ہفتہ وار درس سے اقتباس
میرے محترم ساتھیو ! آپ نے اکثر سنا ہو گا فلا ں نے والدہ کی نافرمانی کی اور پھر معا فی مانگ لی ۔ دوسری دفعہ پھر نافرمانی کی اور بعد میں معافی ما نگی ۔ ما ں نے معا ف کر دیا ۔ تیسری دفعہ نافرمانی کرنے کے بعد جب معا فی مانگی تو ما ں نے معاف کرنے سے انکا ر کر دیا ۔ بڑی مشکلو ں سے، کئی بزرگو ں کی سفارش کر وا کر معافی ما نگی ۔ اس کے بعد جب پھر نا فرمان ہوا تو ماں نے کہہ دیا کہ میں اس کو اپنا دودھ نہیں بخشو ں گی اور اس کو میرے جنا زے پر نہ آنے دینا۔ پانچ یا دس دفعہ نا فرمانی کرنے پر ما ں تو دودھ نہ بخشے ۔ مگر سو سال عمر رکھنے والا بندہ جو گناہوں، نافرمانیوں میں لتھڑا ہوتا ہے ۔ جب ستر ما ﺅں سے زیا دہ محبت کرنے والے رب کے سامنے ایک دفعہ دل سے کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے معاف کر دے تو وہ رب بندے کی اِس ندامت اور استغفار کو اتنا پسند کر تا ہے کہ اپنے دامنِ رحمت میں اُس کو سمیٹ لیتا ہے اور بندہ کی یہ ندامت اور پشیمانی ، رزق کوایسے لا تی ہے جیسے بارش ہوتی ہے اور مصیبتو ں کو ایسے ٹلواتی ہے جیسے بارش زمین کو دھو دیتی ہے ۔
ایک شخص اعلا ن کر رہا تھا۔ لوگو میرے پا س وہ چیز ہے جو رب کے پا س نہیں ہے۔ لوگوں کو اس کی یہ بات گراں گزری۔ لو گ اسے پکڑ کر وقت کے قاضی کے پا س لے گئے۔ کہنے لگا کہ فیصلہ کرنے سے پہلے میری بات سن لے اور پھر وہی نعرہ دہرایا کہ میرے پا س جو ہے وہ رب کے پا س نہیں۔ قاضی نے کہا کہ تجھے خبر ہے کہ تو کیا کہہ رہا ہے؟ تیرے پا س اس با ت کا کیا جوا ز ہے ؟ اس شخص نے جو جوا ب دیا وہ حیرت انگیز ہے۔ کہنے لگا میرے پا س ندا مت ہے اورمیرے رب کے پا س ندامت نہیں ہے۔اگلی با ت سنیں اس سے بھی عجیب و غریب بات ۔ میرے مر شد، حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کو ابا حضور کہتے تھے کیو ں کہ میرے مر شد، حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کے خاص حسب ، نسب اور آل سے تھے اور ہجویر کے تھے۔ پھر دہلی منتقل ہو گئے اور فرماتے تھے کہ میرے ابا نے مجھے یہ بات بتائی ہے کہ جس شخص کے پا س صرف ندامت ہو گی ۔ اس کے پا س وہ ہو گا جو رب کے پا س ہے۔ نہیں سمجھے اللہ جل شانہ کے پا س ساری کائنا ت ہے مگر اللہ پاک کے پاس ندامت نہیں ہے۔اگر یہ بندہ چاہتا ہے کہ میرے پا س ساری کا ئنا ت ہو اور ساری کا ئنا ت سے مرا د ساری کا ئنا ت کے خزانے ہو ں ۔ بس وہ ایک کا م کر لے کہ وہ لے لے جو اللہ کے پا س نہیں ہے اور وہ ہے ندامت ۔ اس کے بدلے اللہ جل شانہ وہ دیدے گا جو اس کے پاس نہیں ہے۔یعنی دنیا اور آخر ت کے خزانے ۔اللہ پاک چاہے تو چلتے چلاتے بندے کو ایک پل میں اٹھا کر پھینک دے اور بیمار کر دے۔تندرست آدمی کی آنکھ اندھی کر دے ۔میں جب اسلام آبا دمیں کلینک کر تا تھا تو میرے پاس اٹک سے ایک خاتون آئیں اور بتانے لگی کہ ایسے بیٹھے بیٹھائے دونو ں آنکھیں اندھی ہو گئیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں پیچھے جورگیں تھیں وہ سکڑ گئی ہیں اور اس کا علا ج دنیا میں کہیں نہیں ہے ۔ اللہ پاک چاہے تو بیٹھے بیٹھائے آنکھو ں سے معذور کر دے، چال میں لڑکھڑاہٹ پیدا کر د ے ۔ فالج زدہ کر دے ، پاگل اور دیوانہ کر دے۔ ہمارے پا س ہے ہی کیا؟ اور سب کچھ تو اس کے پا س ہے اور اب اس سے اگر لینا ہے اور پا نا ہے تو اس سے لینے اورپانے کا واحد طریقہ ،واحد حل صرف ندامت ہے۔
سننے کی با ت ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرما ن ہے کہ ساری کا ئنا ت میں دو امان تھیں یعنی حفاظتیں تھیں۔اس میں سے ایک تو اللہ نے اٹھا لی ہے اور وہ امان تھی سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبا رکہ ۔ ایک امان با قی ہے اور وہ قیامت تک رہے گی وہ ہے ندامت ، تو بہ اور استغفار۔ فرمایا اسکو مضبوطی سے تھام لو۔ حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے سرو ر کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د نقل ہے کہ ”بندہ عذاب ِ خداوندی سے امن میں ہے جب تک استغفار کر تا رہتا ہے۔ ‘ ‘ ایک شخص کو دیکھیں کہ وہ روز آکرپو چھے آپ ہم سے نا را ض تو نہیں ہیں۔ اسے کہا جائے کہ بار با ر نہ پو چھاکریں شرمندگی ہو تی ہے۔ کہنے لگے نہیں اصل میں مجھے بولنا ہی نہیں آتا ۔ آپ اگرخدمت بتائیں تو کرنی نہیں آتی ، گفتگو کا سلیقہ نہیں آتا۔ کا م کرو ں تو الٹا کر بیٹھتا ہو ں۔ بس دل میں ایک کھٹکا رہتا ہے کہ آپ کے مزاج میں کو ئی با ت نا گوار گزری ہو تو مجھے معا ف کردیں۔ میں اس لیے روز پو چھتا ہو ں آپ ناراض تو نہیں ہیں ۔اگر کوئی خطا ہوئی ہو تو مجھے معاف کر دیں۔ اس بندے سے کوئی نا را ض ہو گا، کبھی نہیں۔ جو پیشگی ندامتیں کر رہا اور یہ نہیں ہے کہ پیشگی ندامت کرکے پھر ناراض کرنے کی کو شش بھی کر تا ہے۔ نہیں کو شش بھی نہیں کر تا اور پھر آکے کہتا ہے کہ آپ مجھ سے نا را ض تو نہیں ہیں۔ اسی بارے میں سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بند ہ عذاب خداو ند ی سے امن میں ہے اور یہ مصیبتیں اور یہ پریشانیاں، یہ ما لو ں کے گھاٹے ،یہ جانو ں کے گھا ٹے، یہ عذاب ، جا دو کے ذریعے ، مختلف حسد کے ذریعے یہ مالی نقصانات ، کا روبا ری نقصانات ، یہ اوپر سے آتے ہیں ۔
حضرت را بعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ کا ارشا د ہے ۔ ہما را استغفار ایک اور استغفار کا محتا ج ہے سننے کی بات ہے اللہ والو مو تی ہیں بعض اوقات مو تی آپ کے لیے چن کے لا تا ہو ں ۔ بڑی محبت اور طلب سے آپ تشریف لا تے ہیں ہما را استغفار ایک اور استغفار کا محتا ج ہے ۔ یعنی ہم گنا ہو ں سے سچے دل سے استغفار نہیں کر تے بلکہ ایسے استغفار کر تے ہیں اس استغفار کو بھی استغفار کی ضرورت ہے ۔ لیکن ایک اور بات بھی عرض کر تا ہو ں ارے جس طر ح بھی ہے کر تے رہو ایک وقت آئیگا اس کریم سے گفتگو کا سلیقہ بھی آجائیگا بات کرنے کا طریقہ بھی آجائیگا ۔ و ہ کہتے ہیں محبت کرنی نہیں آتی ،کرنا شروع کر دے محبت تجھے محبت کا سلیقہ خود سکھا دیگی۔تُو تو بہ کر، تُو استغفار کر۔ اس کریم کے سامنے اپنی ندامت کو پیش کر تو سہی، اپنے قدم بڑھا تو سہی۔ایک چیز ذہن میں رکھیںکہ شیطا ن جو ہے یہ پہلا قدم نہیں اٹھا نے دیتا ۔وسوسہ ڈالتا ہے کہ تو اتنا بڑا مجر م ہے۔ تو نے اتنے بڑے جر م کیے اور کئی دفعہ تو بہ کر کے تو نے توڑی ہوئی ہے ۔ تجھے کہا ں معا فی ملے گی۔ تو معافی کے قابل ہے ہی نہیں ۔تجھے کبھی معافی نہیں مل سکتی ۔ شیطان دل میں یہ بات ڈالتا ہے۔ (جا ری ہے )
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں