ہما رے پشا ور میں آسیہ ایک علا قہ ہے ۔ جو کہ آسیہ وارڈ کہلا تا ہے۔ جہا ں ایک مسجد ہے جس کے بالکل سامنے کی طرف ایک بالا خانہ ہے جو کہ مسجد کی ملکیت تھا ۔ا س بالا خانہ میں ایک مو لوی صاحب ( میا ں جی کے نا م سے مشہور ) بچوںکو قرآن نا ظرہ اور حفظ بھی کر اتے تھے اور دیگر دینی کتب بھی پڑھا تے تھے ۔ میا ں جی انتہا ئی مہر بان اور شفیق انسان اور سلف صالحین کا نمو نہ تھے ۔تما م شا گر د ان کا انتہا ئی ادب و احترام کرتے تھے ۔ کبھی کسی بھی طالب علم کو میا ں جی سے کو ئی گلہ یاشکا یت نہیں تھی ۔ ایک دن ایک بچہ جو کہ 8/9 سال کا ہو گا ، آیا۔ میا ں جی نے پو چھا بیٹا کیو ں اور کس لیے آئے ہو تولڑکے نے انتہائی ادب سے کہا کہ حضرت میں قرآن پڑھنا چاہتا ہو ں ۔ میا ں جی نے خو ش ہو کر اسے کہا کہ برخودار اپنے کسی بڑے کو لیکر آﺅ ۔ ان شا ءاللہ ہم حاضر ہیں اور رہیں گے۔ لڑکا گویا ہواکہ میا ں جی مجھے قرآن پڑھنے اور حفظ کرنے کا شوق ہے نیز میرا کوئی بھی نہیں جسے میں آپ کے پاس لاﺅ ں اگر کوئی ہوتا تو میں ضرور لیکر آجا تا ۔ لہذا مجھے ویسے ہی مدرسہ میںداخلہ دے دیں۔ میں ان شا ءاللہ آپ کی پوری طر ح خدمت کر تا رہو ں گا ۔ بہر حال میا ں جی نے اس لڑ کے کو اپنے مدرسہ میں داخلہ دے دیا۔ اب میا ں جی نے دو سر ے بچو ں کی طر ح اسے بھی پڑھا نا شروع کر دیا ۔ لڑکا انتہائی لائق فا ئق تھا۔ نا ظر ہ اس نے 6 ماہ میں مکمل کر لیا او راب حفظ کرنا شروع ہو ا ۔ خدا کا کرنا کہ ایک دن میا ں جی کی اہلیہ بیما ر پڑ گئیں ۔ طبیب و معالجین نے اس خاتون کے لیے کوئی بے مو سم کا پھل تجو یز کیا ۔میا ں جی بڑے ادا س تھے بلکہ تمام طالب علم بھی ادا س اور غمزدہ تھے ۔تو اس لڑکے نے وہ پھل لا کر دے دئیے ۔ میا ں جی ایک دم چونک سے گئے اور حیرانگی سے اس لڑکے کی طر ف شک بھری نظر وں سے دیکھنے لگے۔ ایک دم انہو ں نے لڑکے کو کان سے پکڑا اورخوب زور سے اس کا کان مڑووڑا ۔لڑکا چیخا اور معا فی کا طلب گا ر ہو ااور ہا تھ جو ڑ کر رونے لگا ۔ میا ں جی غصے میں تھے اور کہہ رہے تھے کہ تم جن ہو کر دوسرے بچو ں کے ساتھ تعلیم حاصل کر رہے ہو کہیں ان بچو ں کو کوئی نقصان یا تکلیف نہ پہنچا د و۔ میں تمہیں اس کی سزا ضرور دو نگا ۔ بڑی منت سماجت کے بعد لڑکے نے میا ں جی کو را ضی کر لیا او رراز داری سے میا ں جی سے بو لا حضرت میں کم از کم8 یا10 ما ہ سے میں آپ کے پاس ہو ں یہ سارے بچے میرے بھائیو ں کی طر ح ہیں۔ میں نے آج تک کوئی بھی شرارت نہیں کی ۔ میں تو اس فکر میںرہتا ہوں کہ قرآن کریم حفظ کر کے آپ سے اجازت لیکر واپس چلا جا ﺅ ں ۔ میاں جی اس کے اس بیان سے مطمئن ہو گئے کیونکہ واقعی 8 یا 10 ماہ میں اس نے کوئی بھی شرارت نہیں کی ۔ لہذا اسے معاف کر دیا گیا اور دونوں مطمئن ہو گئے ۔
اسی طر ح وقت گزر تا رہا کہ ایک دن گلی میں سپیرا بین بجا تا ہو اگزر رہا تھا کہ تمام بچے بین کی آواز کی طر ف متوجہ ہو گئے ۔ پتہ نہیں اس لڑکے (جن)کو کیا سو جھی کہ میا ں جی کو کہنے لگا کہ آج بچو ں کو کو ئی تما شہ دکھا نا چاہئیے ۔ آپ سپیرے کو بلا ئیں کہ یہا ں سانپ ہے ۔کہیں کسی بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے براہ کرم اس سانپ کر پکڑ لیں ۔ میا ں جی مو ڈ میں تھے ۔ انہو ں نے اجا ز ت دے دی۔ (جن ) نے ساتھ ہی میاں جی کو کہا کہ یہ سپیرا مجھے پکڑ نہ سکے گا اگر انہو ں نے مجھے پکڑ لیا تو مجھے ہر حال میں میں چھڑوا لینا اور واقعی شام تک سپیرے کا بین بجا بجا کر برا حال ہو گیا ۔ تھک ہا ر کر بیٹھ گیا اور اسکے سامنے ایک خطر نا ک قسم کا نا گ تھا اور جھو م رہا تھا ۔ بہرحال تھک ہا ر کر سپیرا کہنے لگا میں کل اپنے استاد کو لیکر آﺅ ں گا ۔ دوسرے دن بمع اپنے استاد کے آن حاضر ہو ااو رلگے بین بجانے اور کچھ ہی دیر بعد ناگ پھنکا ر تا ہو اکو ٹھری سے باہر آگیا جب استا د سپیرے نے اسے دیکھا تو وہ بین بجانا بھول گیا کیونکہ وہ سانپ بہت ہی خطر نا ک تھا اور جسے قابو کرنا ضروری تھا ۔ مگر ساری محنت بیکا ر گئی اور دونو ں استا د شاگر د سپیرے ما یو س اور نا کا م لو ٹ گئے اور حسب سابق کہہ گئے کہ ہم را جپوتانہ سے اپنے استاد کو بلا تے ہیں آپ انتظار کریں ۔ اس دن دونو ں سپیرے چلے گئے۔ تما م بچے سہمے ہوئے تھے میا ں جی بھی پریشان تھے کہ یہ میں نے کیا کر دیا۔ کچھ دن تو آرام و سکون سے گزر گئے ۔
لیکن ایک دن گلی میں بین کی آوا زیں آنی شر وع ہو گئیں ۔ اتنے میں چا ر پانچ سپیرے اوپر آگئے جب بین کی آواز آنا شروع ہوئیں تو وہ (جن ) لڑکا غائب ہو گیا (یعنی کوٹھری کی طرف کھسک گیا ) اور پھر مقابلہ شروع ہو گیا ۔ ان سپیرو ں میں ایک صاحب جو کہ را جپوتا نہ سے آئے تھے ۔ بین بجانے میںبہت ماہر تھے ۔ مسلسل بین بجا بجا کر استا د سپیرے کے گال پھولے ہوئے تھے۔ مختصر قصہ سانپ نے جھو منا شروع کر دیا۔ سپیرا پٹا ری آگے کر تا رہا لیکن سانپ پٹا ری میں جانے کو کسی طر ح تیار نہ تھا ۔ پھر سپیرے نے پینترا بدلا جب آخری دفعہ پٹاری سانپ کے آگے کی تو سانپ نے چھلانگ لگا کر پٹاری میں پناہ لی اور سپیرے نے پٹاری پر ڈھکنا ڈھک دیا ۔ دوسرے لو گ بڑے حیرا ن کہ ان سپیروں نے مشکل سے سانپ کو قابو کر لیا ہے ۔ لیکن پریشان صرف میا ں جی تھے اور سپیرے خوش۔ جب سپیرے جانے لگے تو میا ں جی کو ہو ش آیا اور ان سپیرو ں کے ہا تھ سے پٹاری چھیننے والے انداز سے زبر دستی چھین لی اور پٹاری کوٹھری کی طر ف اچھا ل دی۔ پٹا ری گر نے سے کھل گئی اور میاںجی کاشاگر د پٹاری سے بھا گ نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور غا ئب ہو گیا ۔ سپیرے بڑے غصہ اور بڑے گرم ہوئے مگر میا ں جی نے ان کو راضی کر لیا اور انہیں کہا کہ یہ صرف تمہا را امتحان لینا مقصو دتھا ورنہ یہ سانپ تو ان بچوں سے بڑا ما نو س ہے ا س نے آ ج تک کسی بچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور نہ ہی ان کو ڈرایا۔ بہر حال ان سپیرو ں کو اس وقت غالباً 50/- روپے انعام دیا اور وہ خو ش ہو کر چلے گئے ۔ یہ وا قعہ 1935ءیا 1940 ء کا ہے ۔ جس وقت 2تولے سونا 50/- روپے کا آتا تھا ۔
اب آئیے اس لڑکے (جن )کی طر ف جس سے میا ںجی نے پوچھا بر خوردار یہ کیا ہو گیا تھا کہ فوراً پٹار ی میں کو د گئے ۔جن نے کہا کہ یہ جو ہندوستان سے سپیرا آیا تھا ۔ یہ واقعی استا د اور ماہر فن تھا اس نے بین میں کوئی ایسا منتر پڑھا کہ میرے چاروں طرف آگ ہی آگ ہو گئی تھی میں جس طر ف جا تا ہر طر ف آگ ہی آگ تھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کدھر جاﺅ ں اور آگ کی تپش سے میرا بدن بر ی طر ح جھلس رہا تھا اور تا ﺅ مسلسل بڑھ رہا تھا ۔ میں اتنا پریشان ہوگیا تھا کہ مجھے سانپ بننے کی کیا سوجھی نا گہا نی مجھے ایک کونے میں سبزہ دکھائی دیا اور میرے دل نے کہا کہ یہی ہے میری پنا ہ گا ہ(سبزہ ،،چمن، نخلستا ن )اور میں اسے پناہ سمجھتے ہوئے اس نخلستا ن میں کو د گیا اور اور .... یہ تو میں نے قید خانہ میں چھلانگ لگا دی تھی اور اس پٹاری میں قید ہو گیا ۔بھلا ہو آپ کا حضرت آپ نے اتنی بڑی رقم دیکر مجھے ان کی قید سے رہا ئی دلائی ۔
اس واقعے میں ایک بات راقم الحرو ف کی طر ف سے یہ ہے کہ جب کوئی کسی مصیبت میں گر فتار ہو تا ہے اور ہر طرف آگ ہی آگ ہوتی ہے اور وہ اپنی دانست میں جب کو دتا ہے تو وہ اسی (جن) لڑکے کی طرح پٹاری میں قید ہو جا تا ہے ۔ اللہ تعالیٰ صبر کی تو فیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین ۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 396
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں