المجالس السنیة شرح الاربعین النوویة)صفحہ نمبر۰۴ ( پر شیخ احمد نے اور دیگر علماءنے لکھا ہے کہ ایک شخص ابن حمیر کے نام سے مشہور تھا ۔ بڑا عبادت گزار، قائم اللیل و صائم النھار تھا اور شکار کا بھی عادی تھا۔ ایک دن شکار کےلئے نکلا تو ایک دن ایک سانپ اس کے سامنے آیا اور کہا اے محمد بن حمیر مجھے پناہ دے دو ،اللہ تعالیٰ تمہیں بھی پناہ دے ۔اس نے کہا تم کس سے پناہ چاہتے ہو ۔کہا ایک دشمن سے جس نے مجھ پر ظلم کیا ہے۔ اس نے پوچھا تیرا دشمن کہا ں ہے؟ کہا میرے پیچھے ہے۔ اس نے پوچھا تم کس امت سے ہو؟ کہا میں امت محمد ا سے ہوں۔
وہ شخص بیان کرتا ہے کہ میںنے اپنی چادر پھیلائی اور اس سے کہا تم اس میں داخل ہو جاﺅ۔ اس نے کہا مجھے دشمن دیکھ لے گا۔ میں نے کہا پھر میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟ کہنے لگا اگر تم نیکی کا کام کرنا ہی چاہتے ہو تو اپنا منہ کھولو تاکہ میں اس میں داخل ہو جاﺅں؟ میں نے کہا مجھے ڈر ہے کہ تم مجھےڈس لو گے؟ کہا اللہ کی قسم! میں تجھے نہیںڈسوں کروں گا اس پر اللہ گواہ ہے اور اس کے فرشتے بھی اور رسول بھی اور اس کے عرش کو اٹھانے والے اور آسمانوں پر رہنے والے فرشتے بھی۔ وہ شخص کہتا ہے کہ میں نے اپنا منہ کھولا اور وہ اس میںگھس گیا۔ پھر میں چل پڑا۔ اچانک میرے سامنے ایک شخص نمودار ہوا جس کے ہاتھ میں ایک نیزہ بھی تھا، اس نے کہا اے محمد! میں نے کہا کیا چاہتے ہو؟ کہا تم نے میرے دشمن کو دیکھا ہے؟ میں نے کہا تمہارا دشمن کو ن ہے؟ کہا قیل سانپ۔ میں نے کہا نہیں اور اپنی اس بات سے سو بار استغفار کیا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ وہ کہاں ہے۔ پھر میں کچھ آگے چلا تھا کہ سانپ نے میرے منہ سے اپنا سر نکالا اور کہا کہ دیکھو میرا دشمن چلا گیا ہے؟ تو میں نے ہر طرف دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہ آیا تو میں نے اس سے کہا مجھے کوئی بھی نظر نہیں آرہا ہے اگر تم نکلنا چاہتے ہو تونکل آﺅ۔اس نے کہا اے محمد! اب تم دو باتوں میں سے ایک کا انتخاب کر لو یا تو میں تمہارا جگر ٹکڑے ٹکڑے کر دوں یا تمہارے دل میں سوراخ کر دوں اور تمہاری جان نکال دوں۔ میں نے کہا سبحان اللہ! وہ وعدہ کہاں گیا جو تو نے مجھ سے باندھا تھا اور وہ قسم کہا ںگئی جو تو نے کھائی تھی، تم اتنی جلدی بھول گئے ہو؟ وہ کہنے لگا اے محمد! تم وہ عداوت کیو ں بھول گئے ہو جو میرے اور تیرے باپ آدم کے درمیان سے چلی آرہی ہے ۔ تم نے کس بنا پر نااہل سے ہمدردی کی ہے؟ میں نے کہا کیا تم لازماً مجھے قتل کرنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا ہاں میں لازماً قتل کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے اس سے کہا تم مجھے اتنی مہلت دے دو کہ میں اس پہاڑ تک پہنچ جاﺅں اور اپنے لئے قبر کی کوئی جگہ بنا لوں۔ اس نے کہا تمہاری مرضی ۔ چنانچہ میں پہاڑ کی طرف چل پڑا اور زندگی سے نا امید ہو گیا اور اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اور کہا:
”یَا لَطِیفُ یاَ لَطِیفُ اُلطُف بِی بِلطُفِکَ الخَفِیِّ یاَ لَطِیفُ بِالقُدرَةِ الَّتِی استَوَیتَ بِھَا عَلَی العَرشِ فَلَم یَعلَمِ العَرشُ اَینَ مُستَقَرُّکَ مِنہُ اِلَّا مَا کَفَیتَنِی ھٰذِہِ الحَیَّةَ “
”اے لطیف اے لطیف! مجھ پر اپنے مخفی لطف کے ساتھ لطف فرما۔ اے لطیف اپنی اس قدرت کے ساتھ جس کی طاقت سے تو عرش پر مستوی ہوا اور عرش کو بھی علم نہ ہوا کہ اس پر تیرا مستقر کہاں ہے۔ بس مجھے اس سانپ سے نجات دے دے۔ ‘ ‘
پھر میں چل پڑا۔ اچانک میرے سامنے ایک حسین چہرہ والا پاکیزہ خوشبو والا، صاف لباس والا شخص ظاہر ہوا اور سلام کیا میں نے ”وعلیکم السلام اے میرے بھائی۔“اُس نے کہا کیا بات ہے تمہارا رنگ کیوں اڑا ہوا ہے؟ میں نے کہا ایک دشمن نے مجھ پر ظلم کیا ہے۔ کہا تیرا دشمن کہا ں ہے۔ میں نے کہا میرے پیٹ میں ۔ اس نے مجھے کہا اپنا منہ کھولو میں نے اپنا منہ کھولا تو اس نے اس میں سبز زیتون کی طرح کا ایک پتہ ڈالا اور کہا کہ اس کو چبا کر نگل لو تو میں اس کوچبا کر نگل گیا۔
وہ کہتا ہے کہ میں کچھ ہی دیر ٹھہرا تھا کہ میرے پیٹ میںمروڑ پیدا ہوا اور پیٹ میں گردش شروع ہوئی پھر اس پتے نے اس سانپ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے پیٹ سے نکال دیا۔ جب مجھے سانپ سے نجات مل گئی تو میں اس شخص سے لپٹ گیا اور کہا کہ اے بھائی تم کون ہو؟ جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان کیا ہے۔ تو وہ ہنس پڑا اور کہا تم مجھے نہیں جانتے؟ میں نے کہا نہیں۔ کہا جب تم نے سانپ کو پناہ دینے کے بعد اس کی بد عہدی کو دیکھ کر پریشانی کا اظہار کیا اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی تو ساتوں آسمانوں میں ہلچل مچ گئی اور وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پکار اٹھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے جلال و عزت کی قسم کھائی کہ سانپ نے میرے بندے کے ساتھ جو کچھ دھوکہ کیا ہے میں اس کے خلاف اپنے بندے کی ضرور مدد کروں گا۔ پھر مجھے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمہاری طرف روانہ کیا۔ میرا نام معروف ہے میں چوتھے آسمان پر رہتا ہوں۔ اللہ نے ہی مجھے حکم فرمایا کہ جنت میں جاﺅ اور ایک سبز پتہ لیکر اس کو میرے بندے محمد بن حمیر کے پاس لے جاﺅ۔ اے محمد! تم نیک کام کیا کرنا اور برائی کے مقامات سے اجتنا ب کرنا اگرچہ تم نے جس سے نیکی کی ہو وہ اس کوضائع کیوں نہ کر دے۔ جو کچھ اللہ کے پاس ہے اللہ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرے گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں