَحِیْمُ‘‘ حدیث کا مفہوم ہے کہ :جو شخص ان دو کلمات کو مستقل پڑھے گا اُس کو اتنی دیر موت نہیں آئیگی،جب تک اسے ہدایت اور کلمہ نصیب نہیں ہوجائے گا۔حضرت مولانا کلیم صدیقی دامت برکاتہم فرماتے ہیں ایک ہندو میرے پاس مشکلوں، غموں کو لے کر آیا، ایمان سے خالی تھا میں نے اُسکو یہ لفظ بتائے اللہ نے ایمان بھی دیا ، مشکلیں بھی ٹل گئیں۔میں نے کہا میں لکھ دیتا ہوں۔ اس لفظ کو پڑھا کرو۔’’یا ھَادِیُ یَارَحِیْمُ‘‘ اُس نے یاد کرلیا۔ (جاری ہے) اندازِ فقیر:فقیر کی زندگی دیکھیں، اپنی طرز پر کتنا پختہ ہوتا ہے، کوئی اْسکو دھتکارے ، جیسے چاہے پیش آئے، حتیٰ کہ کتے اُسکی خوب خبر لیتے ہیں، شہروں میں تو کتے کم ہوتے ہیں دیہاتوں میں زیادہ ہوتے ہیں۔دیہاتوں میں فقیر کے پیچھے کتوں کا غول کا غول خوب بھاگتا ہے۔پتہ نہیں کیوں فقیر کے پیچھے یوں بھاگتے ہیں۔درحقیقت وہ ایک پیغام دیتے ہیں۔وہ پیغام یہ ہے کہ: ہمیں مالک ایک ٹکڑا دے ہم اُسکا در نہیں چھوڑتے۔اے غافل انسان تو در در مانگ رہا ہے۔۔۔۔؟؟ ؎ تو میرے مار وٹا تو میرے ڈکرے کردے اساں تینڈھے ہاں اساں تینڈھے ہاں راتی جاگن شیخ سداون تے راتی جاگن کتے ، تیتھوں اُتے درسائیں دا مول نہ چھوڑن بھاویں مارو سو سو جتے ، تیتھوں اُتے اُٹھ بلھیا چل یار منائیے متاں بازی لے جان کتے، تیتھوں اُتے کتے کا پیغام:کتا ایک پیغام دیتا ہے۔ ایک گھر میں جانے کا اتفاق ہواوہاں کتا بھونکنے لگا، مالک نے جوتا اتار کر اُس کو جو مارا ، کتاکاں کاں کرتا رہا۔کتے نے اس کو کاٹا نہیں،میں نے کہاظالم تونے اس کو اتنی روٹیاں نہیں کھلائیں ہونگی جتنے تونے اس کوجوتے مار دیے۔میری خاطر جوتے مارے۔وہ شخص کہنے لگا: میرے مرشد پربھونکتا ہے میں نے کہا وہ تو بے شمار ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں