Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

شریعت پر عمل اور رحمتوں کا نزول (تحریر: پروفیسر ڈاکٹر نور احمد نور، فزیشن، ملتان)

ماہنامہ عبقری - اپریل 2008ء

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نا راضگی ایک پا کستانی ہما ر ے ساتھ مدینہ منورہ میں اسی ہسپتال میں کام کرتا تھا جہا ں ہم پریکٹس کر رہے تھے ۔ اس کی ایک بہت بری عادت یہ تھی کہ وہ سعودی حضرا ت کے رہنے سہنے ، کھانے پینے اور لبا س وغیرہ پر بہت مذا ق کر تا تھا اور ایسے فقرے کستا جس سے ہم ہنسنا شروع ہو جا تے ۔ ہرقوم میں کمزوریا ں ہو تی ہیں ، یہ ان کوبہت اچھا لتاتھا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ ایک دن صبح کے وقت جب وہ ڈیو ٹی پر آیا تو بہت گھبرا یا ہو ا تھا اور رو رہا تھا ۔ یہ سلسلہ دوسرے دن بھی جاری رہا ۔ لو گوں نے مشہور کر دیا کہ شاید ا س کا جھگڑا بیوی سے ہو گیا ہے جس کی وجہ سے پریشان ہے ۔ میں اس سے ملا ، ہمدردی ظاہر کی تو اس نے کہا کہ میں نے تو اپنے اوپر ظلم کیا ۔ا ب میرا کیا بنے گا ۔ میں نے تفصیل پوچھی تو بتا یا کہ خوا ب میں مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈانٹ کر بہت غصے ہو کر فرمایا کہ ”جنہو ں نے تمہیں دین دیا ان کا مذا ق اڑاتے ہوئے شرم نہیں آتی ۔ “ وہ کہنے لگا اس وقت سے میں استغفار کر رہا ہوں۔ اب پھر ساری زندگی یہ بکواس نہیں کروںگا اور واقعی اس نے اپنی زندگی میں نما یا ں تبدیلی ظاہر کی اور پھر کوئی غلط بات نہ کی۔ تجا رت تجارت اللہ کے فضل سے صاف شفاف تھی ۔ کسی چیز کا ایک دام بتاتے تھے ۔ حرمین شریفین کے بازاروںمیں غیر ملکی بہت سودا با زی کر تے ہیں اور بھاﺅ کم کرانے کے عا دی ہو جاتے ہیں اس لیے دام ایک نہیں بتائے جاتے ۔ سعودی دکا ندار جب (اللھم صل علی محمد )کہہ دے تو یہ آخری دام سمجھا جا تاتھا ۔ ایک دن میں با زار سے آٹا لینے گیا ، کئی قسم کے آٹے رکھے تھے ۔ میں نے دکاندار سے اچھی جنس پو چھی تو دکاندار نے صاف کہا کہ اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے ، اس کے دام میں بتا دیتا ہو ں آپ جو بھی پسند کریں .... میرے کلینک کے سامنے ایک سعودی دکاندار کی سائیکلو ں کی دکان تھی ۔ جب میں وہا ں سے گزرا تو اس نے کہا کہ پاکستا نی حرامی ہیں ( حرامی وہا ں چور کو کہتے ہیں ) میں دکاندار کے پا س گیا اور اس سے پو چھا آپ پاکستانیو ں سے نا راض کیو ں ہیں ۔ اس نے بتا یا کہ میں نے پاکستا نیو ں سے تجا رت کی ۔ دوسو سائیکل منگوائے جن میں سے پانچ سائیکل خراب تھے ۔ میں پاکستانی دکاندار کو لکھ چکا ہو ں مگر جواب ندا رد ۔ پھر میں نے تنگ آکر ہندوستانی دکا ندار کو سائیکلو ں کاآرڈر دیا۔ دوسو سائیکلو ں میں سے تین خرا ب تھے ۔ میں ان کو لکھا تو چند دنو ں میں انہو ں نے معذرت نامہ لکھا اور دس سائیکل مفت بھیج دئیے ۔ اسی طر ح کا معاملہ میرے ساتھ مدینہ منورہ میں ہوا ۔ وہا ں کے ایک تا جرسے بریف کیس کے لیے کہا۔ وہ بریف کیس لے آیا اور وہ میں نے پسند کیا اور دام پوچھے ۔وہ دکاندار ایک خرا ب بریف کیس اندر سے لے کر آیا اور مجھے زبر دستی دینے لگا اور بدتمیزی بھی کی ۔ میں نے دکاندار سے آرام سے با ت کی اور کہا کہ آپ مجھ سے نا را ض ہو رہے ہیں ۔ سعودی دکاندار نے کہا اچھا بریف کیس پاکستانیوں نے بطور نمونہ بھیجا اور یہ خرا ب سپلا ئی کیا۔ تم پا کستانی ہو یہ خرا ب لے کر جا ﺅ ۔ میں نے لینے سے انکا ر کر دیا تو زبر دستی دینے لگا ۔ میں نے اس سے معافی مانگ لی حا لا نکہ میری غلطی نہ تھی کیو نکہ میں عرب حضرات سے سخت کلامی سے ہمیشہ گریز کر تا رہا ہو ں ۔ جو تیو ں کے دکا ندار سے جو تی لینے کے لیے گیا ۔ بہت سے ممالک کے بہترین جو تے رکھے تھے ، مگر سب سے خرا ب پاکستانی جو تا تھا ۔ جس کو دیکھ کر شرم آئی ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اگر گا ہک سودا لے جا ئے ، پھر اس کو پسند نہ آئے اور واپس کر دے تو دکاندار خوشی سے اس کو دام واپس کر دے اور سودا واپس لے لے تو اللہ تعالیٰ اس دکاندار کو بہت بہترین محل جنت میں عنایت فرمائیں گے ، مگر ہمارے ملک پاکستان میں تو سنت کے خلا ف ہو رہا ہے ۔ پاکستا ن کے دکاندار تو کیش میمو پر لکھ دیتے ہیں کہ ” خریدا ہو امال واپس نہ ہو گا ۔“ حالا نکہ جب عر ب حضرا ت نے ملیشیااور انڈونیشیا میں تجارت کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق تجا ر ت کی جس کی وجہ سے وہ ان جزیروں پر چھا گئے اور سب جزیرے مسلمان ہو گئے ۔ ایک عجیب و اقعہ میں ایک دفعہ ایئر پور ٹ کے ڈائریکٹر کو ذاتی کام سے ملنے گیا ۔ فوراً ملا قات ہو گئی ۔ ابھی میں نے با ت شروع ہی کی تھی کہ ایک بوڑھا بدو ڈائریکٹر کے دفتر میں جلدی سے داخل ہو ا اور اونچی اونچی آواز میں ڈائریکٹر کو سخت سست کہنا شروع کیا ۔ اس کے الفا ظ غیر مہذب لو گو ں کی طر ح تھے ۔ میں نے دیکھا کہ ڈائریکٹر صاحب دفتر سے فوراًنکلے اور غائب ہو گئے ۔ اب بوڑھے بدو کو خامو ش ہو نا پڑ ا۔ تھو ڑی دیر وہ دفتر میں دیکھتا رہا اور چلا گیا ۔ جب ڈائریکٹر نے دیکھا کہ بڑے میا ں چلے گئے ہیں تو دفتر میں آیا اور مجھے بتا یا کہ اس ملک میں جھگڑا نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ اگر آپ سے کوئی بد تمیزی کرے تو دفتر چھو ڑ کر چلے جا ﺅ ، معاملہ بڑھے گا نہیں ۔ نیز اس نے بتایا کہ اس کی داڑھی سفید تھی جس کی میں قدر کرتا ہو ں ۔ یہ صرف دین سے لگاﺅ کا اثر ہے۔ حج کے مو قع پرجدہ ایئر پورٹ پر حجاج کی تلا شی اور اُن کے سامان کو اچھی طر ح چیک کر تے ہیں مگر بو ڑھے حاجیو ں کو تنگ نہیں کر تے ۔ با قی حضرات کو اچھی طر ح چیک کیا جاتاہے ۔ اسی طر ح عورتو ں کو بھی معا ف نہیں کیا جا تا ۔ دیانت و اعتما د آپس میں ایک دوسرے کا سلوک بہت اچھا تھا اور ایک دوسرے پر اعتما د بہت کر تے ۔ ایک دفعہ بنک میں میں اپنے کا م کے لیے گیا تو ایک سعودی ریا لو ں کا بنڈل لایا اور خزانچی کو بنڈل اور اکا ﺅنٹ نمبر دے کر جانے لگا ۔ خزانچی نے رقم کی تفصیل دریا فت کی تو مالک نے کہا کچھ لا کھ ریال ہیں ان کو گن کر میرے اکاﺅنٹ میں جمع کر دینا ۔ اس نے خو د گننے کی تکلیف گوارانہ کی ۔ سادگی ، مسا وا ت دین پر عمل کرنے کی وجہ سے افسران میں سا دگی بہت زیا دہ تھی ۔ وزیر ، اس کے کلرکو ں اور چپڑاسیو ں کا ایک ہی لبا س تھا ۔ صرف جب کرسی پربیٹھے ہوتے تو فرق کا پتہ چلتا ۔ اسی طر ح تمام ملا زمین خوا ہ وزیر یا چپڑاسی ہو ، اکٹھے نما زپڑھتے ۔ ایک دفعہ میں وزیر صحت کو ملنے گیا ۔جماعت ہو رہی تھی ، میں جماعت میں شر یک ہو گیا ۔ نما ز کے بعد جب وزیر صحت کو ملنے گیا تو میرے ساتھ نماز وہی پڑھ رہا تھا ۔ کئی ضیا فتو ں میں شرکت کی تو یہ دیکھا کہ وزیر ، ڈائریکٹر ، ان کے ڈرائیور اور کلرک، کھا نا ایک ساتھ اکٹھے کھا تے تھے ۔ اگر کسی کا م کے لیے درخوا ست لکھنی ہو تی تو درخوا ست کے اوپر ” جناب عالی گزارش ہے “ کی بجائے المحترم ۔ السلام علیکم و رحمة اللہ و بر کا تہ “ لکھتے تھے اور درخواست کے اخیر میں ” والسلام “ کے بعد اپنا پورا نام اور پتہ لکھ دیتے تھے ۔ سننے میں آیا کہ اگر وزیر یا ڈائریکٹر کی بیگم سعودی ہو تی تو اپنی نوکرا نیو ں کے ساتھ اکٹھی بیٹھ کر کھا نا کھا تی ہے ۔ ہمارے اسپتال کے معائنہ کے لیے ایک دفعہ وزیر صحت آئے ۔ اسپتال میںکوئی تیا ری نہ کی گئی ، حتیٰ کہ جھا ڑو تک نہ دیا گیا ۔ تمام ملازمین اپنے کا موں میںمشغول رہے ۔ اسپتال کے سربرا ہ نے وزیر صاحب کو تمام اسپتال کا دورہ کر ایا ۔ میں مریضو ں کو دیکھنے میں مشغول تھا۔ وزیر صاحب مجھے دفتر میں ملے ۔ نہ پولیس ساتھ تھی نہ ہٹو بچو کی بات تھی ۔وزیر صاحب برآمدوں میں سڑک پر پبلک کے آدمیو ں اور مریضو ں کو مل رہے تھے اور ان کی مشکلا ت پوچھ رہے تھے ۔ یہ سارا معاملہ دین کی بر کت سے تھا۔ پولیس وہا ں کی پو لیس تو لو گو ں کے لیے رحمت تھی ۔ غر یب لو گو ں کی مدد کرنا، ان کے مسائل متعلقہ محکموں تک لے جا نا ، حادثات کی صور ت میں لوگو ں کی مدد کر نا پولیس کا کا م تھا ۔ لو گ پولیس کے ذریعے مسائل حل کرواتے تھے اس لیے اختلافات ، دشمنیا ں دیکھنے میں نہ آتی تھیں ۔ مجر م کو سزا ضرور ملتی خوا ہ جتنا ہی بڑا افسر ہوتا۔ میں ایک بڑے افسر کے ساتھ اس کی گا ڑی میں جا رہا تھا ۔ اس افسر نے No Entry کا بورڈ نہ پڑھا ، اس لیے پو لیس والو ں نے پکڑ کر چالان کر دیا اور اس افسر کو جرما نہ دینا پڑا ۔ ایک دن میں اپنے آﺅٹ ڈور میں مریضوں کو دیکھ رہا تھا ، مریضو ں کی لمبی قطار لگی ہوئی تھی جس میں ایس پی اور ڈائریکٹر کھڑے ہو ئے تھے ۔ میں نے چپڑاسی بھیج کر ان کو اند ر بلوایا ، مگر ان دونو ں نے یہ جوا ب دیا کہ یہ پاکستان نہیں ہم اپنی باری پر آئیں گے ۔ خصو صی عدالتیں خانگی جھگڑے وقت پر ختم کرنے کے لیے یہ عدالتیں موجو د تھیں ۔ اسی طر ح جا ئیداد ، کرا یہ دارو ں اور وراثت کے معاملات وکیلو ں کے نہ ہونے کی وجہ سے جلد ی ختم ہو جا تے ۔ اسی وجہ سے عدالتیں اکثر خالی نظر آتی تھیں ۔ تعلیم تعلیم کے متعلق گو رنمنٹ بہت مدد کر تی تھی ۔ تعلیم تمام مفت تھی بلکہ کتا بیں بھی مفت تھیں تا کہ غریب تعلیم سے پورا پورا فائدہ اٹھا سکیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری دینا بھی سر کا ر کی ذمہ داری تھی ۔ میرے خیال میں کوئی بھی دوسرا ملک اتنی امداد نہیں دیتا جتنی سعو دی گورنمنٹ دیتی ہے ۔جب کسی سعودی کے گھر بچہ پیدا ہو تا تو پہلے دن سے ہی وظیفہ شروع ہو جاتاجو سکول اور کالج پر بڑھتا جا تا ہے۔ ازدواجی زندگی سعودی حضرات کی ازدواجی زندگی بڑی پرسکون رہتی تھی جب تک ان کی بیگمات سعودی تھیں ۔ ایک سعودی ڈائریکٹر نے مجھے اپنے گھر بلا یا اور سعودی زندگی کی جھلک دکھائی ۔اس کی چار بیویاں تھیں ۔ ایک بہت بڑے گراسی پلا ٹ کے چاروں کونوں پر ہر ایک بیو ی کو علیحدہ کو ٹھی بنا دی تھی اور گراسی پلاٹ میں ہر سائز کے لڑکے اور لڑکیا ں کھیل رہے تھے ۔ مجھے اس نے بتایا کہ اس کے67بچے اور بچیا ں تھیں اور کیو نکہ وہ امیر کبیر آدمی تھا ، اس اولا د کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس کو بہت کچھ دیا تھا ۔ پھر اس نے بتایا کہ اگر کسی سعودی کے گھر کوئی غیر سعودی عورت مثلا شامی یا مصری آجا تی تو گھر کا سکون بر باد ہو جا تا ۔ ایک دن اس ڈائریکٹر نے اپنی بڑی گاڑی میں 20 بچے دکھا نے کے لیے لا کر ان کی لائن لگا دی ۔ وہ سب کھانسی سے بیمار تھے ۔ میں جب مریض کا نام لکھا تو بچے کا نام نہ باپ کو یا د تھا اور نہ ما ں کو ۔ صر ف بچے یا بچی نے اپنانام بتا یا ۔ سعودی ڈائریکٹر نے بتایا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اربوں ریا ل دئیے اور اتنی بڑی زمیں دی ۔ اس لیے اتنے بچے ہمارے لیے بو جھ نہیں ۔ یہ سن کر میرا دل خو ش ہو گیا ۔ صدقہ خیرات صدقہ خیرات ، صحیح زکوٰ ة نکالنے میں یہ حضرات بہت خو ش ہو تے تھے ۔ دوسرے لو گو ں پر خر چ کرنا ان کا شیوہ تھا۔ جو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کی عادات تھیں ۔ اس وجہ سے سعودی عرب میں سوائے مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کے جہا ں بھی بھکاری ملتے ہیں وہ غیر ملکی ہیں او رکہیں آپ کو بھکاری نہیں ملے گا۔ سارے شہر میں ہم نے جس کو غریب سمجھا وہ کروڑ پتی نکلا ،دوسروں پر خرچ کرنے کا نظارہ آپ رمضان المبا رک میں حرمین شریفین میں بخو بی دیکھ سکتے ہیں ۔ افطاری کے وقت سعودی حضرات منتیں کر تے ہیں کہ ان کے دسترخوان کو شر ف بخشیں ۔ یہ صفت کسی اور قوم میں اس درجہ کی نہیں پا ئی جاتی اور یہ بھی دین پر عمل کرنے کی بر کا ت ہیں ۔ جنا زہ کئی جنازو ں میں شر کت کی ۔ جنا زہ کے بعد دعا نہیں پڑھتے تھے اور فرماتے کہ ہم نے تو نیت میں دعا کا ارا دہ کر لیا تو اس کے بعد پھر دعا کا کیا جواز ہے ۔ قرآن خوانی ، قل خوانی ، جمعراتیں ، عرس وغیرہ دیکھنے میں نہیں آئے۔ جنازہ کے وقت لو گ دریا فت کر لیتے کہ متوفی نما زپڑھتا تھا یا نہیں ، اگر نماز میں سستی کر تا تھا تو لوگ بغیر نما ز جنا زہ پڑھے چلے جا تے ۔ایک دفعہ میں نے خود دیکھا کہ ایک عربی آیا اس نے مرنے والے کے بھائی سے پو چھا کہ تمہارا بھائی نمازی تھا اس نے کہاکہ نمازمیں سستی کر تا تھا ۔ وہ بغیر جنا زہ پڑھے چلاگیا ۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 386 reviews.